• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں طویل عرصہ تک بجلی کی شدید قلت رہی جسے دور کرنے کے لئے سابق حکومتوں نے کئی اقدامات کئے، ان میں بجلی پیدا کرنیوالی مقامی یا بین الاقوامی کمپنیوں (آئی پی پیز) کے ساتھ معاہدے بھی شامل تھے۔ بجلی کا شارٹ فال اس کے باوجود ختم نہ ہوا۔ اب پتا چلا ہے کہ ان کمپنیوں سے پوری بجلی تیار ہی نہیں کرائی جاتی تھی جبکہ انہیں ان کی پیداواری گنجائش کے مطابق پوری ادائیگی کی جاتی تھی۔ گویا جو بجلی بنائی گئی، نہ لی گئی، اس کی ادائیگی بھی کر دی گئی اور اس کا بوجھ صارفین پر ڈال دیا گیا۔ سپریم کورٹ نے آئی پی پیز کو زائد ادائیگیوں سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران اس حوالے سے مکمل رپورٹ طلب کر لی ہے جو آئندہ سماعت کے وقت عدالت میں پیش کی جائے گی۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے ہمارے گلے کا پھندا بنے ہوئے ہیں۔ نجی پاور پلانٹس چہیتے ہیں۔ ان سے پوری بجلی لی نہیں لیکن پورے پیسے دے دیئے بجلی عام صارفین کو ملی نہ صنعتوں کو۔ پتا نہیں اس وقت کون لوگ تھے جنہوں نے معاہدے کئے۔ ان کے نتیجے میں اربوں کھربوں کا سرکلرڈیٹ بن گیا۔ معاملہ نیب کو بھجوا دیتے ہیں۔ جسٹس اعجاز الحسن کے ریمارکس تھے کہ ہر بجلی گھر کو 159ملین سے زائد کی ادائیگی ہوئی گویا 10آئی پی پیز کو ایک ارب59کروڑ ڈالر اضافی دیے گئے۔پاور کمپنیوں کے وکیل نے عدالت کے اس سوال پر کہ بجلی کا شارٹ فال تھا مگر آپ نے سپلائی نہیں کی، بتایا کہ آئی پی پیز نیشنل پاور کنسٹرکشن کارپوریشن کی ڈیمانڈ پر بجلی بناتی ہیں وہ ڈیمانڈ دیتی ہے تو آئی پی پیز بجلی بناتی ہیں۔ سیکرٹری پاور ڈویژن کا کہنا تھا کہ حکومت نے آئی پی پیز سے جو معاہدہ کر رکھا ہے اس کے تحت کمپنیوں کو ان کی استعداد کے مطابق ادائیگیاں کی جاتی ہیں بجلی خریدیں، نہ خریدیں ادائیگی کرنا پڑتی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ دنیا بھر میں اس طرح کے معاہدے منسوخ کئے جا رہے ہیں۔ کیس کی مزید سماعت14جنوری کو ہو گی جب معاملے کی مکمل رپورٹ عدالت میں پیش کی جائے گی اور مزید حقائق سامنے آئیں گے لیکن بادی النظر میں یہ بات مضحکہ خیز لگتی ہے کہ بجلی کا شارٹ فال موجود ہے، صنعتوں کا پہیہ جام ہورہا ہے، گھریلو صارفین الگ پریشان ہیں مگر بجلی کی پیداوار کے ایک ذریعے کو استعداد کے مطابق پوری طرح استعمال نہیں کیا جا رہا اور جانتے بوجھتے بھی اسے مکمل ادائیگیاں کی جا رہی ہیں۔ یہ ہمارے نظام کی خرابی ہے یا اسے چلانے والوں کی نااہلی اور نیتوں کا فتور کہ جو چیز خریدی ہی نہیں گئی بلاتکلف اس کی قیمت ادا کی جا رہی ہے۔ سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کے دوران اسی بات کی نشاندہی کی ہے۔ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں کے وقت معاملے کے منفی پہلوئوں کو شاید نظر انداز کیا گیا یا ان پر عملدرآمد کے منطقی تقاضے پورے نہیں کئے گئے جس کے نتیجے میں یہ نقصان دہ صورت حال سامنے آئی۔ ملکی معیشت اور لوگوں کی گھریلو زندگی آسان بنانے کے لئے بجلی جتنی ضروری ہے اتنا ہی ضروری اس کی پیداوار تقسیم اورترسیل کے نظام کو موثر اور منضبط بنانا ہے۔ آئی پی پیز کا کام بجلی بنانا ہے باقی سب کچھ حکومتی اداروں نے کرنا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ان اداروں نے لائن لاسز پر قابو پایا ہے شارٹ فال دور کرنے کے لئے کمپنیوں کو پیداواری گنجائش کے مطابق بجلی پیدا کرنے کو کہا ہے؟اگر نہیں تو انہوں نے اپنے فرائض میں غفلت برتی۔ یہ کیوں نہیں سوچا کہ کم بجلی لے کر انہیں زیادہ ادائیگیاں کیوں کی جارہی ہیں۔ انہیں روکا کیسے جائے۔ بجلی کی تقسیم کے لئے ڈسٹری بیوشن کمپنیاں بنائی گئیں کہا گیا کہ انہیں خود مختار بنائیں گے، پرائیویٹائز کریں گے، کیا ایسا کیا گیا؟ اس وقت بجلی کی طلب 14480اور رسد14500میگا واٹ ہے یعنی پیداوار زیادہ ہے مگر تقسیم کا نظام درست نہ ہونے اور بجلی چوری جاری رہنے کے باعث آج بھی اکثر علاقے کئی کئی گھنٹے بجلی سے محروم رہتے ہیں۔ عدالت نے آئی پی پیز کو زائد ادائیگیوں کے معاملے کا نوٹس لے کر حکومت کو اصلاحِ احوال کا موقع دیا ہے جس سے فائدہ اٹھنا چاہئے۔

تازہ ترین