• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دوست ممالک کے اقتصادی پیکیجز سے پاکستان کا مالیاتی بحران فی الحال ٹل گیا ہے مگر معیشت کو درپیش متعدد چیلنج اور خطرات بدستور برقرار ہیں۔ دراصل جن وجوہات کی وجہ سے یہ خرابیاں پیدا ہوتی رہی تھیں ان کو دور کرنے کیلئے کچھ بنیادی معاشی اصلاحات کی ضرورت ہے،وہ کی ہی نہیں جا رہیں کیونکہ ان سے طاقتور طبقوں کے ناجائز مفادات پر ضرب پڑتی ہے۔ تحریک انصاف نے انتخابات سے پہلے معیشت کی بحالی کیلئے جو 10نکاتی ایجنڈا پیش کیا تھا اس میں کہا گیا تھا ’’پہلے 100روز کے دوران معیشت کی بحالی اور قرضوں پر انحصار کم کرنے کیلئے کاروبار دوست اور عدل پر مبنی ٹیکس پالیسی وضع کی جائے گی‘‘۔ صاف ظاہر ہے کہ تحریک انصاف کو اس حقیقت کا ادراک تھا کہ ٹیکسوں کے نظام میں عدل پر مبنی بنیادی اصلاحات کئے بغیر نہ تو پاکستان کی بیمار معیشت میں پائیدار بہتری آ سکتی ہے اور نہ ہی قرضوں پر انحصارکم ہو سکتا ہے۔ گزشتہ 25سے زائد برسوں سے مختلف حکومتیں ٹیکسوں کی چوری روکنے اور ہر قسم کی آمدنی پر مؤثر طور پرٹیکس وصول کرنے کے سیاسی نعرے توتواتر سے لگاتی رہی ہیں مگر اس ضمن میں وفاق اور صوبوں کی جانب سے جس قانون سازی اور فیصلوں کی ضرورت ہے وہ نہ پہلے کبھی کئے گئے اور نہ اب کئے جا رہے ہیں۔

موجودہ حکومت کا یہ مؤقف رہا تھا کہ اگر دوست ملکوں سے امداد مل گئی تو آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ یہ صرف اس وقت ممکن ہوتا جب دوست ملکوں سے قرضوں کے پیکیجز کے اعلانات کے ساتھ ہی معیشت کی پائیدار بحالی کیلئے خودانحصاری کے زریں اصولوں پر مبنی اصلاحات نافذ کرنا شروع کر دی جاتیں جس میں سرفہرست ٹیکسوں کے منصفانہ نظام کا نفاذ ہوتا۔ بدقسمتی سے پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیاں تو کجا وفاقی کابینہ بھی عدل پر مبنی ٹیکسوں کا نظام نافذ کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ معیشت کی پائیدار بہتری کیلئے قومی بچتوں کا بڑھانا بھی ازحد ضروری ہوتا ہے۔ اس مقصد کےحصول کیلئے بینکوں کو پابند کرنا ہو گا کہ وہ معاہدے کے مطابق اپنے کھاتے داروں کو اپنے منافع میں شریک کریں۔ اسٹیٹ بینک کے احکامات کے تحت نفع و نقصان میں شراکت کی بنیاد پر کھولے گئے کھاتوں پر دی جانے والی شرح منافع کو بینکوں کے منافع سے منسلک کرنے کے بجائے عملاً اسٹیٹ بینک کے پالیسی ریٹ (شرح سود)سے منسلک کر دیا گیا ہے۔ یہ احکامات کھاتے داروں کے ساتھ کئے گئے معاہدے اور بینکنگ کمپنی آرڈیننس 2001کی شق 4-26؍الف اور 40؍الف کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے جو گزشتہ 16برسوں سے کی جاتی رہی ہے۔ اس کی وجہ سے داخلی بچتوں کی شرح جو 2001-02میں 16.1فیصد تھی 2017-18میں کم ہو کر صرف 6.1فیصد رہ گئی۔ جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکسوں کی وصولی،قومی بچتوں اور مجموعی سرمایہ کاری کی مد میں پاکستان اپنے جیسے ترقی پذیر ملکوں کے مقابلے میں تقریباً 11000؍ارب روپے سالانہ کم حاصل کر رہاہے۔

اس کمی کو پورا کرنے کیلئے مؤثر اقدامات اٹھانے کے بجائے موجودہ حکومت 2018-19میں ایک اور ضمنی بجٹ پیش کرنے کے علاوہ نہ صرف آئی ایم ایف، ایشیائی ترقیاتی بینک، عالمی بینک اور اسلامی ترقیاتی بینک جدّہ بلکہ بڑے پیمانے پر داخلی قرضے بھی لے رہی ہے۔ حکومت پاکستان کی اہم دستاویز ’’وژن 2025‘‘ جو 2014میں جاری کی گئی، میں کہا گیا ہے کہ 2018(i) سے معیشت کی شرح نمو 8فیصد سے زائد رہے گی۔ (ii)داخلی بچتوں کو 2025تک 21فیصد کی شرح تک پہنچایا جائے گا (موجودہ شرح صرف 6.1فیصد ہے) (iii) 2025تک 100فیصد بچّے پرائمری اسکولوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہوں گے (وطن عزیز میں 23ملین بچّے اسکول جا ہی نہیں رہے) 2025(iv) تک فی کس آمدنی کے لحاظ سے پاکستان متوسّط آمدنی والے ملکوں کی بالائی سطح پر آ جائے گا (v) 2025تک پاکستانی برآمدات 150؍ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گی۔

مندرجہ بالا اہداف کے حاصل ہونے کا قطعی کوئی امکان نہیں ہے۔ موجودہ مالی سال اور اگلے مالی سال میں معیشت کی اوسط شرح نمو اس شرح نمو سے بھی کم رہے گی جو 2017-18میں گزشتہ حکومت کے دور میں حاصل ہو چکی تھی۔ بیرونی قرضوں اور سی پیک کے تحت بیرونی ذمہ داریوں کی ادائیگی کیلئے پاکستانی برآمدات میں تیزی سے اضافہ کرنا انتہائی ضروری ہے وگرنہ آنے والے برسوں میں ایک اور مالی بحران پاکستان کا منتظر ہو گا۔ وزیراعظم عمران خان بیرونی وسائل بڑھانے کیلئے (i)بیرونی ملکوں سے آنے والی ترسیلات کے حجم کو 20؍ارب ڈالر سے بڑھا کر 35؍ارب ڈالر تک لے جانے (ii)لوٹی ہوئی دولت کے ایک بڑے حجم کو بیرونی ممالک سے پاکستان واپس لانے اور (iii)سمندر پار پاکستانیوں کی جانب سے ملک میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری حاصل کرنے پر انحصار کر رہے ہیں۔ ان شعبوں میں آئندہ برسوں میں کوئی بڑی کامیابی حاصل ہونے کا امکان نہیں ہے۔

یہ بات نوٹ کرنا اہم ہے کہ 2011کے مقابلے میں 2018میں ترسیلات کے حجم میں 8.4؍ارب ڈالر کا اضافہ اور برآمدات میں 1.6؍ارب ڈالر کی کمی ہوئی ہے۔ گزشتہ 5برسوں میں پاکستان کو 135؍ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ ہوا جبکہ 93؍ارب ڈالر کی ترسیلات کو تجارتی خسارے کی مال کاری کیلئے استعمال کیا گیا (حالانکہ ترسیلات کا بڑا حصّہ سرمایہ کاری کیلئے استعمال کیا جانا چاہئے تھا)یہ آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے خصوصاً اس لئے بھی کہ ترسیلات کا تقریباً 46فیصد صرف سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے آیا تھا۔ انہی دونوں ملکوں سے موجودہ حکومت نے بھی اقتصادی پیکیجز حاصل کئےہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ بیرونی اور ملکی وسائل میں ہم آہنگی قائم کی جائے اور تحریک انصاف کے 2013اور 2018کے انتخابی منشور اور وعدوں کی روشنی میں تیزی سے اصلاحات کی جائیں تاکہ آئی ایم ایف سے تین سالہ پیکیج لینے کے باوجود ایک سال بعد ہی قرضے کی بقایا اقساط لینے کے بجائے آئی ایم ایف کے پروگرام سے باہر آیا جا سکے۔

تازہ ترین