• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چھ برس قبل، ستمبر 2012ء میں نے ’’یہ جملہ صدر کا استحقاق ہے‘‘ کے عنوان سے لکھے گئے اپنے ایک کالم میں صدر زرداری کے حوالے سے چند معروضات پیش کی تھیں۔

2018ء کے حالیہ انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی نے جس طرح حزب مخالف کی تمام جماعتوں کو ’’پارلیمنٹ کا فورم‘‘ نہ چھوڑنے پر آمادہ کیا، اس پس منظر میں مجھے سابق صدر کے تناظر میں اپنی وہ گزارشات یاد آ گئیں۔ آپ ایک بار پھر اُن سے لطف اندوز ہوں:۔

میں مملکت خداداد پاکستان کا تقریباً ہم عمر ہوں۔ ایک آدھ برس بڑا ہی ہوں گا میں خود کو پہلے مارشل لا سے لے کر آج تک اپنے وطن کے دروبام کے اندرون اور بیرون واقعات و احوال کا عینی شاہد کہتا ہوں۔ قومی سیاستدانوں کی قید و بند کی ساری تاریخ بھی میرے سامنے لکھی جاتی رہی۔ سیّد مودودی، عبدالولی خان، غوث بخش بزنجو، عطاء اللہ مینگل، نواب اکبر بگٹی، چوہدری ظہور الٰہی اور ذوالفقار علی بھٹو جیسی چند مقتدر شخصیات کے جیلوں میں گزرے شب و روز کی داستانیں پاکستان کے عام آدمی کو احترام و وقار کے جذبات سے سرشار کر دیتی ہیں۔ مراد یہ ہے کہ پاکستان کی قومی لیڈر شپ کا دامن چند دریوزہ گروں سے کہیں زیادہ بلند ہے۔ یہ دریوزہ گر شعوری یا لاشعوری طور پر پاکستانیوں کو اس وطن کی دھرتی کے بانجھ ہونے کا یقین دلانا چاہتے ہیں حالانکہ یہ خود خیر خواہوں سے محروم ہو چکے اور ان کے ہاں صراطِ مستقیم کے امکانات معدوم ہونے کی سرحدوں تک آ پہنچے ہیں۔

پاکستان اور پاکستانیوں کو ایک باوقار زندگی دلانے کی خاطر ان تاریخ ساز قومی رہنمائوں کی طرح ہی صدر زرداری نے بھی قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر کے اپنا نام‘ نامور لیڈروں کی صف میں شامل کروایا۔ ان کا کوئی حرف ِشکایت ریکارڈ پر نہیں، کسی سہولت کا مطالبہ نہیں کیا گیا۔ ضمانت و رہائی کے لئے کسی خفیہ دروازے کی جانب نگاہ نہیں اٹھائی گئی۔

ایسے منفی خبر نگاروں اور تجزیہ کاروں کی میرے جیسے بوڑھے صحافتی مسافروں کے ہاں کوئی جگہ نہیں مل سکتی جن کی عمر سنسنی خیز اسٹوریوں کی رائیگاں محنت میں گزر گئی۔ زندگی کی شام نے جب دامن جھاڑا تب بھی وہ ویسا ہی خالی تھا جیسا پہلے روز کسی اخبار کی سیڑھیاں چڑھتے وقت، عزت و خود داری کے ساتھ جیل میں گزارے برسوں کے بعد سابق صدر زرداری کی رہائی، ہرزہ سرائی، یاوہ گوئی اور خود ساختہ قانونی تعبیروں کی شکست تھی۔ یہ رہائی حکمرانوں اور سیف الرحمٰن جیسے غیر معیاری ادراک رکھنے والے افراد کے اناڑی پن کا ثبوت تھی اور وقت کی صبر آزما گردشوں کی فتح۔ یہ ان تمام ریاستی و غیر ریاستی حکمرانوں، افرادی گروہوں اور اہلکاروں کی زندہ موت تھی جنہوں نے اپنے دنیاوی اقتدار اور عیاشیوں کے حفاظتی سفر میں قوم کو ذہنی پراگندگی کا شکار کرنے کی کوشش کی۔ ثابت ہو چکا کہ کسی کے خلاف انفرادی یا اجتماعی ہنگامہ آرائی اور دیوانگی سے اکثر بات نہیں بنا کرتی۔ نظریاتی کمٹمنٹس اور تخلیقی سفر حیات کے دوش پر یہ کہنا حقیقتاً صدر ہی کا استحقاق ہے کہ خود کو زمینی خدا سمجھنے والے پناہ ڈھونڈ رہے ہیں۔ یہی جمہوریت کا انتقام ہے۔ مخالف تحریری جنگجوئوں کے مقابلے میں صدر صبر، سچائی اور شجاعت کے راستے پر گامزن رہے وہ اس منزل کے قریب تر ہیں جس کا آخری سنگ میل پاکستان کی جغرافیائی بقا اور پاکستانیوں کو ایک لبرل جمہوری طرز زندگی کے مستقلاً نصیب ہونے سے ہے۔ یعنی مطلوب آئینی مدت کے بعد مسلسل قومی انتخابات کا انعقاد۔

ہم نے پاکستان کی قومی زندگی میں چار فوجی دورانیے بھگتے۔ ملک دو لخت ہوا، منتخب جمہوری حکومتوں کو غیر آئینی طور پر برطرف کر کے پاکستانیوں کو ان کے ووٹ کی توہین کا کھلا پیغام ملا۔ انفرادی سطح پر نیکی کے غلبے میں عدم توازن کے قیدیوں نے پاکستانی ماحول کو خون ریز، عدم برداشت کی جان لیوا وادی میں دھکیل دیا، جنرل (ر) پرویز مشرف اپنی کچی خود اعتمادی کی بنیاد پر ملک کو سیاسی اور خارجی سطحات پر مشکوک فہرست میں ڈیکلیئر کروا کے رخصت ہوئے، بہرحال پاکستان کے عام آدمی نے ووٹ کی آرزو اپنے دل سے اتاری نہیں اور ووٹ کی پرچی ہاتھ سے چھوڑی نہیں تاآنکہ 2008ء میں اس کی یہ آرزو پھر بر آئی۔ اس نے اس پرچی سے ہی خود اپنی حکومت کے قیام کا فیصلہ کیا۔ پاکستانیوں کے قلوب پر ووٹ کی یہ آرزو اب جارحانہ تسلط اختیار کر چکی ہے۔ اس تسلط کا انہوں نے موجودہ قومی انتخابات میں شدید گرمی اور حبس کے باوجود اپنے ووٹ ٹرن اوور کے فیصد تناسب سے مکمل طور پر اظہار کیا۔ اس پرچی کو انہوں نے قومی پیمانے پر بڑی مضبوطی سے اپنی مٹھی میں بند کر رکھا ہے۔ جمہوری تسلسل کی فصل میں چھپے درانتی باز گو گھات میں ہیں ’’ٹیکنوکریٹ‘‘ فارمولے کی شطرنجیوں سے لے کر ’’جوڈیشل انقلاب‘‘ جیسے مصنوعی اقدامات سے وہ پاکستانی عوام کی 70برس کی محنت شاقہ سے کاشت کردہ اس فصل کو ان پوشیدہ درانتی بازوں کی مدد سے پوری طرح پکنے سے پہلے اجاڑنا چاہتے ہیں، لگتا ہے تاریخ کی تبدیلی مستقبل کے افق پر ان کے نام مٹا چکی ہے چنانچہ الیکٹرونک میڈیا کی تمام اسکرینوں کا سیاسی ایشوز کی تلاش میں تاریخی آبادیوں کے تعارف پر گزاراہو رہا ہے، یہی جمہوریت کا انتقام ہے۔ اے اصحابِ پاکستان! مطلوبہ آئینی مدت کے بعد صرف قومی انتخابات کا مسلسل انعقاد آپ کے 71 برس پر مشتمل زخموں کا شاید پوری طرح اندمال نہ بن سکے تاہم یقین رکھیں آپ اپنی آئندہ نسلوں کو صرف پاکستان بخش سکتے ہیں، گویا یہ جمہوریت کے انتقام کی تکمیل ہو گی۔آئین و قانون کی بالادستی، بنیادی حقوق کی آزادی اور خود مختاری کا راج، غلام معیشت کے بجائے خود مختار معیشت، فرقہ واریت سے پاک پاکستان۔ کیا بی بی شہید کا پیغام سو فیصد برحق نہیں اور کیا سابق صدر نے اس پیغام کو بروقت دہرا کر یہ حق ادا نہیں کیا؟

سابق صدر زرداری کے سیاسی وژن اور تربیت کے سائبان تلے ہی چیئرمین بلاول بھٹو کی شخصیت میں سیاسی نکھار پیدا ہوا جس کے مناظر ساری دنیا دیکھ رہی ہے، آپ دیکھ لیجئے گا سابق صدر کی اپنے فرزند ارجمند کی سیاسی تربیت کے مستقبل قریب میں حیرت انگیز اشارے ملیں گے۔

تازہ ترین