• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ڈاکٹر صاحب پلیز کچھ بھی کرکے، میری بیٹی کو ٹھیک کردیں، آپ جتنے چاہیں پیسے لے لیں…دوسری جانب حورعین نفسیاتی اسپتال کے ایک بستر پرلیٹی زور زور سے چلّا رہی تھی کہ ’’وہ مجھے مار دے گا، وہ آرہا ہے، دیکھو وہ مجھے مار دے گااور کبھی زور زور سے قہقہے لگاتی۔‘‘

حورعین ، اپنے والدین کی اکلوتی اولاداورگھر بھر کی لاڈلی تھی، پیسوں کی ریل پیل ہونے کی وجہ سے اس کی کوئی خواہش ادھوری نہیں رہتی تھی۔ وہ بچپن ہی سے اپنے والد کی طرح ایک مشہور ڈاکٹر بننا چاہتی تھی، اس لیے پڑھائی میں ہمیشہ آگے آگے رہتی ۔ تھرڈ ایئر کے امتحان ہونے والے تھے، وہ اور اس کے دوست گروپ اسٹڈی کی پلاننگ کر رہے تھے،تب اس کے ایک دوست نے بتایا کہ میرے ہاتھ تو ایک ایسی جادو کی پڑیا لگی ہے، جس کے استعمال سے میرا دماغ فوراً ترو تازہ ہوجاتا اور تیز چلنے لگتا ہے، نیند بھی نہیں آتی، بلکہ ساری رات بیٹھ کر امتحان کی تیاری کرتا ہوں۔

حورعین سمیت سب نے کہا کہ انہیں بھی وہ دوا چاہیے تاکہ وہ امتحان کی تیاری بہتر طور پر کر سکیں۔ اس نے کہاجب تم لوگ گروپ اسٹڈی کے لیےآؤگے ، تب دوں گا۔ اس طرح میڈیکل اسٹوڈنٹ ہونے کے باوجود ، حورعین محض دماغ کو وقتی طور پر تیز کرنے کی لالچ میں ’’آئس ‘‘ کےنشے میں مبتلا ہوگئی ، اس بات سے انجان کہ اس کا انجام کس قدر بھیانک ہوگا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ چند ہی ماہ بعد اس کے اوسان جواب دینے لگے، دیوانہ وار کبھی اپنے بال نوچتی، تو کبھی اپنے ہی سائے سے خوف ذدہ چلاتی ، جب گھروالوں کو ان باتوں کا علم ہوا تووہ اسے شہر کے سب سے بڑے نفسیاتی اسپتال لے گئے، مگر اس کی حالت دیکھ کر ڈاکٹرز بھی بس اتنا ہی کہہ سکے کہ اس کا نارمل ہونا اب مشکل ہے۔‘‘

مندرجہ بالا تحریر بہ ظاہرایک کہانی ہے، لیکن یہ ہمارے معاشرے میں تیزی سے سرائیت کرنے والے سب سے بڑے مسئلے کی عکّاسی کرتی ہے، جس کاٹارگٹ نسل ِنو ہے۔ دنیا میں بہت سے شوق فیشن کے طور پر اپنائے جاتے ہیں، مگر بعد میں وہ عادت یا مجبوری بن کر تباہی پھیلاتے ہیں۔ نشے کی مثال بھی کچھ ایسی ہی ہے،پہلے پہل، چند نوجوان محض دوستوں کے کہنے یا فیشن کو اپنانے کی غرض سے منشیات کا استعمال کرتے ہیں، بعد میں وہ ان کی بربادی کا سبب بنتا ہے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق ہمارے ملک میںہر سال تقریباً اربوں روپے کی مالیت کی منشیات استعمال ہوتی ہے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ تعلیم یافتہ نوجوان بھی اس کا شکار ہو رہے ہیں۔پاکستان میں منشیات کا استعمال کتنا بڑا مسئلہ ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پچھلے دس برسوں میںہزاروں افراد منشیات کا شکار ہو کرہلاک ہوئے۔ مشہور امریکی جریدے ’’©فارن پالیسی‘‘کی دنیا بھر میں منشیات کے استعمال سے متعلق ایک خصوصی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال تقریباً 250000 افراد منشیات کے استعمال کے نتیجے میں موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میںتقریباً 76 لاکھ افراد منشیات کا استعمال کرتے ہیں ،پریشان کن بات یہ ہے کہ 76 لاکھ افراد میںاکثریت 24 سال سے کم عمر افراد کی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ منشیات کے عادی افراد ہیروئن اور شراب کا استعمال کثرت سے کرتے ہیں، سب سے زیادہ استعمال کیا جانے والا نشہ چرس ہے، جو تمباکوکے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔یہاں قابل ذکر اور انتہائی افسوس ناک بات یہ ہے کہ کئی بڑے تعلیمی اداروں میں منشیات کے استعمال کی بازگشت سنائی دینے لگی ہے۔کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں نشہ کبھی چیونگ گم، تو کبھی کسی اور طرح سے بآسانی فروخت ہو رہا ہے۔ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں منشیات اور نشہ آور ادویہ کا غیر قانونی استعمال کرنے والے افراد کی تعداد66لاکھ ہے، اور ان میں بھی سب سے بڑی تعداد 25 سے لے کر39برس تک کی عمر کے افراد کی ہے۔ دوسرا سب سے بڑا گروپ پندرہ سال سے لے کر چوبیس سال تک کی عمر کے نوجوانوں کا ہے۔اس وقت وطن عزیزجن اندرونی مشکلات میں گِھرا ،ہوا ہے ان میں سب سے بڑا مسئلہ منشیات کا ہے، جس کی روک تھام کے حوالے سے کوئی سیاسی جماعت اپنے منشور میں واضح بات کرتی ہے، اس کی روک تھام کے لیے جامع منصوبہ بندی کی جاتی ہے اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی چیک اینڈ بیلنس کا نظام موجود ہے۔ کسی بھی ملک کو ترقی کی منازل پر لے جانے کے لیے اس کے نوجوان اثاثہ ہوتے ہیں،اس لیےنوجوانوں کے سر پر منڈلاتے بم سے بھی زیادہ بڑے خطرے ، منشیات مافیا کا جلد از جلد قلع قمع کرنے کی ضرورت ہے۔

تقریباً ڈیڑھ سال پہلےکراچی میں چھاپہ مار کارراوئیوں میں رینجرز کو ایک سفوف کے ڈرم ملے،جن کے کیمیائی تجزیے سے معلوم ہوا کہ وہ ایکسپائرڈ ادویہ کا پاؤڈر تھا،گرفتار ہونے والے افراد سے مزید تفتیش کے بعد یہ معلوم ہوا کہ زائد المیعاد ادویہ کو جرائم پیشہ گروہ کراچی میں جمع کرکے، کوئٹہ میں مقیم افغان ڈرگ ڈیلرز کو فروخت کرتے ہیں۔ ان ادویہ کو پیسوں کے عوض فروخت نہیں کیا جاتا ،بلکہ افغان اسمگلر زائد المیعاد گولیوں کے چورے کے بدلے ’’کرسٹل میتھ‘‘ نامی ڈرگ فراہم کرتے ہیں، خیال رہے کہ آج کل یہ نشہ ہماری نسل نو میں بہت تیزی سے عام ہو رہا ہے۔ اس نشے کو’’آئس‘‘ بھی کہا جاتا ہے،جوہیروئن اور کوکین سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ ایکسپائر ہوجانے والی ادویہ جن میں بخار،کھانسی، نزلہ، زکام کی ادویہ سے ایفیڈرین (Ephedrine ) اور ڈی ایکس ایم یعنی ڈیکسٹرو میتھورفان نکال کرآئس نامی نشہ تیار کیا جاتا ہے۔ایفیڈرین حاصل کرنے اور اس سےکرسٹل یا آئس کی تیاری کے لیے منشیات فروش گروہ ادویہ ساز کمپنیوں اور ہول سیل مارکیٹوں سے زائد المیعاد ادویہ خرید لیتے ہیں۔کرسٹل میتھ یا آئس کے نشے میں ملک کےپوش علاقوں سمیت یونیورسٹیوں اور کالجوں کے نوجوان بھی مبتلا ہو رہے ہیں، جس سے والدین اور متعلقہ محکمہ لاعلم دکھائی دیتا ہے۔آئس چوں کہ کسی پودے سے تیار نہیں کی جارہی، اس لیے اسے دنیا بھر میں چرس اور ہیروئن سے زیادہ مقبولیت مل رہی ہے۔ چرس اور ہیروئن کے پودوں کی کاشت اور ان کی اسمگلنگ میں منشیات فروشوں کو زیادہ مشکلات پیش آتی تھیں، جب کہ اس کی نسبت آئس کو ایک مقام پر تیار کیا جاسکتا ہے۔

اس پر تحقیق کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ کرسٹل یا آئس نامی نشہ ’’میتھ ایمفٹامین‘‘ نامی ایک کیمیکل سے بنتا ہے۔ یہ چینی یا نمک کے بڑے دانے کے برابر ایک کرسٹل کی قسم کی سفید چیز ہوتی ہے، جسے باریک شیشے سے گزار کر حرارت دی جاتی ہے۔ اس کے لیے عام طور پر بلب کے باریک شیشے کو استعمال کیا جاتا ہے، جب کہ نشہ کرنے والے اسے انجکشن کے ذریعے بھی جسم میں داخل کرتے ہیں۔یہ ایسا طاقت ور نشہ ہے، جو پہلی بار کے استعمال ہی سے انسان کو اپنا عادی بنا لیتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ یہ کوئی سستا نشہ نہیں ، بلکہ اس کی قیمت انتہائی زیادہ ہوتی ہے۔آئس کا زیادہ تراستعمال ہائی کلاس پارٹیوں میںاسٹیٹس کی علامت کے طور پر ہونے لگا ہے۔ اسےعموماً ایک چھوٹے شیشے کے پائپ کی مدد سے پیاجاتا ہے،تاہم کچھ لوگ اسے نگل ، سونگھ یا سرنج کے ذریعے نس میں داخل کرکے بھی پیتے ہیں۔ایک گرام کوکین 10ہزار سے 12 ہزار روپے کے درمیان میں فروخت ہوتی ہے جب کہ ایک گرام ’’آئس‘‘ 1500 روپے سے تین ہزار روپے میں بھی فروخت ہورہی ہے۔آئس کا نشہ کرنے والے اکثر افراد پاگل پن کا شکار ہوجاتے ہیں اور ان میں ایسی تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں کہ وہ ہر قریبی شخص کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ شاید کوئی انہیں قتل کرنے کی سازش کررہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ آئس کا نشہ کرنے کے بعد انسان کی توانائی وقتی طور پردُ گنی ہوجاتی ہے اور ایک عام شخص 24 سے لے کر 48 گھنٹوں تک جاگ سکتا ہے۔ اس دوران انسان چاک وچوبند رہتا ہے ،مگر نشہ اترنے کے بعد زیادہ نیند اور تھکاوٹ محسوس ہوتی ہے۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق خیبر پختونخوا میں اس وقت آئس کا نشہ کرنے والوں کی تعداد 10 ہزار سے زائد ہے، جس میں طلبا و طالبات، ورکنگ خواتین اور مردوں سمیت گھریلو عورتیں بھی شامل ہیں، جب کہ طلبہ امتحانات کی تیاری کے دوران نیند اور تھکاوٹ سےبچنے کے لیے بھی اس کا استعمال کرتے ہیں۔تاہم وہ اس بات سے انجان ہیں کہ وقتی طور پر توانائی بخشنے والے اس زہر کے صحت پر تباہ کن اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ دماغ کے ساتھ ،ساتھ جوڑوں اور جسم کے دیگراعضاء کو بھی کمزور کر دیتا ہے۔بعض نوجوان اسے چرس اور دیگر منشیات کے ساتھ ملاکر استعمال تےکرتے ہیں، جس سے اس کے مہلک اثرات میں کئی گُنااضافہ ہوجاتا ہے۔

نسل نو میں آئس کا بڑھتا ہوااستعمال ، والدین اور تعلیمی اداروں کے سربراہان کے لیے الارمنگ ہونا چاہیے، کیوں کہ جب تک والدین ، اپنے بچوں پر نظر نہیں رکھیں گےیا تعلیمی اداروں میں طلبہ کی سر گرمیوں پر مکمل طور پر سختی سے نگرانی نہیں کی جائے گی، تب تک نسل نو کو اس زہر سے دور نہیں کیا جا سکتا۔ دوسری جانب یہ بھی سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے نوجوان ، بالخصوص تعلیم یافتہ یا امیر گھرانوں سے تعلق رکھنے والے نوجوان، دن بہ دن نشے کی عادت میں مبتلا کیوں ہوتے جا رہے ہیں؟منشیات استعمال کرنےکی بنیادی وجوہ ذہنی دبائو ، دوستوں کا دبائو یا فیشن ہیں۔ والدین کو اس بات سے بھی باخبر ہونا چاہیے کہ آئس کی فروخت صرف روایتی طریقوں ہی سے نہیں بلکہ سوشل میڈیا کے ذریعے بھی ہو تی ہے، یعنی ڈرگ مافیا واٹس ایپ پر پیغامات بھیجتے ہیں ، فیس بک کے ذریعے دوستی کرتے ہیں، پھر آہستہ آہستہ ان سے روابط بڑھا کر اس زہر کا عادی بنادیتے ہیں۔ کچھ ایسے گروپ بھی پکڑے گئے،جو سوشل میڈیا کے ذریعے دوستی کرکے گھروں میں جاکر ڈرگز پہنچاتے تھے۔

زائد المیعاد ادویہ کو ٹھکانے لگانے، جامعات میں منشیات کی فروخت ،اس حوالے سے قوانین کو مضبوط کرنے اور نوجوانوں کو نشے سے نجات دلانے کے لیے سرکاری بحالی مراکز کے قیام میں وفاقی وصوبائی حکومتوں کو فی الفور اقدامات کرنے چاہییں، کیوں کہ جب تک اس ملک کا ’’ایندھن‘‘ مکمل طور پر صحت مند نہیں ہوگا، تب تک ترقی یافتہ مملکت کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا۔

ہم پر ففتھ جنریشن وار مسلط کی جا چکی ہے،وزیر مملکت برائے داخلہ شہریارآفریدی

وزیر مملکت شہریار خان آفریدی نے ایک پریس کانفرنس میںکہا کہ بڑے ، بڑےاسکولوں کے کیفوں میں آئس ہیروئن بک رہی ہے، منشیات کو کینڈی کے ریپر میں دیا جاتا ہے۔خودکش بمبار سو دو، سو افراد کو ٹارگٹ کرتا ہے، جب کہ ڈرگ مافیا پوری قوم کو ٹارگٹ کرتی ہے۔پاکستان پر ففتھ جنریشن وار مسلط کی جا چکی ہے، جس کے لیے پوری قوم کو ایک ہو کر مقابلہ کرنا ہوگا۔یہ اعداد و شمار انتہائی تشوش ناک ہیں، معاشرہ تباہ ہو رہا ہے، والدین کو اس کا احساس کرنا ہوگا کہ ان کے بچے کیا کر رہے ، کہاں جا رہے ہیں۔

اسلام آباد کے اسکولوں میں 75 فی صد لڑکیاں اور 45فی صد لڑکے کرسٹل آئس استعمال کرتے ہیں۔والدین کو معلوم ہونا چاہیے کہ ان کے بچے کیا استعمال کر رہے ، کہاںجا رہےہیں،جدید ٹیکنالوجی پر والدین کا چیک اینڈ بیلنس ضروری ہے، بچوں کو موبائل فون یا دیگر اشیاء دینے سے پہلے جاننا ہوگا کہ اس پر بچے کیا کر رہے ہیں، ان ڈیوائسز سے بچے تباہی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔وزیرِ اعظم عمران خان کی ہدایت پر ڈرگ مافیا کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جائے گا۔

’’کرسٹل میتھ ‘‘کا استعمال کب اور کیسےشروع ہوا؟

1887میں جرمنی میں ایم پیتھا مائن کے نام سے اسے بنایا گیا اور 1919تک جرمنی اور جاپان میں یہ نشہ لوگوں کی بڑی تعداد کو اپنی لت میں مبتلا کر چکا تھا۔ استعمال کے فوراً بعد انسان کو جسمانی اور ذہنی طور پر تازہ دم کرنے کی صلاحیت کی بنا پر اُس وقت لوگ اسے نشے کے بہ جائے سُکون بخش دوا کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ ابتدا میں اسے حل پزیر پاؤڈر کی شکل میں بنایا گیا تھا، جسے پانی میں حل کرکے انجکشن کی شکل میں استعمال کیا جاتا تھا۔ دوسری جنگ عظیم میں فریقین نے فوجیوں کو چاق و چوبند رکھنے کے لیے بڑے پیمانے پر اس کا استعمال کیا۔ دوسری جنگ عظیم میں جاپانی ہوابازوں کو مشن پر بھیجنے سے قبل کرسٹل میتھ کی بھاری مقدار دی جاتی تھی، وہاں آئس کا استعمال صرف فوج تک محدود تھا، تاہم جنگ ختم ہونے کے بعد یہ نشہ عوام میں بھی عام ہو گیا۔

1950میں دنیا کے بیش تر ممالک میں کرسٹل میتھم فیٹامائن کوذہنی تناؤکے خلاف ایک موثر غذا کے طور پر تجویز کیا جانے لگا، کیوں کہ اس کے استعمال سے ذہنی کارکردگی میں وقتی طور پر بہت زیادہ اضافہ ہو جاتا تھا،اسی لیے، یہ نوجوانوں، کھلاڑیوں اور ٹرک ڈرائیوروں میں استعمال کیا جانے لگا،مگرکئی دَہائیوں بعدجب اس کے مہلک نتائج سامنے آئے،تو امریکی حکومت نے اسے غیرقانونی قرار دے کر اس کی پیداوار اور فروخت پر پابندی لگادی، تاہم میکسیکو اور امریکا کے بڑے منشیات فروشوں نے اسے بنانے کے لیے بڑی بڑی لبارٹریاں قائم کیں ، جس کےبعدیہ نشہ پوری دنیا میں پھیل گیا۔ کرسٹل آئس اب پاکستان، تھائی لینڈ، میانمار اور چین میں بڑی مقدار میں تیار بھی کی جا رہی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں تقریباً اسّی ہزار لوگ دنیا کے خطرناک ترین نشے کرسٹل میتھ کی لت میں مبتلا ہیں، جن میں اکثریت نوجوانوں کی ہے۔

تازہ ترین