محمد معروف خان
معلم ایک باوقار شخص اور نسل نو کا رہنما ہوتا ہے۔وہ بیک وقت نفسیاتی،اخلاقی و روحانی تربیت کرتا ہے۔لیکن یہ اسی وقت ممکن ہو سکتا ہے ، جب اساتذہ ، خود اخلاق ، تعلیم و تربیت کے اعلیٰ مرتبے پر فائز ہوں،ان کی اپنی شخصیت میں وہ تمام اوصاف ہوں، جن کا درس وہ اپنے طلباء کو دیتے ہیں۔تاکہ طالب علم اپنے استاد جیسا بننے کی کوشش کریں۔معلم کی ہمہ جہت شخصیت اور موثرکارکردگی کے لیے بعض اہم اقدار و صلاحیتوںکا ہونا ضروری ہے، جن کا ذکر ہم ذیل میں کر رہے ہیں۔
عملی کردار:یاد رکھیے،طلباء اپنے استاد کو بہت باریک بینی سے دیکھتے ہیں،یوں استاد کی چال ڈھال،عادات و اطواراور اخلاق و کردار کا لاشعوری طور پر اثر مقبول کرنے لگتے ہیں۔دوسرے لفظوں طالب علم ،معلم کا عکس ہوتے ہیں۔اس لیے اساتذہ کو چاہیے کو اپنا کرداربالکل ویسا رکھیں جیسا بننے کی تلقین وہ اپنے شاگردوں کو کرتے ہیں۔
اخلاص: معلم کی بنیادی خصوصیت ہی یہ ہے کہ وہ اپنے پیشے کے ساتھ مخلص ہوتا ہے۔استاد کو اپنے پیشے سے جس قدر دل چسپی ہوگی، اس کی راہ میںحائل رکاوٹیں کم ہوتی چلی جائیں گی۔
مطالعہ کاشوق :وسعت مطالعہ کی وجہ سے ہی اپنے مضمون پر عبور حاصل کیا جا سکتا ہے۔جب تک استاد کو اپنے مضمون پر ملکہ حاصل نہیں ہوگی ، تب تک ، وہ شاگردوں کو اپنی بات پر قائل نہیں کر سکے گا۔ آج کل کے طلباء بہت ہوشیار ہوگئے ہیں، پہلی ہی کلاس یا لیکچر میں بھانپ لیتے ہیں کہ ٹیچر کو کتنی معلومات ہے۔مطالعہ جتنا وسیع ہوگا، علم میں بھی اتنا ہی اضافہ ہوگااور نئی معلومات طلباء کودی جا سکے گی۔طلباء بھی ایسے معلم سے رغبت بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں، نہ صرف تعلیمی مسائل ، بلکہ ذاتی مسائل بھی ان سے شیئر کرتے ہیں۔
ذمے داری کااحساس:ایک کام یاب معلم کے لیےضروری ہےکہ وہ ذمے دارہو ، باقاعدگی اور پوری توجہ سے کلاس لے، صرف لائق، فائق نہیں پڑھائی میں کمزور طالب علموں پر زیادہ توجہ دے۔
صبر و برداشت:تعلیم کے میدان میں صبرو تحمل کی بہت اہمیت ہوتی ہے،کیوں کہ ضروری نہیں کہ ہر طالب علم ہی ذہین ہو۔بہترین استاد وہ ہوتا ہے،پڑھائی میں کمزور یا پیچھے رہ جانے والے طلباء کو بھی بآسانی اپنی بات سمجھا سکے، پڑھائی کی طرف راغب کر سکے۔جس معلم میںیہ خوبی ہوگی، وہ اُتنا ہی کام یاب ہوگا۔
امانت دار:معلم کی امانت داری کادارومدار اس بات پر ہے کہ وہ اپنے علم کو آگے منتقل کرنے میں سخی رہے۔علم بانٹنے سےبڑھتا ہے ، اگر اس کے ذہن میں یہ بات رہے گی، تو وہ کبھی کنجوسی سے کام نہیں لے گا۔
اخلاق وکردار: معلم ہمیشہ اخلاق کے اعلیٰ مرتبے پہ فائز رہتا ہے۔جب تک اپنی تمام منفی عادتوں پر قابو نہیں پا لیتا، سکون سے نہیں بیٹھتا۔یہ ہی باتیں، ایک معلم کو باقی افراد سے منفرد بناتی ہیں۔
قول و فعل میں مطابقت:جس معلم کے قول اور فعل میں تضاد ہوگا، وہ بھی کام یاب نہیں ہوسکتا،ایسے اساتذہ کی طلباء کبھی عزت نہیں کر پاتے، بلکہ پیٹھ پیچھے مذاق ہی اُڑاتے ہیں۔
درگزر کرنا:طلبہ کو ایسا معلم کبھی بھی پسند نہیںہوتا جو اس کی ہر چھوٹی ، غلطی پر صرف تنقید ہی کرتا رہے۔درگزر کرنا معلم کی صفات میں سے ایک ہے، وہ بے جا تنقیدیا ڈانٹ ڈپٹ نہیں کرتے، بلکہ شفقت سے سمجھاتے ہیں، تاکہ نسل نو کا مستقبل سنور سکے۔
غصہ پر قابو:زیادہ غصہ کرنے والےاساتذہ کبھی طلبہ کو پسند نہیں آتے، نہ ان کے دلوں میں اپنی جگہ بنا پاتے ہیں۔
نقل کرنے سے طلبہ کو دور رکھیں:امتحان کے دور میں کچھ معلمین اپنے مضمون میں زیادہ سے زیادہ طلباء کو کام یاب کروانے کے لیے نقل بھی کرواتے ہیں۔اس سے امتحان لینے کا مقصد ختم ہوجاتا ہے، بلکہ لائق ، محنتی اور ذہین طالب علموں کی حوصلہ شکنی بھی ہوتی ہے۔ایسے طالب علم وقتی طور پر تو کام یاب ہوجاتے ہیں، لیکن ان کا مستقبل تاریک ہوجاتا ہے۔ وہ زندگی کے ہر مسئلے کا شارٹ کٹ تلاش کرنے لگتے ہیں، جس کی منزل سوائے تاریکی کے اور کوئی نہیں ہوتی۔