• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم پاکستانی قصہ گوئی کے دلدادہ ہیں۔ بچپن میں بزرگوں سے جنوں اور پریوں کی کہانیاں سنتے ہیں، لڑکپن میں ٹارزن اور عمرو عیار کے کارنامے پڑھتے ہیں، میٹرک میں نسیم حجازی کے ناول اچھے لگتے ہیں اور پھر زندگی بھر جھوٹی سچی حکایتوں پر مبنی قصے کہانیاں تاریخ سمجھ کر سنتے رہتے ہیں۔ میں نے سوچا کیوں نہ آج ایک ایسی روداد بیان کی جائے جو حقیقت کے قریب ترین ہے۔ یہ کہانی ہے ایک ایسے ملک کی ہے جس پر بدعنوان حکمران مسلط تھے۔ یہ کرپٹ مافیا قومی خزانے اور وسائل کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے میں مصروف تھا۔ روزانہ کم از کم 7ارب روپے کرپشن کی نذر ہو رہے تھے۔ سالانہ 10ارب ڈالر کی منی لانڈرنگ ہو رہی تھی۔ عوام بیوقوفی کی حد تک سادہ تھے اس لئے رہزنوں کو رہبر سمجھ رکھا تھا۔ اس ناگفتہ بہ صورتحال میں قوم کے ’’بڑوں‘‘ نے کرپشن کا ڈھول بجا کر لوگوں کو ان حکمرانوں کا اصل چہرہ دکھانے کا فیصلہ کیا۔ ایک مسیحا اور نجات دہندہ جسے اَن پڑھ اور گنوار لوگ سنگریزہ سمجھ رہے تھے، اسے تراش خراش کر ہیرے کے روپ میں پیش کیا گیا تو سب کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ برس ہا برس سے مسلط ان بدعنوان حکمرانوں کو اقتدار سے الگ کرنا آسان تو نہ تھا مگر ’’بڑوں‘‘ نے ملک کے وسیع تر مفاد میں ساری توانائیاں لگا کر یہ کر دکھایا۔

تبدیلی کی صبح خوش جمالی کا سورج طلوع ہوا تو عوام کی خوشی دیدنی تھی۔ انہیں یقین تھا کہ اب چوروں، ڈاکوئوں اور لٹیروں کا سخت احتساب ہو گا۔ صادق و امین حکمرانوں کے تخت نشین ہونے سے بدعنوانی اور لوٹ مار کا قلع قمع ہو گا اور یوں ترقی و خوشحالی کے ایک نئے سفر کا آغاز ہو گا۔ بلاناغہ وہ سات ارب روپے بچ رہیں گے جو اس سے قبل خورد برد ہو جایا کرتے تھے، منی لانڈرنگ کی روک تھام سے ملکی معیشت بہتر ہو گی، غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا تو عوام کیلئے روزگار کے مواقع پیدا ہون گے۔ اب تک ظالم و جابر حکومتوں نے اپنی عیاشیوں کیلئے عوام پر بے جا ٹیکسوں کا جو بوجھ لاد رکھا تھا، اس سے نجات ملے گی۔ پروٹوکول کلچر کا خاتمہ ہو گا اور ہمارے حکمراں بھی سویڈن اور نیدر لینڈ کے وزیراعظم کی طرح بائیسکل پر دفتر آیا کریں گے۔ قرضوں کی لعنت سے چھٹکارا ملے گا۔ دودھ اور شہد کی نہریں نہ بھی بہائی جا سکیں تو کم از کم بنیادی سہولتیں ضرور میسر ہوں گی۔ ایسی ہزاروں خواہشیں تھیں مگر اب یوں محسوس ہوتا ہے کہ خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا، جو سنا افسانہ تھا۔

صالح، متقی اور پرہیز گار لوگوں کے برسر اقتدار آ جانے سے اچانک ملکی معیشت کو ریورس گیئر لگ گیا۔ غیر ملکی کرنسی بالخصوص ڈالر نے ایسی اڑان بھری کہ ملکی معیشت بخارات بن کر تحلیل ہونے لگی۔ زرمبادلہ کے ذخائر جو کرپٹ حکمرانوں کے دور میں 14ارب ڈالر تک جا پہنچے تھے، ایک وقت آیا کہ محض 6ارب ڈالر رہ گئے۔ ڈالر کے نرخ جو 100روپے کے لگ بھگ تھے، ایک دن 140تک جا پہنچے۔ جی ڈی پی گروتھ جسے ملک کی اقتصادی ترقی کا اہم ترین اعشاریہ سمجھا جاتا ہے، اس میں واضح کمی آ گئی۔ معیشت کی ریٹنگ جاری کرنے والی تینوں اہم ترین ایجنسیوں کے چارٹ پر ملک کی ریٹنگ نیگیٹو ہو گئی لیکن مثبت سوچ رکھنے والے لوگ یہ سوچ کر مایوس نہ ہوئے کہ اعداد و شمار کے گورکھ دھندے سے ہمیں کیا لینا دینا۔ ڈالر کی قیمت بڑھ رہی ہے تو وہ لوگ پریشان ہوں جن کی یہ کرنسی ہے، ہم کیوں خواہ مخواہ سارے جہاں کے درد پالتے رہیں۔ لیکن چند روز بعد مہنگائی کا سیلاب آ گیا۔ پیٹرول، گیس اور بجلی کے نرخ بڑھ گئے، ادویات کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ نئے حکمرانوں نے کاسہ گدائی لے کر اچھی خاصی بھاگ دوڑ کی اور کسی حد تک کامیابی بھی ملی لیکن ملکی معیشت بدستور جمود کی کیفیت میں ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کاری تو درکنار مقامی سرمایہ کاری کا سلسلہ بھی تھم گیا ہے، کاروبار ی سرگرمیاں محدود ہو چکی ہیں۔ جس بازار کا رُخ کریں، ہر چھوٹا بڑا دکاندار یہی رونا روتا دکھائی دیتا ہے کہ ایسا مندا پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ حکمراں کہتے ہیں کہ آپ ان حالات سے پریشان نہ ہوں، گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں، ہماری نیت اور ارادے ٹھیک ہیں، اس لئے ایک دن حالات بھی ضرور ٹھیک ہوں گے اور ترقی و خوشحالی کے نئے دور کا آغاز ہو گا۔ جب انہیں بتایا جاتا ہے کہ ماضی میں جن بدعنوان لوگوں کی حکومت تھی، انہوں نے تو ڈالر کی قیمت نہیں بڑھنے دی۔ بجلی، گیس، پیٹرول کے نرخوں میں اضافہ نہیں کیا تو ان کا استدلال یہ ہوتا ہے کہ بدعنوان حکمرانوں نے مصنوعی طریقے سے مقامی کرنسی کی قدر مستحکم رکھی اور عوام کو ریلیف دیا جاتا رہا، اب چونکہ دیرپا اور طویل المدت منصوبہ بندی کے تحت کام ہو رہا ہے اس لیے یہ مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔ یہ صادق و امین لوگ جو ریاستِ مدینہ بنانے کے خواہاں ہیں، ان سے متعلق دروغ گوئی کا شائبہ تو نہیں ہو سکتا، یقیناً وہ درست ہی کہہ رہے ہوں گے کہ سابقہ حکومت نے مصنوعی طریقے سے یہ سب کیا لیکن کیا ہے نا سرکار، عوام کی حالت بہت پتلی ہے، اگر مہربانی فرما کر آپ بھی مصنوعی طریقے سے پانچ سال تک یہ سب ایسے ٹھیک کر دیں کہ ملک میں کسی قسم کے بحران کی کیفیت نہ ہو، ملکی خزانہ بھر جائے، مہنگائی کا جن واپس بوتل میں قید ہو جائے، ڈالر 100روپے کا ہو جائے، بیشک یہ سب مصنوعی طریقے سے ہو، تو بہت نوازش ہو گی مہاراج۔

عوام کی اکثریت چونکہ گناہگار ہوتی ہے اور ان کا ایمان کمزور ہوتا ہے اس لئے جب مہنگائی اور بے روزگاری کے باعث ان کا یقین متزلزل ہوتا ہے تو سوچتے ہیں کہ اس صادق و امین حکومت سے تو وہ کرپٹ حکومت ہی اچھی تھی جو سال میں ایک بار بجٹ دیا کرتی تھی۔ یہاں تو تیسری مرتبہ بجٹ آ رہا ہے۔ عوام تو ہیں ہی جاہل، انہیں کیا معلوم کہ اس تبدیلی کی ہم نے کتنی بڑی قیمت ادا کی ہے۔ بھوک اور ننگ ہے تو کیا ہوا، یہ احساس کس قدر خوشگوار ہے کہ ہم ایک بدعنوان حکومت سے نجات پانے کے بعد نیک اور صالح حکومت کے زیر سایہ جی رہے ہیں۔ چند روز قبل ایک وفاقی وزیر نے فرمایا، قومی خزانہ پہلی بار حیران ہے کہ اسے کسی نے لوٹا نہیں۔ لوگ ان کے اس بیان پر حیران ہوئے ہوں گے مگر اس جملے میں بھی حکمت و دانائی کا ایک سمندر موجزن ہے۔ اب دیکھیں نا قومی خزانے کو لوٹ مار سے بچانے کا اس سے بہتر طریقہ اور کیا ہو سکتا تھا کہ اسے خالی کر دیا جائے تاکہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔ آپ نے ٹرکوں پر ایک جملہ لکھا دیکھا ہو گا ’’چور دے پُترا، ٹول بکس خالی اے‘‘ اس نیک اور صالح حکومت نے بھی نہایت خشوع و خضوع سے پورے خلوص نیت کیساتھ قومی خزانہ خالی کرکے اس پر یہ عبارت لکھوا دی ہے تاکہ کوئی چور، ڈاکو اور لٹیرا قومی خزانے کے ٹول بکس کو بری نیت سے نہ دیکھ سکے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین