• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دنوں کراچی کے ایک کلب میں ایک سینئر بیورو کریٹ سے طویل نشست ہوئی۔ یہ بیورو کریٹ اس وقت وفاقی حکومت میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ میں ان کی گفتگو سے بہت متاثر ہوا۔ اس کا ایک سبب تو یہ ہے کہ یہ صاحب پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کی کیمسٹری کو اچھی طرح سمجھتے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی قوتوں کے مابین جاری کشمکش کی حرکیات (DYNAMICS) کا انہیں مکمل ادراک ہے۔ خطے اور بین الاقوامی سیاسی اور معاشی صورتحال کے بارے میں بھی وہ جانتے تھے، بہت کم بیوروکریٹ اتنے باخبر ہوتے ہیں۔ ان سے برصغیر کی تقسیم سے آج تک کے حالات پر دانشورانہ بحث ہوئی اور پاکستان کی تاریخ کو سمجھنے کے لئے کئی ایسے زاویے سامنے آئے، جو میرے لئے نئے تھے۔ بہت سے مغالطے ختم ہوئے۔ پاکستان کے موجودہ داخلی حالات اور خارجی امور سمیت کئی موضوعات پر بات ہوئی۔ اس نشست کے بعد مجھے یہ اندازہ ہوا کہ پاکستان تحریک انصاف کی موجودہ حکومت کی مختصر عرصے میں جو بے چینی اور بے یقینی کی کیفیت ہے، وہ بے سبب نہیں ہے۔ یہ حکومت نہ صرف اپنی سمت طے نہیں کر سکی ہے بلکہ یہ ان قوتوں کی سمت پر بھی نہیں چل سکی، جو یہ سمجھتے تھے کہ تحریک انصاف ملک کو اس سمت پر ڈال دے گی۔ دوسری طرف اپوزیشن بھی نہ صرف اپنی پوزیشن ابھی تک نہیں سنبھال پائی ہے بلکہ وہ بھی ملک کو درپیش مسائل سے نمٹنے کے لئے احتجاجی حکمت عملی طے کرنے کی بجائے صرف عمران خان کی پِچ پر انہیں آئوٹ کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ کہیں سے بھی تدبر والی حکمت عملی نظر نہیں آتی۔

ان صاحب کی رائے یہ تھی کہ پاکستان تحریک انصاف گزشتہ 22سال سے سیاسی جدوجہد کر رہی ہے لیکن یہ جماعت ملکی یا بین الاقوامی سیاست کے کسی دھارے میں شامل نہیں ہو سکی۔ گزشتہ انتخابات سے قبل تحریک انصاف کے ملک بھر میں بڑے بڑے جلسے ہوئے اور یہ اس وقت ہی نظر آ رہا تھا کہ تحریک انصاف حکومت میں آئے گی۔ اسے اب حکومت میں آئے ہوئے 6ماہ ہو گئے ہیں لیکن حکومت کا کوئی ایجنڈا یا بیانیہ سامنے نہیں آیا۔ قابلِ ستائش بات یہ ہے کہ فوج اس جمہوری حکومت کا مکمل ساتھ دے رہی ہے اور جمہوریت پر یقین رکھتی ہے۔ اعلیٰ عدلیہ اگرچہ انصاف اور قانون کے مطابق زیادہ سرگرم ہے لیکن اس عدالتی سرگرمی پر اپوزیشن چیخ رہی ہے۔ حکمراں جماعت نے ابھی تک کوئی مشکل محسوس نہیں کی۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ادارے کلی طور پر تحریک انصاف کے پیچھے کھڑے ہیں۔ میں ان صاحب کی اس بات سے بھی اتفاق کرتا ہوں کہ تحریک انصاف کی حکومت نے مخالف سیاسی جماعتوں کو دیوار سے لگانے کے سوا کوئی دوسرا کام نہیں کیا ہے۔ یکطرفہ احتساب اور میڈیا ٹرائل نے احتساب کے عمل کو سوالیہ نشان بنا دیا ہے۔ اب تک اس ’’احتساب‘‘ کے نتیجے میں نہ تو ’’لوٹی ہوئی دولت‘‘ واپس ہوئی ہے اور نہ ہی احتساب کا قابلِ اعتبار نظام قائم ہو سکا ہے۔ تحریک انصاف کی قیادت کا نہ تو اپنا کوئی سیاسی وژن ہے اور نہ ہی اس ملک کے لئے اچھا سوچنے والی قوتوں کے منصوبے پر سیاسی وژن کے ساتھ عمل درآمد کیا جا رہا ہے۔ ماضی میں جتنی بھی ’’پرو اسٹیبلشمنٹ‘‘ یا اسٹیبلشمنٹ کی ’’ڈارلنگ‘‘ سیاسی جماعتیں تھیں، ان کا کچھ نہ کچھ سیاسی وژن یا سیاسی رکھ رکھائو تھا، جو تحریک انصاف کی حکومت میں نہیں ہے۔ یہ بات نہ صرف ان کیلئے بلکہ ان کے چاہنے والوں کیلئے بھی خطرناک ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں زیادہ تجربہ کار، زیادہ بالغ اور زیادہ سیاسی دائو پیچ سے واقف ہیں۔ اگر وہ پلٹ کر وار کریں گے تو تحریک انصاف میں سیاسی طور پر سنبھلنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ ہمارے اس دوست کا کہنا یہ بھی ہے کہ پاکستان کی تاریخ نے سخت ترین احتساب بھی دیکھے اور علاقائی اور بین الاقوامی سیاسی تبدیلیوں سے مجبور ہو کر بدترین مفاہمت کا بھی نظارہ کیا۔ یہ ’’HOBNOB‘‘ بہت پرانی ہے لیکن اس مرتبہ علاقائی اور بین الاقوامی حالات تاریخی کایا پلٹ پر پہنچ گئے ہیں۔ آنکھیں بند کرکے تصادم کی سیاست کرنے والے ملک کے لئے بھی مسائل پیدا کر سکتے ہیں۔ حالات کا مقابلہ کرنے کی بھی تیاری نہیں ہے۔ حکومت صرف اپوزیشن کو دیوار سے لگا رہی ہے۔ اپوزیشن نہ صرف اسی میں الجھی ہوئی ہے بلکہ تمام سیاسی جماعتوں میں غور و فکر کا عنصر ہی نہیں ہے۔ سیاسی جماعتوں کے رہنما، عہدیدار اور کارکن صرف اپنے قائد کا حکم مانتے ہیں۔ سوال کرنے کا کلچر نہیں ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کو تعمیری تنقید اور اچھے کاموں میں حکومت کا ساتھ دینے کی طرف آنے بھی نہیں دیا جا رہا۔ ان کی ایک اور قابلِ فکر بات یہ ہے کہ موجودہ علاقائی اور بین الاقوامی صورتحال کے تناظر میں پاکستان کے اندر سفارتی سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے پاکستان کو معاشی بحران سے نکالنے کے لئے چین، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ملائیشیا اور ترکی کے دورے کئے لیکن تاحال مطلوبہ سفارتی اہداف حاصل ہوئے اور نہ ہی معاشی طور پر ہم دبائو سے نکل سکے۔ قرض ادا بھی کرنا ہوتا ہے۔ امریکہ افغانستان سے انخلا کی منصوبہ بندی کر رہا ہے اور وہ اگرچہ عامیانہ تجزیوں کے مطابق طالبان کو ختم کرنے میں ناکام ہوا ہے لیکن حقیقت میں وہ اپنے منصوبے میں کامیاب ہوا ہے اور اس خطے کو انتہا پسندوں کے حوالے کرکے جا رہا ہے تاکہ روس، چین، ایران اور پاکستان کا بنتا ہوا بلاک ایک مضبوط بلاک نہ بن سکے اور یہ خطہ ’’ڈِسٹرب‘‘ رہے۔ ہمارے پالیسی سازوں کو مستقبل قریب کی صورتحال کا اگرچہ اندازہ ہو گا لیکن سیاسی طور پر کمزور پاکستان افغان بحران کے حل میں اپنا کردار ادا نہیں کر سکے گا اور وہ امریکہ سے ڈکٹیشن لے گا۔ ہمارے اس دوست نے امریکی سفیر کی پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سے ملاقات کو بھی اسی تناظر میں بیان کیا۔ ان کے مطابق یہ ملاقات اس وقت ہوئی ہے، جب پیپلز پارٹی کی قیادت کے خلاف مقدمات اپنے آخری مراحل میں ہیں۔ افغانستان کی صورتحال اور اِن مقدمات پر ضرور اس ملاقات میں بات ہوئی ہو گی۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ اس مرتبہ سیاسی مفاہمت ملک کے لئے سیاسی طاقت کا سبب نہیں بنے گی بلکہ مفاہمت کا ہر فریق اپنی اپنی ضرورت کے مطابق مفاہمت کر رہا ہو گا اور یہ خطرناک صورتحال اس لئے پیدا ہوئی ہے کہ تدبر اور عقل سے کام نہیں لیا جا رہا۔ کسی حد تک اطمینان بخش بات یہ ہے کہ پاک فوج کے سربراہ نے کئی مراحل پر سفارتی اور خارجی محاذ پر پاکستان کو مشکلات سے نکالا ہے لیکن اس محاذ پر سیاست دانوں کا مؤثر کردار نہ ہونا انتہائی تشویشناک ہے۔ اس سے زیادہ پریشانی کی بات یہ ہے کہ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بیروزگاری، معاشی سرگرمیوں میں کمی، تاجروں اور صنعتکاروں میں بے یقینی بالخصوص بیورو کریسی میں بے چینی سیاسی اور سماجی ہیجان میں اضافہ کر سکتی ہے۔ فوری طور پر ضرورت اس بات کی ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کو سیاسی قوتوں کے تجربات سے سیکھنا ہو گا اور اپنی حکمرانی میں سیاسی وژن اور سیاسی بیانیہ سے کام لینا ہو گا ورنہ سنبھالنے والے بھی خود سنبھل نہیں پائیں گے۔

قصہ مختصر ماضی اور حال کا گہرا ادراک رکھنے والے اور مستقبل بینی کی سائنس جاننے والے اس سینئر بیورو کریٹ سے بہت سی باتیں ہوئیں۔ بقول الطاف حسین حالیؔ:

آگے بڑھے نہ قِصۂ عشقِ بُتاں سے ہم

سب کچھ کہا مگر نہ کھلے راز داں سے ہم

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین