• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں سابق امریکی سفیر کیمرون منٹر نے ایک تقریب میں پاک امریکہ تعلقات کے بارے میں بہت سی منفی باتیں کہی ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ پاکستان مبینہ طور پر ابھی تک دہشت گردی میں ملوث ہے۔ امریکہ کے فراہم کردہ فنڈز کا صحیح استعمال نہیں ہوا۔ پاکستان نے کئی منصوبوں میں امریکہ کو دھوکےدیئے اس لئے اب امریکہ کو پاکستان میں کوئی دلچسپی نہیں۔ پاکستان دشمن بھارتی لابی کے زیر اثر اس طرح کا زہریلا پروپیگنڈہ ایک عرصہ سے کیا جا رہا ہے۔منٹرنے آخر میں یہ بھی تسلیم کر لیا کہ دونوں ملکوں کے تعلقات بہتر ہو جائیں گے۔ کچھ عرصہ پہلے تک امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی پاکستان کے خلاف ایسی غیر حقیقی باتیں کیا کرتے تھے لیکن پاکستان کی مثبت خارجہ پالیسی، دور اندیشانہ سفارت کاری اور خطے کے امن کے حوالے سے اس کی اسٹرٹیجک اہمیت کے پیش نظر اب خود انہوں نے پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات کی ضرورت کو تسلیم کر لیا ہے اور افغان عمل کے لئے پاکستان سے عملی مدد کی درخواست کی ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے بجا طورپر سابق امریکی سفیر کے منفی بیانیے کی تردید کی ہے اور واضح کیا ہے کہ منٹر کو ریٹائر ہوئے کافی عرصہ گزر گیا ہے، نہیں جانتے کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات بہتر ہو رہے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف سب سے زیادہ قربانیاں پاکستان ہی نے دیں۔ اس نے جو مالی نقصانات اٹھائے امریکہ نے اس کے ازالے کے لئے پاکستان کو عشر عشیر بھی ادا نہیں کیا۔ جانی نقصانات کی تو تلافی ہو ہی نہیں سکتی۔ درحقیقت پاکستان کی خارجہ پالیسی شروع ہی سے ’’دوستی سب سے‘ دشمنی کسی سے نہیں‘‘ کے زریں اصول پر مبنی ہے، پُرامن بقائے باہمی پر مبنی اس پالیسی کی سمت خود بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے متعین کی تھی۔ پاکستان آج تک اسی پر کاربند ہے بھارت کے بارے میں بھی ہماری پالیسی میں یہی اصول کارفرما رہا لیکن اس نے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کرکے دشمنی کی بنیاد رکھی۔ پھر آبی وسائل اور دوسرے معاملات پر معاندانہ رویہ اختیار کیا جس کی تاریخ بہت طویل ہے۔ اتوار کو نئی دہلی میں پاکستانی سفارت کار کی گرفتاری اس سلسلے کا تازہ ترین واقعہ ہے۔ جسے پاکستان کے شدید احتجاج پر رہا کرنا پڑا۔ کرتار پور راہداری آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا وژن تھا جسے پاکستان نے بھارت کی شدید مخالفت کے باوجود کھولنے کی منظوری دی۔ بھارت کی رائے عامہ خصوصاً سکھوں نے اس معاملے میں پاکستان کی بھرپور تعریف کی اور مودی حکومت کو لعن طعن کا سامنا کرنا پڑا۔ وزیراعظم مودی اب اس کا کریڈٹ خود لے رہے ہیں اور کہتے پھرتے ہیں کہ یہ ’’کارنامہ‘‘ میرا ہے۔ پاکستان نے اپنے قیام کے وقت امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان سرد جنگ کے ماحول میں امریکہ کی دوستی کو ترجیح دی، امریکہ نے ہماری کتنی قدر کی یہ سب کو معلوم ہے۔ پاکستان نے سب سے تعلقات کے اصول کے تحت چین سے مثالی دوستی قائم کی۔ اب روس کے ساتھ بھی اس کے بہت اچھے تعلقات ہیں، افغان امن کے حوالے سے اس کے ساتھ شراکت داری اس کا بین ثبوت ہے۔ سعودی عرب سے ہمارے سدا بہار تعلقات ہیں تو ایران کے ساتھ بھی اخوت کا رشتہ قائم ہے۔ اسلامی دنیا کے کئی ممالک کے آپس میں شدید اختلافات ہیں مگر پاکستان کے ساتھ ان سب کے یکساں تعلقات ہیں۔ امریکہ بعض معاملات میں پاکستان سے بغض رکھتا ہے مگر دوسرے مغربی ممالک اس حوالے سے پاکستان کے موقف کی حمایت کرتے ہیں یہ ہماری کامیاب سفارت کاری کا حاصل ہے۔ امریکہ اس خطے میں بھارت کو چین کے مقابلے میں کھڑا کرنے کے لئے تمام وسائل استعمال کر رہا ہے اور اس کے ایما پر پاکستان پر دبائو ڈالنا چاہتا ہے مگر صدر ٹرمپ نے بالآخر پاکستان کی اہمیت تسلیم کر لی ہے اس کے ساتھ بہتر تعلقات اور افغان مسئلے کے حل کے لئے مدد کی خواہش ظاہرکی ہے ایسے میں کیمرون منٹر جیسے لوگوں اور معاندانہ قوتوں کے بیانیے امریکہ سمیت عالمی برادری سے پاکستان کے تعلقات پر اثر انداز نہیں ہو سکتے۔

تازہ ترین