پاکستان سے باہر جانے ا ور دنیا گھومنے کا موقع تو ملتا رہا ہے،لیکن ذہنی اور جذباتی طور پر پاکستان کو چند دنوں کے لئے بھی فراموش کردینے کی کوشش میں کامیابی حاصل نہیں ہوتی۔ یہ میں اپنی بات کررہا ہوں کیونکہ میں ایک صحافی ہوں اس لئے شاید میری مجبوری ہے کہ میں موازنہ کرنے اور تبصرہ کرنے کا اپنا کھیل کھیلتا رہوں۔ ایک زمانہ تھا جب بیرونی سفر بیشتر صحافتی نوعیت کے ہی ہوتے تھے۔ اب البتہ یہ ایک خاندانی ضرورت بھی بن گئے ہیں۔ یہ میری عمر کے اور میری طرح متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے بہت سے والدین کی کہانی ہے کہ ان کی اولادوں نے سمندروں کے اس پار اپنی بستیاں بسائی ہیں اور یوں میری بیوی اور میں تین ہفتوں سے امریکہ میں بلکہ جنوبی کیلی فورنیا میں ہیں اور اب پاکستان واپسی کی تیاری ہے۔ یعنی ایک خواب سے جاگنے کا وقت آگیا ہے لیکن جیسا کہ میں نے کہا یہ نیند تو بار بار ٹوٹتی بھی رہی ہے۔ ویسے اس دورے کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اتنے دنوں میں نے پاکستان کے کسی چینل کی جھلک بھی نہیں دیکھی۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔
ایک مشکل یہ ضرور رہی کہ جب پاکستانیوں سے ملاقات ہوتی ہے تو وہ میرے صحافی ہونے کے حوالے سے حالات حاضرہ پر تبصرے کی ضرور فرمائش کرتے ہیں، لیکن یہ کام اس لئے آسان ہے کہ آپ ان سے ان کی رائے کا مطالبہ کریں اور اختلاف کئے بغیر انہیں سنتے رہیں۔ پاکستان کے بارے میں انتہائی ناکافی معلومات کے باوجود ہر سوال کا جواب دینے اور ہر مرض کا علاج تجویز کرنے کی صلاحیت میں نے اکثر تارکینِ وطن میں دیکھی ہے۔ ویسے یہ بھی سچ ہے کہ پاکستان کی سیاست پر گفتگو کرنا ملک میں بھی مشکل ہے اور ملک سے باہر بھی۔
ایک بات جو پاکستان سے دور جاکر ہم ایک نظر میں دیکھ لیتے ہیں،وہ یہ ہے کہ ہم کسی اور دنیا میں رہتے ہیں۔ جنوبی ایشیا، میں ہمارے پڑوسی ملک بڑی حد تک ہم جیسے ہوسکتے ہیں،لیکن ہماری سرحدیں تو چین اور ایران سے بھی ملتی ہیں۔ مشرق بعید کے دوسرے ملک بھی ہیں جن کی تبدیلی بلکہ ترقی نے دنیا کو حیران کیا ہے۔ جیسے جنوبی کوریا اور سنگا پور۔ یورپ اور امریکہ کی تو بات ہی الگ ہے۔ دنیا میں ہمارا مقام کیا ہے اس کی گواہی مختلف شعبوں میں کئے جانے والے عالمی تجزیے دیتے رہتے ہیں۔ یہ دوسری بات ہے کہ ہم اپنی پسماندگی کو قبول کرنے سے ہچکچاتے ہیں اور جو اس کیفیت کی جانب اشارہ کرے اس کی حب الوطنی پر کئی لوگ شک بھی کرنے لگتے ہیں۔ اس تصویر کا دوسرا اور زیادہ تاریک رخ یہ بھی ہے کہ اگر کوئی ڈاکٹر عبدالسلام، ملالہ یوسف زئی یا عاصمہ جہانگیر اتنی بڑی دنیا میں پاکستان کی پہچان بن جائے تواس پر فخر کرنے کی بھی ہم میں صلاحیت موجود نہیں ہے۔ ہمارے تعصب یا تنگ نظری یا قدامت پرستی کا یہ کیسا اظہار ہے کہ ہمیں سائنس کی ترقی، بچیوں کی تعلیم یا انسانی حقوق کی پاسداری کی تحریکیں بھی مغرب کی سازش دکھائی دیتی ہیں۔ انتہا پسندی اور عدم برداشت کی گود میں پلنے والی ہماری اجتماعی سوچ نئی دنیا کے اسرار ورموز سمجھنے کے قابل دکھائی نہیں دے رہی۔
تو پھر اس تبدیلی کا کیا ہوگا کہ جس کا پرچم وزیر اعظم عمران خان کی موجودہ حکومت نے اٹھایا ہے؟ اس حکومت کی کارکردگی پر اس وقت میری نظر بالکل نہیں ہے۔ میں تو صرف دوسرے ملکوں سے سیکھنے کے اس کے عزم کی بات کررہا ہوں۔ عمران خان نے کئی بار یہ کہا کہ برطانیہ میں اپنی تعلیم اور قیام کے دوران انہوں نے کیا دیکھا اور کیا سیکھا۔ اپنی سیاسی مہم میں انہوں نے سویڈن اور ناروے جیسے یورپی ملکوں کے سماجی بہبود کے نظام کی بھی تعریف کی اور اب زیادہ زور چین کی مثال کو سامنے رکھنے پر ہے۔ مطلب یہ کہ ہم چین سے سیکھیں کہ تبدیلی کیسے آتی ہے۔ اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ ہم دنیا کا بغور مطالعہ کریں اور اپنے زمانے کی تاریخ سے سبق سیکھیں۔ ہمارا مسئلہ تو یہ ہے کہ ہم اپنے ہی ملک کی تاریخ کو سمجھنے اور اس سے سیکھنے کی کوئی کوشش نہیں کرتے کئی اہم واقعات ایسے ہیں کہ جنہیں یادرکھنے سے زیادہ ہم بھول جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جیسے 1971کا سانحہ۔ اور اب ہم یہ بھی نہیں کرپا رہے کہ پاکستان کا بنگلہ دیش سے ایک غیرجذباتی اور معروضی موازنہ کریں کہ کس ملک نے کس شعبے میں کتنی ترقی کی ہے۔
میں چونکہ ان دنوں امریکہ میں ہوں اور میری مصروفیات میں گھومنا پھرنا اور چند گھنٹوں کی مسافت پر واقع دوسرے شہروں میں جانا بھی ہے تو دنیا کے اس اچھوتے اور سب سے مختلف ملک کے کئی منا ظر میرے ذہن میں ہیں۔ ٹیکنالوجی میں ترقی نے عام زندگی کو کتنا متاثر کیا ہے اس کا تصور بھی چند سال پہلے ممکن نہ تھا۔ پھر اس طلسماتی ماحول میں ظلم اور ناانصافی سے آلودہ زندگی کے تلخ حقائق بھی کہیں پوشیدہ اورکہیں صاف ظاہر ہیں۔ اسی طرح، یورپ کی بھی اپنی ایک شناخت ہے۔ لیکن چین جدید عہدکی ایک الگ پہچان ہے۔ اب یہ سوال کہ ہم کس ملک سے کیا سیکھ سکتے ہیں، آسان نہیں ہے۔ اب دیکھئے کہ تعلیم کو پوری دنیا ترقی اور خوشحالی کی بنیاد سمجھتی ہے اور ہم نے ابھی تک پرائمری اسکول چلانا نہیں سیکھا۔ چین کے نظام میں مذہب کا کیا مقام ہے، اس کا ہمیں علم تو ہے لیکن ہم اس کا اقرار نہیں کرپاتے۔ یہ جو ایغور مسلمانوں کے بارے میں چند خبریں آئی ہیں اور خود عمران خان نے اس پر کیا تبصرہ کیا، اس کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ آبادی میں اضافہ ہمیں تباہی کی طرف لے جارہا ہے۔ کیا ہمارے نظام میں اتنی سکت ہے کہ وہ چین کے راستے پر چل کر اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرے؟ جنوبی کوریا نے اپنے مشکل دنوں میں سب سے پہلے لڑکیوں کی لازمی تعلیم پر توجہ دی تھی۔ مختصر یہ کہ دنیا تو ہمارے سامنے ہے۔ ہماری نظر میں ہے۔ ہم گھر بیٹھے بھی اسے دیکھ اور پڑھ سکتے ہیں۔ لیکن زیادہ بہتر یہی ہے کہ ہم ایک مسافر بن کر اس کا مشاہدہ کریں۔ دوسرے ملکوں کی فضا میں سانس لیں اور آنکھیں کھول کر دیکھیں کہ منظر کیا ہے اور پس منظر کیا ہے۔ بس مشکل یہ ہے کہ اگر آپ کے پاس پاکستان کا ہرا پاسپورٹ ہے تودنیا دیکھنا بہت آسان نہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)