واصف علی واصف
پریشانی حالات سے نہیں ،خیالات سے ہوتی ہے اور جسے ہم غم کہتے ہیں، دراصل وہ ہماری مرضی اور خدا کی منشا کے فرق کا نام ہے۔
جو لوگ ناکامی کو عذر بنا کر پریشانی کی دلدل میں اتر جاتے ہیں ،ان کی زندگی روگ ہو جاتی ہے اور وہ پریشانی کی اس دلدل میں دھنستے چلے جاتے ہیں، مگر وہ باہمت لوگ جو ناکامی کو کامیابی کا پہلا زینہ سمجھ کر جشن مناتے ہیں ،قسمت ان پر مہربان ہوتی چلی جاتی ہے۔ میں حسرتوں کے قبرستان میں مجاور بن کر زندگی بسر کرتے نوجوانوں کو دیکھتا ہوں تو ونسٹن چرچل یاد آتا ہے جو چھٹی جماعت میں فیل ہو گیا تھا۔ بدقسمتی کا یہ عالم تھا کہ آکسفورڈ اور کیمرج یونیورسٹی میں میرٹ پر داخلہ نہ لے سکا لیکن آج اس کا شمار دنیا کے کامیاب ترین حکمرانوں میں ہوتا ہے۔آج البرٹ آئن اسٹائن کے نظریات پڑھے بغیر طبعیات کا مضمون ادھورا محسوس ہوتا ہے لیکن جب وہ پیدا ہوا تو چار سال تک بول نہیں سکتا تھا،اس لئے سات سال کی عمر میں اس کی ابتدائی تعلیم شروع ہوئی۔
اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگاکہ، معروف لوگوں نے اپنی کمزوری اور معذوری کو اپنی راہ کی رکاوٹ نہیں بننے دیا۔ دنیا میں کوئی بھی انسان پرفیکٹ نہیں ہوتا یعنی مکمل نہیں ہوتا ،جن لوگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ پُر اعتماد ہوں گے وہ بھی عدم تحفظ کا شکار ہوجاتے ہیں ہم میں سے ہر کوئی اپنی زندگی میں کچھ نہ کچھ کمی محسوس کرتا ہوگا یہ سچ ہے کہ ہم سب کی زندگی نشیب و فراز سے بھری پڑی ہے۔
عموماً لوگوں کا ماننا ہے کہ اگر آپ کے پاس پیسہ ، اثرو رسوخ اور اچھی شکل وصورت ہے تو آپ بآسانی منزل طے کرسکتے ہیں لیکن یہ ضروری نہیں ، کیوں کہ ان سب سے اوپر بھی ایک چیز ہے ،جن کے آگے یہ چیزیں پھیکی پڑجاتی ہیں اور وہ ہے خوداعتمادی،اچھی تربیت شخصیت کی نشوو نما میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے ۔
خود اعتمادی پیدا کرنے اوردنیا میں کامیاب ہونے کے لئے آپ کو اپنی سوچ کو بدلنا ہوگا سوچ میں انقلاب لانا ہوگا، کہتے ہیں کہ انسان جس طرح سوچتا ہے وہ اُس طرح کا بن جاتا ہے، اگر سوچ صحت مند ہو گی ، مثبت ہوگی تو پھر انسان کا وجود اور ذہن بھی صحت مند ہوگا۔ اگر سوچ ہی منفی ہو تو پھر اُس کے اثرات بھی منفی ہوں گے۔ ایک اور خوبصورت بہت اہم بات کہ اﷲ کی رضا میں راضی ہوجائیں اور یقین کر لیں کہ وہ جو کرے گا بہتر کرے گا ۔