• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

افغانستان میں قیامِ امن کیلئے افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان بات چیت کے امکانات اگرچہ پچھلے برسوں کے مقابلے میں کافی بہت روشن ہیں لیکن اس عمل کے ازسرنو تعطل کا شکار ہو جانے کے خدشات بھی موجود ہیں لہٰذا تمام فریقوں کو کسی منفی صورتحال سے بچنے کیلئے آخری حد تک سنجیدگی اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ مفاہمت کی کوششوں کو نتیجہ خیز بنانے کیلئے امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان امن عمل زلمے خلیل زاد جس جاں فشانی سے سرگرم عمل ہیں، پاکستان کے ساتھ واشنگٹن اور کابل کے رویوں میں جو خوشگوار تبدیلی نظر آرہی ہے، صدر غنی شکوے شکایت کی روش ترک کرکے پاکستانی قیادت پر جس بھرپور اعتماد کا اظہار کر رہے ہیں، بھارت کو اس عمل سے باہر رکھ کر پاکستان کے اطمینان کا جو بندوبست کیا گیا ہے، خود پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کیلئے جس نئے جذبے کے ساتھ متحرک ہے اور امریکی قیادت اس عمل میں عرب ممالک اور چین کے تعاون کو یقینی بنانے کیلئے جو اقدامات کر رہی ہے، اس سب کے باوجود زلمے خلیل زاد کا کہنا ہے کہ انہیں افغانستان میں قیام امن کیلئے ہونے والے مذاکراتی عمل میں کسی ’’ٹھوس پیشرفت‘‘ کا انتظار ہے۔ واضح رہے کہ زلمے خلیل زاد مذاکراتی عمل کی بحالی کے سلسلے میں چار ملکی دورے کے دوران گزشتہ روز پاکستان میں تھے جہاں انہوں نے وزیراعظم، آرمی چیف اور وزیر خارجہ سے ملاقاتیں کیں اور ان میں ہونے والی بات چیت کو امید افزا قرار دیا۔ ان کے دورے کا مقصد طالبان کی جانب سے افغان حکومت سے بات چیت سے انکار کے بعد مذاکراتی عمل میں پیدا ہونے والے ڈیڈ لاک کو ختم کرنا تھا، تاہم ذرائع ابلاغ کے توسط سے ان اطلاعات کے منظر عام پر آنے کے باوجود کہ افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کا دوسرا دور پاکستان میں ہو گا جس میں متعدد طالبان رہنماؤں کے علاوہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کے نمائندے بھی شریک ہوں گے، تحریک طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے ایک ٹویٹر پیغام میں امریکہ اور ’’امارات اسلامی افغانستان‘‘ کے نمائندوں کے درمیان اسلام آباد میں مذاکرات کی خبروں کو محض بے بنیاد افواہ قرار دیا گیا ہے۔ زلمے خلیل زاد کے مطابق طالبان نہ تو جنگ بندی کیلئے تیار ہیں، نہ ہی افغان حکومت سے بات چیت کیلئے۔ اس صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے ضروری ہے کہ ایک طرف امریکہ طالبان سے مذاکرات کے معاملے میں اپنی پالیسیوں کے تمام تضادات دور کرے اور اپنے تمام اداروں کو اس حوالے سے ایک صفحے پر لائے۔ طالبان قیادت کے ان تمام خدشات کا ازالہ کیا جائے جن کی بنیاد ماضی میں پاکستان کی کوششوں سے ان کے مذاکرات پر آمادہ ہو جانے کے بعد امریکی ڈرون حملوں میں طالبان قیادت کے نشانہ بنائے جانے یا بات چیت کا عمل شروع ہونے سے عین پیشتر کسی حساس اطلاع کے منظر عام پر لے آئے جانے کے ذریعے سبوتاژ کیے جانے کی کارروائیاں ہیں۔ مذاکراتی عمل میں پاکستان کے کردار کو زیادہ مؤثر بنانے کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ امریکہ پاکستان کے مقابلے میں بھارت کو خطے کی بالادست طاقت بنانے کی کوششوں سے گریز کی پالیسی اپنائے۔ نیز افغان حکومت پاکستان کے اس مبنی بر حقیقت موقف کو پوری طرح تسلیم کرکے کہ افغان امن خود پاکستان کی ناگزیر ضرورت ہے، پاکستان کے خلاف بدگمانی اور الزام تراشی کی روش کو مستقل طور پر ترک کر دے۔ دوسری جانب افغان طالبان کی قیادت کو بھی سمجھنا چاہئے کہ امن و استحکام اور ترقی و خوشحالی افغان عوام کا بھی حق ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کوشش ہے کہ امریکہ کو افغانستان سے جلد از جلد نکال لیا جائے۔ اگر مذاکرات کے ذریعے ایسا نہ ہو سکا اور امریکی افواج اس کے بغیر ہی واپس چلی گئیں تو افغانستان میں بدترین خانہ جنگی یقینی نظر آتی ہے جس کی تباہکاریاں ناقابلِ تصور ہوں گی اور ان پر قابو پانا بہت مشکل ہو گا لہٰذا طالبان قیادت کو امن عمل کیلئے موجودہ سازگار ماحول سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عشروں سے جنگ کے شعلوں میں جھلستے اپنے ملک میں امن و استحکام کے قیام کو یقینی بنانے میں اپنا کردار پوری ذمہ داری سے ادا کرنا اور اس موقع کو ضائع کرنے سے لازماً اجتناب کرنا چاہئے۔

تازہ ترین