• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمیشہ کی طرح کاروبار ٹھہراؤکا شکار، خوف کی ٹیکنالوجی اور ریاست

دنیا بھر میں حکومتیں اچھی طرز حکمرانی، خوف اور قانون کی حکمرانی اور بلا تعصب عملداری کے ذریعے اپنے شہریوں سے عزت حاصل کرتی ہیں۔جہاں حکومتیں ریاستی عہدیداروں کے ذریعے قانونی کی حکمرانی قائم کرتی ہیں وہیں وہ متعلقہ حکام کو جو قانون کی حدودکے اندر رہتے ہوئےاپنی ذمہ داری پوری کرتے ہیں، نیک نیتی سے استثنیٰ بھی فراہم کرتی ہیں ۔ ہر ریاست نے سزا کا ایک نظام وضع کیا ہے تاکہ معاشرے میں قانون کی حکمرانی اور ہم آہنگی یقینی بنائی جاسکے۔ انصاف سے متعلق قانون کی مستعد اور بلا امتیاز فراہمی سے نہ صرف قانون کےلیے احترام پیدا ہوتاہے بلکہ اس سے قانون توڑنے کے خلاف رکاوٹ بھی پیدا ہوتی ہے۔یہ قانون کا خوف ہی ہے لوگوں کو جرم کے ارتکاب سے روکتا ہے اور یہی رکاوٹ بالآخرجرائم کو کنٹرول کرنے والا مخفی پولیس اہلکار بن جاتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں، انصاف کے فوجداری نظام میں خوف اورقانون کا احترام لازم و ملزوم ہیں۔اسی طرح یہ خوف اس وقت معاشرے پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے جب اسے کسی کو نشانہ بنانے کےلیے انتقام ، دھونس و دھمکی، بے عزتی ، روزگار اور مال و اسباب کھونے ، اور جان و مال اور سرمائے کے عدم تحفظ کےلیے آلے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے ۔ خوف ایک ناخوشگوار جذبہ ہے جو نقصان، درد یا خطرے کے خدشے سے پیدا ہوتا ہے جبکہ روک یا رکاوٹ نتیجے کے بارے میں شک یا خوف کو دل میں بٹھانے کے ذریعے کسی عمل سے باز رکھنے کا عمل ہے۔ متعدد ممالک کی تاریخ عالمی برادی میں اونچا مقام حاصل کرنے کی خاطر جنگ لڑنے سمیت ان کے دیگر چیلنجز سے نمٹنے کے بارے میں بتاتی ہے ۔ اس کے برعکس ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمارے قومی رہنما خود بین الاقوامی فورمز اور میڈیا پر ملک کو دنیا کے سب سے کرپٹ ملک کے طور پر پیش کر کے بدنام کر رہے ہیں۔ وہ ہر پاکستانی کو منی لانڈرنگ میں ملوث ، منشیات فروش اور ریپ جیسے جرائم کا ارتکاب کرنیوالابنا کر پیش کر رہے ہیں۔ حکومت کا حزب اختلاف کے بارے میں انتقامی رویہ ملک کو کبھی بھی فائدہ نہیں پہنچائے گا۔ بلا امتیاز احتساب کے بغیر کرپشن کا یہ راگ قانون کا خوف یا کوئی روک پیدا نہیں کررہا بلکہ جرائم پیشہ افراد کے بیانیے کی حمایت کر رہا ہے۔ آئی سی آئی جے، جس نے پاناما پیپرز لیک کیے، دنیا بھر کے 50ممالک میں 140معروف سیاستدانوں کو نشانہ بنایا۔ پاناما لیکس نے کچھ ہی گھنٹوں میں دنیا بھر میں طاقت کی بنیادوں کوہلا کر رکھ دیا۔ اس لیکس نے آئس لینڈکے وزیراعظم کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا جبکہ ارجنٹائن کے صدر مارسیو میکری سے استعفے کا مطالبہ کیا گیا۔ اگر ہم غور سے ان ناموں کا جائزہ لیں توہ پتہ چلتا ہے کہ سب وہ لوگ ہیں جنہیں عظیم یا قابل احترام رہنمائوں کے طور پر جانا جاتا تھا۔ میں عدالتوں کے ذریعے احتساب کا بڑا حامی ہوں، نہ کہ میڈیا ٹرائل یا مشتہر تحقیقات اور پرو پیگنڈ ےکے ذریعے،جو کہ نہ صرف قانون کے اس اصول کے خلاف ہے جس کے مطابق ’’ہر شخص بے گناہ ہے جب تک کہ وہ کچھ اور ثابت نہ ہو‘‘، بلکہ ملزم اور ملک کے لیے بھی بدنامی کاباعث بنتا ہے۔ ایک طرف تو میڈیا کے ذریعے سیاستدا نو ں اور بیوروکریٹ کا احتساب خود ہمارے ملک اور ہم وطنوں کےلیے شرمندگی کا باعث بنا ہے اور دوسری جانب ہم ملک میں سرمایہ کاری کا رونا روتے ہیں کیونکہ سرمایہ کار نہ صرف اپنی جان اور سلامتی سے متعلق خدشات میں مبتلا ہیں بلکہ فراڈ اور سرمایہ کاری سے متعلق غیر مستحکم ماحول کی وجہ سے سرمائے کے نقصان کے خوف میں بھی مبتلا ہیں۔سرمایہ کاروں کے خوف کی وجہ قانون شکنی کی صورت میں کسی قانونی روک کی عدم موجودگی ہے۔ جب سرمایہ کار اپنی جان اور سرمائے سے متعلق عدم تحفظ کا شکار ہو جائے تو وہ اپنا سرمایہ ملک میں لگانے کی بجائے سری لنکا، بنگلا دیش ، کینیڈا اور تھائی لینڈ جیسے دیگر ممالک میں منتقل کردیتا ہے۔خداکےلیے! حکومت کو تمام کرپٹ عناصر کا احتساب مجاز عدالتوں کے ذریعے متعلقہ قانون استعمال کر کے کرنا چاہیے نہ کہ سوشل میڈیا، پرو پیگنڈ ے، پریس کانفرنس یا الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے۔ کرپشن یا بدعنوانی کے کسی بھی ملزم کا ماورائے عدالت احتساب متعلقہ ریاستی ادارے پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے، جو بالآخر کسی بھی ناانصافی کے خلاف شہریوںکے حقوق کے تحفظ میں ناکام ہوجاتے ہیں۔ بیوروکریٹ، بینکرز اور دیگر حکام اب خوفزدہ ہیں اور وہ فائلوں میں ایمانداری سے معلومات دینے پر تیار نہیں، کیونکہ وہ مستقبل میں کسی بھی صورتحال میں تفتیش اور اس کے اثرات سے خوفزدہ رہتے ہیں۔ ہم نے، بطور ریاست، اپنی بزنس کمیونٹی اور سرمایہ کاری سیکٹر میں قوانین کے بلا امتیاز اطلاق کے ذریعے احتساب کے نظریے کو فروغ دینے کی بجائے صرف خوف کو فروغ دیا ہے ۔ مجھے اسے احتساب کے نام پر ’’خوف ٹیکنالوجی‘‘کہنے دیںجس کا مقصد کاروباری شخصیات اور ممکنہ سرمایہ کاروں سمیت معاشرے کے متعدد طبقات کو خوفزدہ کرنا ہے۔ یہ خوف ٹیکنالوجی عوام، سرمایہ کار اور حکومتی اہلکاروں سے ان کا سکون چھین رہی ہے۔ خوف کی اس ٹیکنالوجی نے ہمارے بیوروکریٹس کو بے عزتی کے خوف سے معمول کی ذمہ داریاں ادا کرنے سے بھی تقریباً مفلوج کردیا ہے ۔ موجودہ حکومت اب تک سرکاری حکام اور کاروباری شخصیات کو بے خوف ہو کر اپنا کام کرنے کا اعتماد دینے میں ناکام رہی ہے۔ مجھے پختہ یقین ہے کہ حکومت اس وقت سرکاری حکام کے ذہنوں میں سرایت کردہ خوف کی وجہ سے ٹہراؤ کا شکار ہے۔ بہتر نظام حکومت اور شفاف احتساب کےلیے تمام اسٹیک ہولڈرز میں تحفظ کااحساس بڑھانا ہوگا اور احتساب میں اصلاحات متعارف کرانا ہوں گی۔ ہمیں بطور قوم خوف کی اس ٹیکنالوجی کا استعمال روکنا ہوگاجو پوری نظام حکومت کےلیے سخت نقصان دہ ہے۔ ہمیں بطور قوم ہر عمل کےلیے قابل احتساب ہونے دیں اور ریاست کو یہ یقینی بنالینے دیں کہ مخالفین کو مغلوب کرنے اور حکومت چلانےکےلیے خوف کی ٹیکنالوجی کا استعمال اور فروغ نہیں کیا جائیگا۔ میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ کے ان خیالات کی مکمل حمایت کرتا ہوں جس میں انہوں نے کہا ’’ہمیں یہ بحث بھی کرنی چاہیے کہ کس طرح مقننہ کو قانون سازی کی حد تک محدود رکھا جاسکتا ہے ، اور کس طرح قانون سازوں کو ترقیاتی فنڈز، تقرریوں اور تبادلوں میں مداخلت، عوامی خدمتگار کی ترقی جو کہ اختیار کے ناجائز استعمال ، کرپشن، میرٹ کی عدم موجودگی، اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونیوالے برے نظام حکومت کا مرکزی میدان ہے،کے ذریعے ایگزیکٹو کی حدود میں تجاوز کرنے کی بجائے قانون سازی کے کردار تک محدود رکھا جاسکتا ہے ۔ بیوروکریٹس کو اپنے نیک نیتی کے ساتھ لیے گئے قانونی اور دیانت دارانہ اقدامات کےلیے آئینی تحفظ کی ضررورت ہے جبکہ سیاستدانوں کے میڈیا ٹرائل کی بجائے انہیں احترام دینے کی ضرورت ہے۔اسی طرح، کاروباری کمیونٹی کے ساتھ ان کی ملک کے لیے خدمات کے پیش نظر احترام والا سلوک اور تحفظ ہونا چاہیےاور ایکشن صرف اس صورت میں لیا جانا چاہیے جب جرم ثابت ہو جائے۔ احتساب کے قانون میں اصلاحات متعارف کرائی جانی چاہئیںتاکہ انتقامی کارروائیوں کا خاتمہ ہو، اور احتسابی اداروں کو سختی سے قانون کی پاسداری کرنی چاہیے اور جھوٹہ مقدمہ چلانے پر ان کا بھی احتساب اور سزا کا نظام ہونا چاہیے۔

واٹس ایپ 923325559393+

تازہ ترین