• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ماڈرن دور ہے۔ ہر معاملہ میں ماڈرن چیزیں پسندیدہ خیال کی جا رہی ہیں۔ یہاں تک کہ لوگ دینی مسائل کو بھی اسی تناظر سے قبول کرنا چاہتے ہیں۔ تمنا یہ ہوتی ہے کہ مسائل پر ’’دین‘‘ کا لیبل بھی چسپاں رہے، ہماری خواہشات کی تکمیل بھی ہوتی رہے اور ہمارے ہر طرح کے فیصلے بھی برقرار رہیں۔ مزید برآں یہ کہ اگر ہمارے اس خود ساختہ قانون کے مدمقابل کوئی آیت، کوئی حدیث یا صحابہ کرامؓ کا کوئی فتوی آن کھڑا ہو تو اسے بھی نہایت آسانی کے ساتھ ’’زمانی افادیت کھو دینے‘‘ کی دلیل سے ناقابلِ عمل قرار دے دیا جاتا ہے۔ نیز اپنے خیال کو ائمہ اربعہ میں سے امام مالکؒ اور امام احمدؒ کی طرف غلط منسوب کرتے ہوئے ذرہ برابر ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی جاتی، پھر اس پر طرۂ امتیاز یہ کہ اگر کوئی غلط اقدام کر بیٹھے تو اسے بلاخوف و خطر کہہ دیا جاتا ہے ’’پریشان ہونے کی چنداں حاجت نہیں! اگر شریعت کی رو سے آپ جرم کر بیٹھے ہیں تو ہم اپنے قانون کے تحت آپ کے فعل کو جواز فراہم کیے دیتے ہیں‘‘۔ یہ عقلاً و نقلاً دینی امور کے ساتھ ناروا سلوک ہے اور اپنے آپ کو خواہشات کا پجاری بنانے کے مترادف ہے۔

یہ بات واضح ہے کہ ہمارے مسائل قرآن، حدیث اور صحابہ کرامؓ کے آثار سے ضیا پاتے ہیں۔ حدیث کی رو سے صحابہ کرامؓ خصوصاً خلفائے راشدینؓ کی پیروی کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔ ارشادِ نبوی ہے: ’’علم بسنت و سنۃ الخلفاء الراشدن المدن‘‘ (سنن ابی داود) (تم پر میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت لازم ہے) بایں وجہ صحابہ کرامؓ کے فیصلے ہمارے لیے حجت ہیں۔ خصوصاً وہ فیصلے جن پر صحابہ کرامؓ کا اجماع منعقد ہو گیا تھا۔ حضرت عمرؓ نے اپنے دور میں فیصلہ فرمایا تھا کہ ایک مجلس میں دی گئی تین طلاقیں تین ہی شمار ہوں گی۔ (صحیح مسلم) اس فیصلہ پر تمام صحابہ کرامؓ کا اجماع و اتفاق ہے اور تمام صحابہ کرامؓ اسی فیصلہ کے مطابق فتویٰ دیا کرتے تھے۔ پھر ائمہ اربعہ (امام ابوحنیفہؒ، امام مالکؒ، امام شافعی اور امام احمد بن حنبلؒ) سلفِ صالحین اور جمہور علما و محدثینؒ کا یہی مذہب ہے کہ تین طلاقیں تین ہی شمار کی جائیں گی۔ البتہ اہل تشیع اور ابن تیمیہؒ نے اس کے برخلاف قول اختیار کیا، جسے جمہور امت نے مرجوح اور ناقابلِ عمل قرار دیا ہے۔ (فتح الباری شرح صحیح البخاری) امام بخاریؒ نے ’’باب من اجاز طلاق الثلاث‘‘ کے نام سے باب قائم کیا ہے۔ اس کے تحت وہ احادیث ذکر کی ہیں جن میں تین طلاقوں کو تین طلاقیں قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح مسلم شریف میں بھی اس عنوان کے تحت وہ تمام احادیث مذکور ہیں۔ نیز سننِ کبریٰ میں ’’باب امضاء الثلاث وان کن مجموعات‘‘ کے عنوان سے باب قائم کیا گیا ہے۔ اس میں وہ احادیث بیان کی گئی ہیں جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عملاً یکبارگی دی گئی تین طلاقوں کے بارے میں ’’تین طلاقیں‘‘ ہونے کا فیصلہ صادر فرمایا ہے۔

حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ایک شخص کو تین طلاق دیتے ہوئے سنا تو غضبناک ہوگئے اور فرمایا ’’تتخذون ایات اھزواً او دین اھزوًّ ا او لعبا؟ من طلق البت الزمناہ ثلاثا لا تحل لہ حتی تنکح روجاً غیرہ‘‘ یعنی تم آیات اللہ کو مذاق بناتے ہو؟ یا یہ فرمایا کہ کھیل بناتے ہو؟ جو بھی طلاق البت (تین طلاقیں) دے گا ہم تین ہی لازم کر دیں گے، اس کی بیوی حلال نہ ہو گی جب تک کہ وہ دوسرے سے نکاح نہ کرے۔ (المغنی لابن قدامہ)

اسی طرح صحیح بخاری و صحیح مسلم میں ہے کہ جب کوئی شخص تین طلاقیں دے کر حضرت ابن عمرؓ سے فتویٰ دریافت کرتا تو آپ ارشاد فرماتے ’’اگر تو نے ایک یا دو طلاق دی ہوتی (تو رجوع کر سکتا تھا اس لیے کہ) رسول اللہﷺ نے مجھ کو اس کا حکم دیا تھا، لیکن اگر تونے تین طلاقیں دی ہیں تو وہ تم پر حرام ہو گئی ہے، جب تک دوسرے سے نکاح نہ کرے تمہارے لیے حلال نہیں ہو سکتی۔ (بخاری و مسلم)

اس طرح کی کثیر احادیث ہیں جو اس بات کی شہادت دے رہی ہیں کہ یکبارگی دی گئی تین طلاقیں تین ہی شمار ہوں گی لیکن احباب اپنے تئیں اس تگ و دو میں ہیں کہ جمہور اُمت کا یہ متفقہ مسئلہ زمانی افادیت کھو چکا ہے، اس لیے اسے بدل دینا چاہئے۔ احباب اس کوشش میں نرے مخلص واقع ہوئے ہیں، بنا بریں کئی دینی عقائد و مسائل بدل ڈالے ہیں۔

قرآن نے دینِ اسلام کو ’’کامل دین اور نعمت‘‘ قرار دیا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے ’’اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلاَمَ دِیْنًا‘‘ (آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا، تم پر اپنی نعمت پوری کر دی، اور تمہارے لیے اسلام کو دین کے طور پر (ہمیشہ کے لیے) پسند کر لیا (لہٰذا اس دین کے احکام کی پوری پابندی کرو) (آسان ترجمہ قرآن) لیکن احباب خدائی احکام سے متصادم قوانین کو ’’نعمت‘‘ قرار دینے پر مصر ہیں۔

نیز یہ بات مسلمہ ہے کہ شریعت کی رو سے عورت طلاق و عدت کے بعد دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہے۔ اس پر کاغذی کارروائی نہ ہونے سے شریعت کے فیصلہ پر کوئی آنچ نہیں آتی۔ شرعی فیصلہ اپنی جگہ برقرار رہتا ہے اور اسی کا اعتبار ہوتا ہے، لیکن احباب چلے ہیں کاغذی کارروائی نہ ہونے کی بنیاد پر شرعی فیصلہ کو کالعدم قرار دینے۔ یہ کہاں کی تحقیق اور کہاں کا انصاف ہے؟

آپ ہی اپنی جفاؤں پہ ذرا غور کریں

ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہو گی

تازہ ترین