کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“میں میزبان شاہزیب خانزادہ نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ساہیوال واقعہ کے بعد تحریک انصاف کی حکومت تنقید کی زد میں ہے، وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو بھی سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑا،میڈیا سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کل شام تک پتا چل جائے گا کہ پچھلی حکومت اور نئی حکومت میں کیا فرق ہے،مگر اب تک جو تفصیلات سامنے آرہی ہیں وہ چونکا دینے والی ہیں، کیسے سی ٹی ڈی نے مبینہ جعلی مقابلہ کیا، پھر بار بار موقف بدلا، پنجاب حکومت کافی دیر خاموش رہی اور جب پنجاب حکومت کے وزیرقانون بولے تو وہی زبان بولے جو سی ٹی ڈی کی تھی، وزیراعظم نے ساہیوال واقعہ کی مذمت کی، صدر مملکت نے مرنے والوں کو شہید اور مارنے والوں کو ظالم قاتل کہا مگر پنجاب کے وزراء مبینہ جعلی مقابلہ کا دفاع کرتے دکھائی دیئے، ایک وقت تک حکومت خود کنفیوژن کا شکار نظر آئی کہ واقعہ سے کیسے ڈیل کیا جائے اور کیا موقف اختیار کیا جائے، واقعہ کے کئی گھنٹے گزرنے اور مظاہرین کے احتجاج کے بعد ایف آئی آر درج تو کی گئی مگر نامعلوم اہلکاروں کیخلاف کی گئی۔تجزیہ کار حامدمیر نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ساہیوال واقعہ پر اپوزیشن جماعتوں کو سیاست نہیں کرنی چاہئے، مشیر اطلا عا ت سندھ مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ امل واقعہ کے بعد زخمیوں کی لازمی ٹریٹمنٹ کیلئے قانون سازی کرلی ہے، بیوروچیف جیو نیوز لاہور رئیس انصاری نے کہا کہ ساہیوال واقعہ پولیس مقابلہ نہیں بلکہ ایک حملہ تھا،جائے وقوعہ پرفارنزک ماہرین کو بلایا نہیں گیا کیونکہ اگر انہیں بلالیتے تو وہ فوراً گتھی سلجھادیتے، فارنزک ماہرین بتادیتے کہ دہشتگردوں نے کوئی فائر کیا یا نہیں کیا، مقتولین کے پوسٹ مارٹم میں نکلنے والی گولیاں ابھی تک فارنزک ایجنسی کو موصول نہیں ہوئی ہے۔ رئیس انصاری کا کہنا تھا کہ انٹیلی جنس رپورٹس میں ذیشان کی گاڑی مشکوک قرار دی گئی جسےچیک کرنے کیلئے کہا گیا تھا لیکن سی ٹی ڈی نے گاڑی چیک کرنے کے بجائے فائرنگ کر کے گاڑی روکی، اس فائرنگ سے گاڑی میں موجود خلیل کی بیوی نبیلہ اور بیٹی اریبہ کو گولی لگ چکی تھی جبکہ اس کے بیٹے کے گولی ٹانگ میں لگی تھی، اس بچے نے اسپتال میں بتایا کہ میرے والد نے پولیس والوں کو کہا کہ گولی مت چلاؤ مگر پھر بھی فائرنگ کی گئی، سی ٹی ڈی کہتی ہے کہ پچھلے گلاس سیاہ تھے حالانکہ پچھلا دروازہ کھول کر انہوں نے بچے نکالے اور دوبارہ فائرنگ کی۔ رئیس انصاری کا کہنا تھا کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ گاڑی پر فائرنگ کر نے کے بعد سی ٹی ڈی اہلکاروں کو اندازہ ہوگیا تھا کہ کچھ غلط ہوگیا ہے اس لئے انہوں نے فیصلہ کیا کہ گاڑی میں موجود لوگوں کو مار دیا جائے اور طریقہ کار کے مطابق انہیں دہشتگرد قرار دیدیا جائے، ایس او پیز کے مطابق جب کبھی دہشتگردوں کو مارا جاتا ہے تو وہ علاقہ سیل کردیا جاتا ہے لیکن یہ لاشیں وہیں چھوڑ کر چلے گئے، سی ٹی ڈی کہتی ہے کہ ذیشان نے کار سے اتر کر فائرنگ کی جبکہ فوٹیج دیکھیں تو ذیشان گاڑی میں مرا ہوا ہے اور اس کے سیٹ بیلٹ لگی ہوئی تھی۔سینئر صحافی و تجزیہ کار حامد میر نے کہا کہ ساہیوال واقعہ سے پنجاب پولیس خاص طور پر سی ٹی ڈی کے تربیتی نظام کی خامیاں کھل کر سامنے آگئی ہیں،وزیراعظم عمران خان سی ٹی ڈی کی بڑی تعریف کی انہیں یہ بھی بتانا چاہئے کہ کیا سی ٹی ڈی کی ٹریننگ یہ ہے کہ بغیر نمبر پلیٹ کی گاڑی پر دہشتگردوں کا پیچھا کرتے ہیں، ان کو یہ بھی نہیں پتا چلتا کہ اس گاڑی میں عورتیں اور بچے ہیں، انہیں یہ بھی نہیں پتا چلتا کہ گاڑی میں عورتیں اور بچے ملزم ہیں، مجرم ہیں، بے گناہ ہیں یا گناہ گار ہیں، سی ٹی ڈی اہلکاروں نے رنگ برنگے کپڑے پہنے ہوئے تھے ، کسی نے بلٹ پروف جیکٹ نہیں پہنی ہوئی تھی۔ حامد میر کا کہنا تھا کہ سانحہ ساہیوال کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب کی نااہلی کھل کر سامنے آگئی ہے، عمران خان کے پاس اپنے ذرائع سے جو معلومات ہیں وہ سی ٹی ڈی اور پنجاب پولیس کے دعوؤں سے مختلف ہے، اس معاملہ میں وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی کارکردگی انتہائی غیرتسلی بخش رہی ہے، وزیراعلیٰ پنجاب کو اب تک آئی جی پنجاب کو عہدے سے ہٹادینا چاہئے تھا جس کی منظوری کے ساتھ سی ٹی ڈی نے جھوٹ بولا ،عثمان بزدار اس بچے کے پاس پھول لے کر چلے گئے جس کی ماں، باپ اور بہن کو اس کی آنکھوں کے سامنے قتل کردیا گیا،ساہیوال واقعہ پر اپوزیشن جماعتوں کو سیاست نہیں کرنی چاہئے، ن لیگ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ذمہ داروں کو سزا نہیں دی لہٰذا اس معاملہ میں انہیں پوائنٹ اسکورنگ نہیں کرنی چاہئے، اسی طرح پیپلز پارٹی بھی نقیب اللہ محسود کے قتل پر راؤ انوار کو سزا نہیں دلواسکی ہے، آج بھی کلفٹن میں سفید شلوار قمیض میں ملبوس پولیس اہلکاروں نے کچھ لوگوں کو اغوا کیا۔