• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سانحہ ساہیوال، چیف جسٹس کیلئے از خود نوٹس لینے کا بہترین کیس

اسلام آباد (انصار عباسی) پنجاب کے محکمہ انسداد دہشت گردی (کائونٹر ٹیرر ازم ڈپارٹمنٹ) کے ہاتھوں 13؍ سال کی بچی کی اس کے ماں باپ کے ساتھ ہلاکت کا واقعہ نئے مقرر ہونے والے چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ کی جانب سے از خود نوٹس لینے کیلئے بہترین کیس ہے کیونکہ واقعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ماورائے عدالت قتل کے واقعات آج بھی جاری ہیں۔ محکمہ انسداد دہشت گردی کے قاتلوں کے موقف کی تائید بھونڈے انداز سے کرنے والے پی ٹی آئی پنجاب کے وزیروں کیلئے یہ معاملہ اضافی نقصان کا باعث بنی۔ حقیقتاً، یہ ماورائے عدالت قتل اور جعلی پولیس مقابلے کا واقعہ تھا جو پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں پیش آیا۔ جعلی مقابلے تو پہلے بھی ہوتے تھے لیکن گزشتہ سال نہتے نقیب اللہ محسود کی ایس پی رائو انوار کی زیر قیادت پولیس ٹیم کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد حکام سے توقع کی جا رہی تھی کہ وہ یہ عمل روک دیں گے۔ بدقسمتی سے ایسا نہ ہوا اور ساہیوال کی تازہ ترین بربریت حکام کی بے حسی کی عکاس ہے کیونکہ ان کیلئے انسان جان کی کوئی قدر نہیں۔ اس واقعے میں توجہ صرف اس ماورائے عدالت قتل کی ہدایت اور اس پر عمل کرنے والوں کو سزا دینے پر مرکوز نہیں رکھنا چاہئے بلکہ جعلی مقابلوں کو ہمیشہ کیلئے روکنے پر بھی توجہ ہونا چاہئے۔ یہ کام صرف سپریم کورٹ ہی کر سکتی ہے۔ بصورت دیگر، نقیب اللہ محسود کے قتل کے بعد اگر ہم نے غلطی کو سدھارنے کا موقع گنوا دیا تو ساہیوال کا سانحہ بھی تاریخ کے اوراق میں کھو جائے گا اور جعلی مقابلوں کے ذریعے ماورائے عدالت قتل کے واقعات بلا روک ٹوک جاری رہیں گے۔ میڈیا اور عام گواہوں کیلئے یہ ممکن نہیں کہ وہ ایسے واقعات کو بے نقاب کر سکیں۔ کسی کو نہیں معلوم کہ جعلی مقابلوں میں ایسے کتنے معصوم مارے جا چکے ہیں اور انہیں ’’دہشت گردی‘‘ کا لقب مل چکا ہے۔ لیکن یہ طے ہے کہ جب تک ریاست محتاط ہو کر ایسے واقعات کو روکنے کا فیصلہ نہیں کرے گی اس وقت تک یہ عمل جاری رہے گا۔ پنجاب حکومت نے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دیدی ہے جو ان افراد کو قصور وار قرار دے گی جنہوں نے گولی چلائی۔ مسئلہ یہ نہیں کہ یہ کبھی کبھار پیش آنے والا واقعہ تھا بلکہ یہ ایک ایسا عمل ہے جو طویل عرصے سے ایسے لوگوں کو ٹھکانے لگانے کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے جنہیں حکام ’’سیاہ‘‘ (ٻBlack) قرار دیتے ہیں۔ پس پردہ (آف دی ریکارڈ) بات چیت میں پولیس اور سیکورٹی حکام اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ جعلی مقابلے معمول کی کارروائی ہیں لیکن اس کا بنیادی مقصد ان دہشت گردوں اور مجرموں سے نجات حاصل کرنا ہے جن پر مقدمہ چلانا اور قانون کے دائرے میں رہ کر انہیں سزا دلوانا بہت مشکل ہے۔ لیکن نقیب اللہ محسود اور ساہیوال قتل کیس وہ نمایاں مثالیں ہیں کہ کس طرح ایسے معصوموں کو ماورائے عدالت قتل کرکے موت کےگھاٹ اتار دیا جاتا ہے جن کا کوئی مجرمانہ ماضی نہیں ہوتا۔ وزیراعظم عمران خان نے اپنی ٹوئٹ میں دہشت گردی کیخلاف محکمہ انسداد دہشت گردی کے ’’زبردست کام‘‘ کی تعریف کی اور کہا کہ ہر شخص کو قانون کے روبرو جواب دہ ہونا چاہئے۔ انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ جے آئی ٹی رپورٹ سامنے آتے ہی فوری کارروائی کی جائے گی۔ ایک اور ٹوئٹ میں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ قطر سے واپسی پر نہ صرف وہ قصور وار کو مثالی سزا دی جائے گی بلکہ پنجاب پولیس کا پورے ڈھانچے کا بھی جائزہ لیا جائے گا اور اس میں اصلاحات کا عمل شروع کیا جائے گا۔ پی ٹی آئی حکومت کے پانچ ماہ میں پولیس اور بیوروکریسی کو سیاست میں مزید جھونکنے کے بار بار پیش آنے والے واقعات کے بعد اب عمران خان دوبارہ وعدہ کر رہے ہیں کہ پولیس میں اصلاحات لائی جائیں گی۔ شاید انہیں یہ محسوس کرنے کی ضرورت ہے کہ پولیس میں اصلاحات اور اسے سیاست سے پاکس کرنے کے برعکس ماورائے عدالت قتل اور جعلی مقابلے سنگین اور پیچیدہ معاملہ ہیں۔ اگرچہ وزیراعظم عمران خان نے ساہیوال واقعے پر افسوس کا اظہار کیا لیکن پنجاب میں ان کی اپنی ہی پارٹی حکومت قتل کا واقعہ پیش آنے کے گھنٹوں بعد بھی محکمہ انسداد دہشت گردی کے موقف کی تائید کرتی رہی۔ پریس کانفرنس میں پنجاب کے وزیر قانون راجہ بشارت نے کابینہ کے اپنے چار ساتھیوں کے ہمراہ اصرار کیا کہ پہلے ڈرائیور ذیشان نے فائر کھولا تھا جبکہ اس سے 8؍ دستی بم، دو خودکش جیکٹ اور ہتھیار بھی برآمد ہوئے۔ وزیر قانون نے مزید کہا کہ ذیشان کے ساتھیوں کو ہفتے کی رات گوجرانوالہ میں ہلاک کیا گیا۔ میڈیا کو یہ بھی بتایا گیا کہ ذیشان کا بھائی حال ہی میں ڈولفن فورس میں بھرتی ہوا تھا۔ راجہ بشارت نے کہا کہ ساہیوال آپریشن انٹیلی جنس کی بنیاد پر کیا جانے والا آپریشن تھا جسے قانون نافذ کرنے والے حکام نے قابل بھروسہ خفیہ معلومات کے تحت کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس بات کے شواہد ہیں کہ مرنے والا ذیشان اپنے گھر پر دہشت گردوں کو قیام کی سہولت دیتا تھا، ذیشان کا تعلق داعش سے تھا، ہمیں اس بات کی تصدیق 18؍ جنوری کو ہوئی تھی کہ وہ دہشت گرد تنظیم کیلئے کام کرتا ہے، اگر ہم نے دہشت گردوں کو نہ روکا ہوتا تو بڑی تباہی آ سکتی تھی۔ جن لوگوں نے سی ٹی ڈی کو سکھایا اور اس کے بعد سی ٹی ڈی کی جانب سے بتائی گئی باتوں کو طوطے کی طرح رٹتے ہوئے وزیر قانون نے کئی ایسے سوالات چھوڑ دیے جن کا جواب نہیں ملا۔ مثلاً، اگر ذیشان کا دہشت گردوں کے ساتھ تعلق تھا تو کیا حکام نے اسے کبھی گرفتار کرکے تفتیش کی؟ سی ٹی ڈی یا حکومت کے اس موقف کی تائید کرنے والا ایک بھی گواہ کیوں نہیں کہ پہلے ذیشان نے اہلکاروں پر فائر کیا؟ اگر سی ٹی ڈی کو واقعی ’’قابل بھروسہ خفیہ معلومات‘‘ فراہم کی گئی تھیں تو اس معلومات پر کیسے بھروسہ کیا جا سکتا کہ پہلے سی ٹی ڈی نے کہا کہ اس نے ’’چار دہشت گردوں‘‘ کو ہلاک کیا لیکن اس کے بعد متعدد مرتبہ اپنا موقف تبدیل کیا؟ سی ٹی ڈی اور پنجاب حکومت کے دعوے کے مطابق اگر اہلکاروں نے خودکش جیکٹیں اور دیگر اسلحہ برآمد کیا تو انہیں ایسا کرتے ہوئے کسی نے دیکھا کیوں نہیں؟ اس صورتحال میں زیادہ توقع نہیں کہ حکومت کی جانب سے تشکیل دی جانے والی جے آئی ٹی ان سوالوں کا جواب دے پائے گی۔ پنجاب کے وزیروں کی پریس کانفرنس سے ایسا لگتا ہے کہ سچ کو سامنے لانے کی بجائے اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جائے گی۔

تازہ ترین