• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکومت کا پی آئی اے کے لیے اہم اقدامات کا فیصلہ

وزیراعظم عمران خان کے زیر صدارت رواں ماہ ہونے والے اجلاس میں پی آئی اے اور نیو اسلام آبادایئرپورٹ کے بارے میں اہم فیصلوں کی تفصیلات سامنے آگئیں۔

پی آئی اے ہیڈ آفس کراچی سے اسلام آباد منتقل کرنے ، نیو اسلام آباد ایئرپورٹ کا آپریشن پی آئی اے کے سپرد کرنے اور پی آئی اے میں مزید 8 فوجی افسران کی تعیناتی کا فیصلہ کیا گیا ہےجبکہارکان پارلیمنٹ کے لیے مفت ٹکٹ کی پالیسی پرنظرثانی اورایئرلائن انڈسٹری اور اندرون ملک سفر پر ٹیکس کم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

وزیراعظم عمران خان کے زیر صدارت اجلاس میں وزیر ہوابازی محمد میاں سومرو ، وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر ، آرمی چیف ، ایئر چیف ، سی ای او پی آئی اے ایئرمارشل ارشد ملک اور دیگر شریک ہوئے ۔

اجلاس پی آئی اے کے سی ای او ایئرمارشل ارشد ملک نے پی آئی اے کے بارے میں بریفنگ دی۔

دستاویز کے مطابق پی آئی اے ہیڈ آفس کراچی سے اسلام آباد منتقل کرنے کا اصولی فیصلہ کر لیا گیا ہے،اس سلسلے میں ایوی ایشن ڈویژن کو منتقلی کی سفارشات جولائی تک پیش کرنےکی ہدایت دی گئی ہے۔

اجلاس میں حاضر سروس فوجی افسران کی پی آئی اے میں تین سال کے لئے تعیناتی کا بھی فیصلہ کیا گیا۔8فوجی افسران میں سے 4 کا تعلق آرمی اور 4 کا پاکستان ایئر فورس سے ہوگا،فوجی افسران پی آئی اے میں تعیناتی کے دوران یونیفارم میں فرائض انجام دیں گے۔

اجلاس میں ایئرکموڈور جواد ظفر کو پی آئی اے بورڈ آف ڈائریکٹر میں شامل کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔دستاویزات کے مطابق نیو اسلام آباد ایئرپورٹ کا آپریشن سول ایوی ایشن سے لے کر پی آئی اے کو دینےکا اصولی فیصلہ کیا گیا ہے ۔

سی اے اے ذرائع کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں ایئرپورٹ ریگولیٹر سے لے کر آپریٹر کو دینے کی اس سے پہلے نظیر نہیں ملتی۔

اجلاس میں وزارت خزانہ کو ہدایت کی گئی ہے کہ پی آئی اے کو بوئنگ 777 طیاروں کی اپ گریڈیشن کے لیے 35 لاکھ ڈالر فوری دیئے جائیں جبکہ وزارت خزانہ پی آئی اے کی عبوری مالی امدادکے لیے مزید 15 ارب روپے جنوری میں ہی جاری کرے گا۔

اجلاس میں پی آئی اے کے ذمہ سول ایوی ایشن اتھارٹی کے اب تک کے تمام واجبات اور جرمانےمنجمد کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ۔

اجلاس میں پی آئی اے کے لیے ترکی اور قطر سے دو ایئربس 320 طیارے اور ایک ایئر بس اے 330 کارگو طیارہ لینے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔ ان فیصلوں پر پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی میں تشویش پائی جاتی ہے۔

واضح رہے کہ اجلاس میں سول ایوی ایشن اور ایوی ایشن ڈویژن کی نمائندگی نہیں تھی۔

تازہ ترین