کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ”نیا پاکستان شہزاد اقبال کے ساتھ“میں گفتگوکرتے ہوئے ن لیگ کے رہنمامحمد زبیر نے کہاہے کہ وزیر خزانہ اسد عمر کی تقریرکا 90فیصد حصہ سیاسی تھا،ماہر ٹیکس امور شبر زیدی نے کہا کہ ہمت پر اسد عمر اور عمران خان کو مبارکباد دیتا ہوں، ماہر معیشت محمد سہیل نے کہاکہ سرمایہ کاروں کا اعتماد بکھراہوا ہے ،بزنس مین عارف حبیب نے کہا کہ سپرٹیکس کا خاتمہ بہت بولڈ فیصلہ ہے،پی ٹی آئی کی رہنما شاندانہ گلزار نے کہا کہ تاجروں اور سرمایہ کاروں کو اعتماد چاہئے تھا۔میزبان شہزاد اقبال نے اپنے تجزیئے میں کہا کہ ایک اور ترمیم پیش کی گئی ہے فائنانس بل میں اب سے کچھ دیر پہلے فائنانس منسٹر اسد عمر کی جانب سے، دیکھا جائے تو یہ اس مالی سال کیلئے تیسرا بجٹ تھا، پہلا بجٹ ن لیگ نے پیش کیا تھا، اس کے بعد پہلی اصلاحات پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے ستمبر میں کی اورا ب ایک اور ترمیم اس فائنانس بل میں آئی ہے۔اسد عمر کا یہ کہنا کہ ہم نے کوئی نئے ٹیکسز نہیں لگائے، ہم نے جو اصلاحات کی ہیں اس سے غریب کو فائدہ ہوگا، بزنس اور سرمایہ کاری کو فروغ ملے گا، کیا یہ بات درست ہے یا جو اقدامات کیے گئے ہیں اس سے غریب آدمی اور ایک عام آدمی پر بھی فرق پڑے گا، ہم اس پروگرام میں اس پر بحث کریں گے۔ ن لیگ کے رہنمامحمد زبیر نے کہا کہ اسد عمر کی تقریر کا 90فیصد حصہ سیاسی تھا، ایون فیلڈ اپارٹمنٹس اور سوئس بینک اکاؤنٹس کا ذکر کررہے تھے، حکومت اور اپوزیشن کی طرف سے بجٹ میں political effort تو ہوتا ہے، ایک فرق ضرور تھا کہ پی ٹی آئی جب اپوزیشن میں تھی تو وہ سنتے نہیں تھے پیپرز پھاڑ کر باہر چلے جاتے تھے یا آتے ہی نہیں تھے، اس تناظر میں دیکھیں کہ آج جو شور شرابہ بھی تھا اس میں اسد عمر کی آواز دبی نہیں تھی، وہ اپنے جو بھی پروپوزل دے رہے تھے وہ سب نے واضح طور پر سنے، ایک تو یہ کہنا کہ supplementary budget نہیں ہے introduce ہی supplementary budget ہورہا ہے، اس کو نام ہی supplementary budget دے رہے ہیں، فائنانس بل کا نام دے رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں یہ supplementary budget نہیں ہے، پی ٹی آئی ہمیں صرف یہ بتادے کہ ملک کو کس چیز کی ضرورت ہے، سرمایہ کاری ، گروتھ یا بچت بڑھنی چاہئے تو کون اس سے اتفاق نہیں کرے گا، یہ خود کہتے ہیں کہ انقلابی اقدامات تھے تو یہ انقلابی اقدامات 2018ء میں کیوں نہیں لیے گئے، اگر آپ کہہ رہے ہیں کہ ان انقلابی اقدامات سے معیشت کا پہیہ بہت تیز ہوگا تو یہ اقدامات آپ کو بہت پہلے اٹھالینے چاہئے تھے، اس میں مجھے کوئی ایسی چیز نظر نہیں آئی جو ہماری معیشت کی اس وقت جو صورتحال ہے ماسوا چھوٹے اقدامات کے جیسے اسٹاک مارکیٹ کو تھوڑا سا فائدہ ضرور ہوگا لیکن اگر آپ کہہ رہے ہیں کہ معاشی سرگرمیوں کی رفتار تیز ہوگی۔ محمد زبیرنےکہا کہ ابھی ہم نے پورا بجٹ ڈاکیومنٹ نہیں دیکھا ہے کہ ایڈیشنل ٹیکس اس میں کتنا آرہا ہے اور اس کے رزلٹ میں مالی خسارہ بڑھے گا یا کم ہوگا، اگر مالی خسارہ بڑھے گا اگر آپ نے exemptions دی ہیں اور اس کے بدلے اضافی ٹیکسز نہیں لگائے تو مالی خسارہ بڑھے گا اور اس سے مہنگائی بڑھے گی۔ اسد عمر کی تقریر کا پچاس فیصد حصہ تو سیاست تھا، فائنانس منسٹر تو کبھی بھی سیاست نہیں کرتا تھا، پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہے کہ فائنانس منسٹر اٹھ کر پالیٹکس زیادہ کررہے تھے جو ان کا حق ہے۔ماہر معیشت محمد سہیل نے کہاکہ بظاہر جو تقریر سنی اس سے مجھے لگ رہا ہے کہ انہوں نے قبول کرلیا ہے کہ بزنس انوائرمنٹ بہت منفی ہوا ہوا ہے، سرمایہ کاروں کا اعتماد بکھرا ہوا ہے تو کچھ سیکٹر میں اس کو بحال کرنے کی کوشش ضرور کی ہے چاہے وہ آٹو موبل کا سیکٹر ہو، اسٹاک مارکیٹ ہو، بینکنگ سیکٹر ہو، اوورآل جہاں تک میں نے سنا ہے سپرٹیکس بھی نان بینکس کمپنی یعنی سیکڑوں کمپنیاں ہوں گی جو پچاس کروڑ سے زیادہ کماتی ہیں اس میں ٹیکس ریٹ کی چھوٹ دیتی ہے، اس سے تو بظاہر لگ رہا ہے کہ ان کو چار مہینے میں realization ہوگیا ہے کہ معیشت سلوڈاؤن بھی ہے، بزنس سلوڈاؤن بھی ہے، بظاہر یہ تقریر دیکھ کر لگ رہا ہے کہ اس کو بہتر کیا جائے، آپ اس کو پالیسی چینج کہیں،فائنانس بل میں ترمیم کہیں، منی بجٹ کہیں، جو بھی کہیں یہ کسی ملک کیلئے اچھی روایت نہیں ہے کہ ہر دوتین مہینے بعد ایک ایس آر او آرہا ہے یا ایک بجٹ آرہا ہے، ایک ویژن ، پالیسی، ڈائریکشن ہونی چاہئے جو بدقسمتی سے ابھی کمزور لگ رہی ہے جس میں سب سے بڑی مثال آپ فائلر نان فائلر کی دیکھ لیں،چار مہینے پہلے جو گاڑی نان فائلر لے سکتا تھا اس کو reverse کیا گیا اب واپس اس کو allow کردیا گیا، میرے خیال میں انڈسٹری، بزنس، اسٹاک مارکیٹ کیلئے یہ اچھے اقدامات ہیں مگر اس حکومت کی ڈائریکشن ابھی تک واضح نہیں کہ وہ کیا کرنا چاہتی ہے، بالخصوص فائلر کو سپورٹ کرنا چاہ رہی ہے یا نان فائلر کو ، یہ کنفیوژن اس حکومت کو ختم کرنا پڑے گا۔