ماضی میں ہرساس کی خواہش ہوتی تھی کہ ان کی بہو گھریلو کام کاج پر زور دے لیکن بدلتے دور اور نت نئی ٹیکنالوجیز نے جہاں عوام کی زندگی آسان کی ہے، وہیں ساسوں کے رویے اور سوچ میں بھی تبدیلی آئی ہے۔ آج کی ساس اپنی بہو پر نکتہ چینی کرنے کے بجائے اسے سپورٹ کرتی نظر آتی ہے اور ہر معاملے میں اس کا ساتھ دینے کی بھرپور کوشش کرتی ہے۔ شاپنگ کے لیےجائیںیا پارلر، معاشرے میں ایک مثبت تبدیلی آئی ہے کہ ساس اور بہو ہر جگہ ایک ساتھ ہوتی ہیں اور وہ بھی خوش باش یعنی ایک سیٹ پربہو تو دوسری سیٹ پر ساس بیٹھی نظر آتی ہے۔ بدلتے وقت نے ساس بہو جیسے رشتے کو بھی تبدیل کردیا ہے۔ آج کی ساس پہلے کی نسبت پڑھی لکھی اور سمجھدار ہے، وہ بہتر طریقے سے زندگی گزارنے کے ہر گُر سے واقف ہے۔ آج کی سلجھی ہوئی ساس اس بات پر جلتی کڑھتی نہیں کہ بہو بیٹے کے کتنے پیسے خرچ کروارہی ہے یا گھر کو وقت نہیں دے رہی وغیرہ وغیرہ۔
ماضی کی بات کی جائے تو پہلے کی ساسیں بہوؤں کے لیے گھریلو اور سیدھی سادی ہونے کی ڈیمانڈ رکھتی تھیں لیکن آج کی ساس کی پہلی خواہش یہ ہوتی ہے کہ بہوپڑھی لکھی ہونے کے ساتھ ساتھ بیٹے کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلے۔ اب یہ بات یقین سے کہی جاسکتا ہے کہ ساسوں کے رویے اور نظریے میں تبدیلی آگئی ہے۔ اگر بہو ورکنگ وومن ہے تو ساس کو بچوں کی ذمہ داری اٹھانے میں کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہوتا۔ مسز ظل ہما جو کہ ایک ورکنگ وومن ہیں ،وہ اپنی ساس کی تعریف کرتے ہوئے کہتی ہیں، ’’ساس کی موجودگی میری زندگی میں بے حد اہمیت کی حامل ہے، وہ نہ صرف ایک پڑھی لکھی خاتون ہیں بلکہ باشعور اورمحبت کرنے والا دل بھی رکھتی ہیں۔ میں آفس میں ہوں تو بچوں کے لیے ایک ماں کا فرض بخوبی نبھاتی ہیں جبکہ کام والی ماسی آجائے تو ایک بہترین نگران بن جاتی ہیں‘‘۔
گزرے وقتوں میں بیٹے ماں کے سامنے بیوی کے کھانے اور بیوی کے سامنے ماں کے کھانوں کی تعریف کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے تھے مگر اب تو تعریف نہ کرنے پر ساس بیٹے کو خود کہتی ہیں کہ ’’کبھی بیگم کے بنائے کھانے کی تعریف بھی کردیا کرو‘‘۔ دوسری جانب بہو بھی ہمیشہ تذبذب کا شکار رہتی تھی کہ نہ جانے سسرال والوں کو اس کی کون سی بات بُری لگ جائے لیکن آج ایسے کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہوتا۔ آج کی ماڈرن ساسیں اپنی بہو اور بیٹے کو ہنستا دیکھ کر ناراض ہونے کے بجائے یہ کہتی نظر آتی ہیں کہ ’یہی تو عمر ہے ان کے ہنسنے بولنے کی‘۔ ساسوں کے رویے نے بہو ؤںمیں بھی ایک خاص تبدیلی پیدا کردی ہے، اگر بیوی کے سامنے ماں کے کھانوں یا پسند کی تعریف کی جائے تو بیوی جلنے کڑھنے کے بجائے فخریہ شوہر کی ہاں میں ہاں ملانے لگتی ہے۔ آج کی ساس نہ بہو سےخوفزدہ نظر آتی ہے نہ بہو سا س سے بلکہ ان کے درمیان ایک عزت و احترام کا رشتہ قائم ہے۔
فیشن کی بات کی جائےتو آج کی ساسیں بہو ؤں سے دو قدم آگے دکھائی دیتی ہیں۔ معروف برانڈز کے ڈریسز صرف بہوؤں ہی نہیں ساسوں کا بھی نتخاب بنتے ہیں۔ آج کی ساس ہلکے رنگ کے ملبوسات ،سادہ سی چوٹی اور سفید بالوں کے بجائے برانڈڈ ملبوسات میں مناسب کٹنگ اور ڈائی کیے ہوئے بالوں کے ساتھ ایک باذوق اور وضعدار خاتون نظر آتی ہے۔ شادی بیاہ کی کوئی تقریب ہو تو یہ پہچاننا مشکل ہوجاتا ہے کہ ساس کون ہے۔ اگر بیٹے کی بارات کی بات کی جائے تو جہاں گھر کی لڑکیاں پارلر کا رُخ کرتی ہیں، وہیں ساس بھی بناؤ سنگھار کیلئے پارلر جاتی ہیں۔ اسکے علاوہ دلہن کیلئے جس رنگ اور ایمبرائیڈری کا انتخاب کیاجائے، وہی رنگ ساس کے ملبوسات کا بھی ہوتا ہے تاکہ نہ صرف میچنگ ہو بلکہ مہمان بھی آسانی سے ساس کو پہچان جائیں۔
ماہرِ سماجیات اس بارے میں رائے دیتے ہیں، ”پہلےکی ساسیں یہ برداشت نہیں کرتی تھیں کہ بیٹا جب کمانے کے قابل ہو جائے تو اسے مکمل طور پر بیوی کے حوالے کر دیا جائے مگر اب اس رجحان میں تبدیلی آئی ہے۔ اس کے علاوہ ساسیں گہرے رنگ کے ملبوسات پہننے سے اجتناب کرتی تھیں اور شاپنگ کو پیسے کی بربادی کہتی تھیں لیکن اب ماڈرن ساسیں اپنی زندگی بھر پور طریقے سے گزارنے کی قائل ہیں اور اپنی زندگی میں کسی کی مداخلت بھی برداشت نہیں کرتیں“۔ ماضی میں بہوئیں سسرال والوں خاص طور پر ساس سسر کے سامنے زیادہ بات کرنے سے بھی کتراتی تھیںلیکن آج کی بہوئیں شادی کے کچھ ہی عرصے میں بیٹیوں کی طرح خوش وخرم زندگی گزارتی نظر آتی ہیں ۔
یہ تبدیلی نہ صرف منفرد ہے بلکہ خوبصورت بھی، جس نے ہر لڑکی کے ذہن سےشادی کے نام کے ساتھ لگی پابندیوں اور لڑائی جھگڑوں کا خوف قدرے کم کردیا ہے۔ اس منفرد تبدیلی کےذریعے اس احساس کو تقویت حاصل ہوئی ہے کہ اگر سوچ بدل لی جائے تو کوئی بھی لڑائی، صلح کا رُخ اختیار کرسکتی ہے ۔ اگر یہی تبدیلی ہر ساس میں آجائے تو یہ تاثر ختم ہوجائے گا کہ ساس کبھی ماں کی طرح نہیں ہوسکتی۔ ساتھ ہی بہوؤں کو بھی اپنے رویوں میں تبدیلی لاکر انھیں بیٹی بننا چاہیے۔