• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دن ڈھل رہا تھا اور ہم چار پانچ احباب ایک اسکول کے قریب کھڑے تھے۔اسکول اگرچہ بند ہو چکا تھا مگر بچے وہیں کھیل کود رہے تھے۔دن کا اجالا ہوتا تو ہم اسکول کو اندر جاکر دیکھتے۔ ابھی ہم یہی سوچ رہے تھے کہ قریب ہی کھیلنے والا ایک کمسن لڑکا ہمارے ایک ساتھی سے بولا:what is your name? صحرا کی خاک میں کھیلنے والے بچے کے اس سوال پر نہ صرف ہمارا ساتھی بلکہ ہم سب حیران ہو ہی رہے تھے کہ بچے نے انگریزی میں اگلا سوال کردیا جس کا مطلب تھا کہ آپ کے والد کیا کرتے ہیں؟۔اب گفتگو آگے چلی اور بچے نے انگریزی ہی میں کہا کہ میرے والد مزدوری کرتے ہیں۔ اس سے انگریزی ہی میں پوچھا گیا کہ کہاں کام کرتے ہیں۔اس نے جھٹ ادارے کا نام بتا دیا۔اگلی صبح ہم اسی اسکول کو اور اس میں لگی جماعتوں کو دیکھنے گئے۔ہم نے کسی سے پوچھا کہ یہاں یہ اسکول کیسے کھلا۔ہمیں بتایا گیا کہ علاقے میں کوئلے کا بہت ہی بڑا ذخیرہ دریافت ہوا اور اس کی کھدائی شروع ہوئی تو کئی بستیاں اس کی زد میں آئیں۔ ان میں آباد لوگوں کو قریب کے دوسرے علاقوں میں بہتر گھر دے کر بسا دیا گیا۔ کھودی جانے والی کان سے پانی نکلتا رہے گا۔ وہ پانی جمع کرکے ایک نشیبی علاقے میں ڈالا جارہا ہے جہاں جھیل بن گئی ہے۔کچھ لوگ اس جھیل کے بننے سے بے گھر ہوئے۔ ان سے پوچھا گیا کہ بتایئے آپ کے لئے کیا کیا جائے۔ انہوں نے کہا: بس ہمارے بچوں کے لئے اسکول بنا دیجئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہاں اونچی چاردیواری کے اندر بڑے اسکول کے کلاس روم بن گئے اور چند ہی دنوں میں اسکول چھوٹے بڑے بچوں سے بھر گیا۔ ہم اندر گئے تو ایک کلاس روم میںد یکھا ایک خاتون پڑھا رہی تھیں۔ صاف نظر آتا تھا کہ وہ کہیں دور کسی شہر سے آئی ہیں۔بلیک بورڈ پر دنوں اورمہینوں کے نام لکھے تھے جو بچوں نے فرفر پڑھ کر سنا دیئے۔ہم حیران تھے کہ جو بچے باہر گلی میں ہم سے انگریزی بول رہے تھے انہیں یہ بول چال کون سکھا رہا ہے۔ تب پتہ چلا کہ جو خاتون انہیں پڑھا رہی تھیں وہ تعلیم کی ماہر ہیں اور امریکہ میں رہتی ہیں، انہوں نے اپنے وطن آکر دور دراز علاقوں کے بچوں کو پڑھانے کی ٹھانی اور اس کے لئے انہوں نے تھرپارکرکے اس گاؤں کا انتخاب کیا۔ وہ یہیں رہتی ہیں، ان بچوں سے پیار کرتی ہیں۔ بچے بھی انہیں چاہتے ہیں۔انہوں نے ہمیں چائے پلانا چاہی لیکن ہم نے پانی کی فرمائش کی۔ سنا تھا تھرپارکر میں ناقص پانی ملتاہے۔ انہوں نے نہایت صاف اور لذیذ میٹھا پانی پلایا۔ ہم نے پوچھا کہ یہ کہاں سے آیا۔ انہوں نے بتایا کہ قریب ہی علاقے کے کھارےپانی کو میٹھا کرنے کا پلانٹ لگا ہے۔

تھر پارکر میں اسلام کوٹ کے جس علاقے کو میں دیکھ رہا تھا اس میں دریا وریا تو ہیں نہیں، زمین کے نیچے سے پانی نکلتا ہے، وہ بھی کھارا اور آلائشوں سے بھرا ہوا۔چھ چھ عورتیں ڈول کی رسّی کھینچتی ہوئی بہت دور تک جاتی ہیں تب ڈول اوپر آتا ہے، وہ بھی بدذائقہ پانی لے کر۔اُس علاقے میں اسی پانی کو میٹھا بنانے والے دس پلانٹ لگے ہیں۔ میں پہلے ایک کا قصہ سنا دوں، نو کی بات بعد میں۔ ایک عمارت دیکھی جو چھوٹا سا بجلی گھر لگی۔ اندر ویسا ہی پلانٹ لگا ہوا تھا جس کا کمال یہ تھا کہ ایک طرف سے کھاراپانی داخل ہوکر مختلف مرحلوں سے گزر کر میٹھا بن کر نکل رہا تھا۔ میں نے پوچھا اس کو چلانے والا انجینئر کہا ں ہے۔ اس پر تھر کا ایک مقامی باشندہ سامنے آیا جسے کوئلے کی کان نکالنے والے ادارے نے ملازم رکھا تھا۔ارے صاحب، اس نے پورے پلانٹ کو ایک طرف سے شروع کرکے آخر تک اس سہولت سے سمجھایا کہ پانی کہاں کہاں سے گزرکر کس طرح چھنتا جاتا ہے اور آخر میں میٹھا بن کر نکلتا ہے۔ میں نے حیران ہوکر پوچھا کہ آپ نے یہ سارا علم کہاں حاصل کیا۔ کہنے لگا کہ ہمیں دو دن تک تربیت دی گئی تھی۔ ہم پورے پلانٹ کو جان گئے۔ میں نے کہا اور کیا کیا جانا آپ نے۔ اس نے دل چسپ بات بتائی۔ اس نے کہا کہ پانی سے ساری کثافت نکال لی جاتی ہے اس کے ساتھ پانی کے قدرتی نمکیات بھی نکل جاتے ہیں۔ اس نے نمک سے بھری تھیلی نکالی اور بتایا کہ ہم پانی میں نمک شامل کر کے باہر ٹینک میں ڈالتے ہیں جہاں سے علاقے کے لوگ یہ پانی بھر بھر کر لے جاتے ہیں۔ اب اس پانی کو چکھنے کا مرحلہ تھا۔ میرے ساتھ جو احباب تھے وہ ذرا پیچھے ہٹے تو میں نے کہا کہ میں تو پی کر دیکھوں گا۔ ایک گلاس بھر کر لایا گیا۔ میں نے پیا۔ بازار میں ملنے والی دو سو روپے کی بوتل کے پانی سے بہتر، میٹھا اور لذیذ تھا۔

اس کا ثبوت یہ ہے کہ یہ تحریر میں ہی لکھ رہا ہوں۔اب رہ گئے پانی میٹھا بنانے والے نو باقی پلانٹ۔ تو عرض ہے کہ وہ سارے سرکار کے تھے، بے کار تھے، بند پڑے تھے اور ان کو چلانے والا عملہ تالا ڈال کر جا چکا تھا۔ دل چسپ بات یہ ہےکہ علاقے میں کھارے پانی کی کمی نہیں۔ انتظامیہ ایسے پودے اگانے کی کوشش میں لگی ہے جو کھارے پانی پر جی سکتے ہیں۔ اور ساتھ ہی علاقے میں اپنے جانے پہچانے پودے اور درخت لگانے کی بھی ٹھان لی گئی ہے کیونکہ تھر کی زمین میں کبھی کچھ اگایا ہی نہیں گیا، اس میں ساری غذائیت محفوظ ہے۔ اتنی کہ اگر کبھی اس علاقے پر پانی برس جائے تو اسی زمین سے ہریالی پھوٹ پڑتی ہے۔ لوگ یہ منظر دیکھنے کے لئے دور دور سے آتے ہیں۔ چنانچہ علاقے میں ایک مہم شروع کی گئی ہے۔ مقامی آبادی کی مدد سے دس لاکھ پودے لگائے جارہے ہیں۔ ایک بڑی نرسر ی قائم کردی گئی ہے جہاں سے آپ جتنے پودے چاہیں لے سکتے ہیں اور وہ بھی بلا قیمت۔ بس چلتے وقت وعدہ کرنا ہوتا ہے کہ آپ ان پودوں کو پیار سے پالیں گے، اپنے بچوں کی طرح۔

پودے کہیں کے بھی ہوں،پیار مانگتے ہیں۔ یہ سوچ کر میں بھی وعدہ کر آیاہوں۔

تازہ ترین