• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ نے ایک لفظ غم ضرور سنا ہوگا۔ یہ لفظ نتھی ہوکر مختلف کیفیتوں کو محاورے میں بدل دیتا ہے جیسے غمِ آگہی! یعنی کچھ جاننے، سمجھنے اور معلوم کرنے کا دکھ۔ اسی لئے اگلے وقتوں کے سیانے فرماتے تھے۔ بے خبر رہنا اچھا ہوتا ہے۔ انگریز بھی یہی کہتا ہے Ignorance is bliss اس لئے آپ بھی میری طرح بے خبر رہئے۔ آپ خوش رہیں گے اور خرم مل جانے کے بعد آپ خوش و خرم رہیں گے۔ غمِ آگہی سے آپ کی جان چھوٹ جائے گی۔ اسی طرح ایک محاورہ ہے غم حیات…! مطلب یہ کہ جب تک ہم زندہ ہوتے ہیں، تب تک ہم زندگی بھر دال چاول، روزی روٹی، گھربار، بال بچوں کی ذمہ داریوں کے حوالے سے حالات کی چکی میں پستے رہتے ہیں۔ ہمارا کچومر نکل جاتا ہے۔ اس بپتا کو کہتے ہیں غمِ حیات! ایک محاورہ سب محاوروں پہ بھاری ہے، وہ محاورہ ہے غمِ عشق…! اگر آپ ٹیلیوژن ڈراموں کے رسیا ہیں تو پھر آپ کو غمِ عشق کا مطلب سمجھنے میں دیر نہیں لگے گی۔ ہم سب زندگی میں محبت کرتے ہیں، ہم دھرتی سے محبت کرتے ہیں، والدین سے محبت کرتے ہیں، بچوں سے محبت کرتے ہیں، املاک سے محبت کرتے ہیں، کرسی سے محبت کرتے ہیں مگر اس نوعیت کے عشق، غم عشق کے زمرے میں نہیں آتے۔ غمِ عشق صرف ٹیلیوژن ڈراموں میں دکھائی دیتا ہے۔ سب ڈراموں کا موضوع یکساں ہوتا ہے۔ لڑکے، لڑکی کی شادی، دونوں ایک دوسرے کو چاہتے ہیں۔ ڈرامہ سیریل کی پچاس قسطیں ہمیں اس چکر میں دکھائی جاتی ہیں کہ لڑکے، لڑکی کی شادی کیسے ہو؟ پا سکے گا حمید اپنی حمیدہ کو؟ ڈرامہ نویس نے اسکرپٹ میں اگر دونوں کی کلائمکس میں شادی کرا دی تو پھر ٹھیک ہے۔ اگر کسی وجہ سے وہ دونوں شادی کرنے سے محروم رہ جائیں تو پھر دونوں، لڑکا اور لڑکی غمِ عشق کی تصویر بن جاتے ہیں۔ اس نوعیت کے غموں سے پچاسیوں ٹیلیوژن چینلز نے ہمیں خوب آگاہ کیا ہے۔ آپ اس کو غمِ آگاہی بھی کہہ سکتے ہیں۔ ایسے تمام غموں سے آپ آشنا ہیں۔ آج میں آپ کو ایک نئے غم سے متعلق آگاہی دینا چاہتا ہوں۔ اس آگاہی کو بھی آپ غم آگاہی کہہ سکتے ہیں۔ غم کے حوالے سے نئے محاورہ کو کہتے ہیں غمِ بیزاری۔ یہ غم بیزار لوگوں کو لاحق ہوتا ہے، ان کی نیندیں اڑا دیتا ہے۔ میرا دوست بیزار بھی رات بھر سو نہیں سکتا اس لئے وہ سہانے سپنے دیکھ نہیں سکتا۔

بیزار میرا ہم عمر ہے، میرا ساتھی ہے، میرا ہم نفس ہے۔ ہم سب اسے بیزار اس لئے نہیں کہتے کہ وہ شاعر ہے اور بیزار اس کا تخلص ہے۔ وہ بیچارا بہت بیزار ہوچکا ہے۔ دیندار ہے ورنہ کب کا خودکشی کرچکا ہوتا۔ آج میں آپ کو بیزار کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں یعنی میں آپ کو بیزار کے بارے میں آگاہی دینا چاہتا ہوں۔ آپ اس کو غمِ آگاہی کہہ سکتے ہیں۔ بیزار اپنی بیزاری کا اظہار شعر و شاعری میں کرتا ہے مثلاً پاکستان کے حالات یکساں رہتے ہیں۔ بیزار اس بات کا اظہار کچھ اس طرح کرتا ہے۔ کب تک گزرتا رہے گا پاکستان نازک ترین دور سے، کب بدلیں گے حالات…؟ جب چلا نہیں سکتے ملک ،تو پھر کیوں مانگا تھا مسلمانان ہند کیلئے ایک الگ وطن؟ کیوں خریدتے ہو موٹرسائیکل، جب موٹرسائیکل چلا نہیں سکتے؟ کیوں دکھاتے ہو ہمیں ایسے سہانے خواب جن کی کوئی تعبیر نہیں ہوتی؟ کاش ہمارے پاس گھوڑے ہوتے اور ہم گھوڑے بیچ کر ہمیشہ کیلئے سو جاتے پھر کبھی نہ جاگتے۔

غمِ بیزاری سے نڈھال ہوکر بیزار پوچھتا ہے۔ بدلے گا کچھ آنے والے بہتر برسوں میں؟ یا پھر ہمیشہ کی طرح رت جگی آنکھوں میں الم ہوں گے اور چھالے پڑے ہاتھوں میں علم ہوں گے؟ کیا حمید بیچارا ہاتھ میں کشکول لے کر مانگتا پھرے گا بھیک اپنی حمیدہ کیلئے؟ ان داتائوں سے مانگتا پھرے گا امداد؟ کب تک، کب تک ہوتا رہے گا اس طرح…؟

بیزاری کی کیفیت میں بیزار کہتا ہے۔ دیکھا تھا ہم سب نے ضمیر کو بہتر برس پہلے ہوتا تھا صحت مند وہ…! لگتا تھا باضمیر… پھر کیا ہوا ضمیر کو؟ کیا ٹھیس پہنچائی تھی ضمیر کو اس کی دوست اُمید نے؟ کیا اُمید بہت چاہتی تھی ضمیر کو؟ ضمیر کو کبھی نہ چھوڑنے کی قسم کھائی تھی امید نے… پھر کیا ہوا کہ اُمید نے ساتھ چھوڑ دیا ضمیر کا؟

میں جانتا ہوں کہ ضمیر ایک لمبے عرصے سے کوما میں ہے۔ ضمیر زندہ تو ہے مگر کسی مُردے کی مانند… وہ نہ دیکھ سکتا ہے، نہ سن سکتا ہے اور نہ بول سکتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ ضمیر ہوش میں تب آئے گا جب اُمید لوٹ آئے گی۔ بیزار اس بپتا کو کچھ اس طرح بیان کرتا ہے۔

کیا کبھی لوٹ آئے گی امید کوما میں پڑے ہوئے ضمیر کے پاس؟ کیا لے آئے گی اُمید اپنے ضمیر کو ہوش میں؟ کیا اُمید اور ضمیر مل کر توڑ سکیں گے کشکول؟ کیا اس کام میں حمید اور حمیدہ ساتھ دیں گے ضمیر اور امید کا؟ کیا پتا چلا سکیں گے حمید اور حمیدہ کہ وہ ضمیر اور اُمید کے بغیر کشکول توڑ نہیں سکتے؟ یا پھر حمید اور حمیدہ امداد میں ملے ہوئے پیسے اور کشکول میں پڑنے والے پیسے لے کر دبئی بھاگ جائیں گے اور آف شور کمپنی چلائیں گے؟

غم بیزاری میں مبتلا بیزار پوچھتا پھرتا ہے۔ کیا وزیراعظم عمران خان جگا سکے گا کوما کی نیند میں سوئے ہوئے ضمیر کو اور ملا سکے گا اس کو اپنی پیاری اُمید سے…؟

کراچی کو اس کا شاندار ماضی لوٹانے کی بات سن کر غم بیزاری میں مبتلا بیزار نے پوچھا۔ واپس لا سکیں گے کراچی کو دلفریب بنانے والے پارسی، کرسچن اور ہندوئوں کو؟ لگا سکیں گے کراچی کے فٹ پاتھوں پر نیم، برگد، پیپل اور بادام کے درخت؟ خالی کرا سکیں گے ہندو جمخانہ کا کرکٹ گرائونڈ جس پر پولیس والوں کے بدنما فلیٹ بنے ہوئے ہیں؟ اور کیا چلا سکیں گے پھر سے کراچی کی سڑکوں پر ٹرام…؟

تازہ ترین