• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر…مولانا محمد حنیف جالندھری
ناظم اعلیٰ وفاق المدارس العربیہ پاکستان
ساہیوال کادلخراش سانحہ اپنی نوعیت کا ایک ایسا سانحہ ہے جس نے ہر درد دل رکھنے والے انسان کو دکھی کردیاہے …ایسا سانحہ جس کا خیال آتے ہی آنکھیں نم ہوجاتی ہیں …ایسا سانحہ جس میں زندہ بچ جانے والی بچیوں اور بچوں کی تصاویر دیکھ کر اپنے بچوں کی صورتیں نظروں کے سامنے گردش کرنے لگتی ہیں …ایسا سانحہ جس نے دنیابھر میں پاکستان کو تماشا بنا کر رکھ دیا …سنگدلی کی ایسی واردات جس پر انسان شرم سے پانی پانی ہو جاتاہے …نہ درد وغم کے اظہار کے الفاظ ملتے ہیں …نہ تسلی کے کلمات سمجھ آتےہیں …کئی دنوں سے اس سانحہ پر کچھ لکھنے کا سوچ رہا ہوں لیکن جب قلم کاغذ میں لیتا ہوں تو ہمت جواب دے جاتی ہے۔
ستم بالائےستم یہ کہ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ۔اس واقعہ کی چونکہ ویڈیوز بن گئیں… اس واقعہ میں بچے اور فیملی ساتھ تھی اور خوش قسمتی سے وہ بچے زندہ بچ گئے اس لیے اس واقعہ نے سب کی توجہ حاصل کرلی ورنہ ہزاروں ایسے لوگ ہیں جنہیں جعلی مقابلوں کے نام پر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ،کتنے ایسے گھرانے ہیں
جن کے چراٖغ گل کردیے گئے لیکن نہ کوئی صدائے احتجاج بلند ہوئی نہ کوئی تحقیق وتفتیش ہوئی …خون خاک نشیاں تھا رزق خاک ہوا
اس میں دورائے نہیں کہ اگرکوئی شخص کسی بھی قسم کی منفی سرگرمیوں میں ملوث ہے،دہشت گردانہ کارروائیوں کا حصہ ہے ،کسی ملک دشمن نیٹ ورک سے تعلق رکھتاہے تو اسے سزاملنی چاہیے کڑی سزا ملنی چاہیے لیکن کسی ثبوت کے بغیر ،کسی قسم کی عدالتی کارروائی کے بغیر ،جرم ثابت کیے بنا جعلی پولیس مقابلے کرکے لوگوں کو مار ڈالنا ،مہینوں مہینوں لاپتہ رکھناایسا جرم ہے کہ جس کا تصورکرکے ہی انسانیت سر پٹ کر رہ جاتی ہے …بدقسمتی سے یہ اندھیرنگری عرصے سے جاری ہے… ساہیوال کے سانحہ کے بعد قومی سلامتی کے اداروں اور زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والوں کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ یہ اندھیر نگری اب ہر قیمت پر ختم ہونی چاہیے …ظلم وجبر کا یہ انداز کسی طورپر ملک وملت کے حق میں نہیں …یہ ملکی سلامتی کی ضمانت نہیں بلکہ ملک کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی سازش ہے۔…یہ اندازملک کے بہتر اور محفوظ مستقبل کا عنوان نہیں بلکہ لوگوں کو بغاوت اور سرکشی پر اکسانے کا سبب ہے… سی ٹی ڈی ہویا قومی سلامتی کے دیگر ادارے… ان اداروں اور عوام کے درمیان عدم اعتماد ،دوریوں کی خلیج اور نفرتوں کی دیواروں کا کھڑا ہونا بہت بڑا المیہ ہے جس کے بطن سے کئی کئی سانحات جنم لیتے ہیں جن میں سے بہت سے ہم بھگت چکے اور مزید ایسے کسی سانحے کے متحمل نہیں ۔
بقول شاعر
محبت گولیوںسے بو رہے ہو
وطن کا چہرہ خوں سے دھو رہے ہو
گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
یقین مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو
اس لیےجس قدر جلدی ہوسکے اداروں پر عوام الناس کا اعتماد بحال کرنے کی ضرورت ہے او رلوگوں میں اس وقت عدم تحفظ اور خاص طورپر اداروں کے بارے میں شکوک وشبہات اور گلے شکووں کی جو فضا پیدا ہوگئی ہے اسے ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
ہم مذہبی لوگ،مساجد ومدارس سے تعلق رکھنے والے اورداڑھی پگڑی والے عرصے سے ساہیوال جیسے سانحات کا شکار ہورہے ہیں اور کوئی ہفتہ ایسا نہیں گزرتا جب ملک کے مختلف علاقوں سے ہمیں ایسی اطلاعات اور شکایا ت موصول نہ ہوتی ہوں۔ ساہیوال جیسے سانحات کا شکار ہونے والوں کو جن کا سامنا کرناپڑتا ہے …کسی کا بچہ لاپتہ ہوگیا …کسی کے عزیز کو جعلی مقابلے میں مار دیا گیا …کسی کو گمنام نمبر سے کال آئی او راپنے فلاں عزیز کی گولیوں سے چھلنی نعش وصول کرنے کا کہہ دیا گیا …جو مار دیے جاتے ہیں وہ تو چلو غمِ زندگی سے ہی نجات پاتے ہیں لیکن یہاں المیہ یہ ہے کہ سی ٹی ڈی طرز کے اداروں میں تعینات ہونے والے اہلکار بعض اوقات رشوت کے لیے …گاہے مسلکی او رفرقہ وارانہ اختلاف کی بنیادپر اور کبھی کسی اور وجہ سے لوگوں کا جینا دوبھر کردیتے ہیں… ان کے نام فورتھ شیڈیول میں ڈال دیتے ہیں… ابھی حال ہی میں ہمارے اسلام آباد میں مقیم ایک دوست جو ملک وملت کی خدمت میں پیش پیش رہتے ہیں محض باریش ہونے کے جرم میں جائیداد وزمین کے تنازع اور مالی لین دین کی بنیاد پر ان کا نام فورتھ شیڈیول میں ڈال دیا گیا ۔اسی طرح کتنے مدارس ایسے ہیں جن پر محض اس لیے چھاپے مارے جاتے ہیں کہ اہل علاقہ کی نظروں میں انہیں مشکوک ثابت کیا جائے،ان پر لوگوں کا جو اعتماد ہے اسے مجروح کیا جائے،کئی شخصیات کے خلاف محض اس لیےپرچے درج کیے جاتےہیں اور دیگر انتقامی کارروائیاں کی جاتی ہیں تاکہ ان کی ساکھ کو نقصان پہنچایا جاسکے …یہ ایک ایسا معاملہ ہے اور ایسا مسئلہ ہے جس کا ہر پہلوافسوسناک …جس کی ہر داستان دلخراش …جس سے جڑی ہرواردات قابل مذمت ہے ۔
سانحہ ساہیوال کےبعد جو چیز سب سے زیادہ درد والم اور دکھ درد کا باعث بنی وہ حکومتی طرز عمل ہے ۔ایک طرف بعض وزیر جھوٹی پریس کانفرنسیں کررہے ہیں … مضحکہ خیز الزامات لگا رہے ہیں …مقتولین کا داعش اور دہشت گردی سے تعلق جوڑ نے کی کوشش کررہے ہیں اور دوسری طرف متاثرین کو امدادی رقوم دی جارہی ہیں…ان بچوں کو جن کے سامنے ان کے ماں باپ کو گولیوں سے چھلنی کر دیاگیا ان کو پھولوں کے گلدستے پیش کرکے ان کے زخموںپر نمک پاشی کی جارہی ہے… ہر وزیر کا بیان دوسرےسے جدا ہے… سی ٹی ڈی والے سارا ملبہ ایجنسی پر ڈال کر اپنی جان چھڑاناچاہتے ہیں …صدر اور وزیر اعظم اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنےکے بجائے روایتی رد عمل دینےسے کام لے رہے ہیں اور محض صدمے کااظہار کرکے جان چھڑانا چاہتے ہیں …
ساہیوال کےسانحہ نے یہ بات ثابت کردی ہے کہ اگر اس معاملے کو اب بھی سنجیدگی سے نہ لیاگیا …عدل وانصاف اور قانون کی بالا دستی کو یقینی نہ بنایا گیا… آئے روز عوام الناس اور اداروں کے درمیان بڑھتی ہوئی دوریوں کو کم کرنے کی کوشش نہ کی گئی …جزا وسزا کا متوازن نظام نہ تشکیل دیا گیا … کسی بھی قسم کی وردی والوں اور کسی بھی عہدے پر فائز لوگوں کے ا حتساب کا کوئی پیمانہ نہ بنا تو ہم ہر گزرتے دن کے ساتھ جن شدید خطرات سے دوچار ہوجائیں گے ہم ان کا تصور تک نہیں کرسکتے …اس لیے آج ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ،دیگر اہم اور حساس سیکورٹی ادارے ،پولیس ،سی ٹی ڈی ،اپوزیشن ،مذہبی جماعتیں اور زندگی کے تمام شعبوں کے وابستگان کوئی ایسا ضابطہ اخلاق تشکیل دیں جس کے ذریعے ملکی سلامتی کا تحفظ بھی یقینی بنایا جاسکے… دہشت گردی کا قلع قمع بھی کیا جاسکے …جرائم پیشہ عناصر کو بھی کوئی رعایت نہ ملے…کسی کوبیرونی قوتوں کا آلہ کار بننے کی چھوٹ نہ ملے… لیکن اس کے ساتھ ساتھ بے گناہ لوگوں کی زندگیاں، عزتیں اور ساکھ بھی کسی خطرے سے دوچار نہ ہو اور خوف وہراس ،عدم تحفظ اور عدم اعتماد کی جو فضاہے یہ بھی اعتماد،یکجہتی اور سکون میں تبدیل کی جاسکے۔
تازہ ترین