• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’ویانا‘ آسٹریا کا دار الحکومت ہے، جو ملک کی9ریاستوں میں سے ایک ہے۔ ویانا وسط یورپ کے جنوب مشرقی گوشے میں دریائے ڈینیوب کے کنارے واقع ہے، جو جمہوریہ چیک ، سلوواکیا اور ہنگری کے قریب ہے۔ یہ آسٹریا کا سب سے بڑا شہر ہے،2018ء میں اس کی آبادی تقریباََ 19 لاکھ تھی ۔ اس کے علاوہ یہ آسٹریا کا ثقافتی، اقتصادی اور سیاسی مرکز بھی ہے۔ شہر کی بنیادیں500قبل مسیح میں پڑیں جبکہ15قبل مسیح میں شہر رومی سلطنت کا حصہ بنا۔ یہ شمال کے جرمن قبیلوں کی جارحیت کے خلاف اہم سرحدی شہر تھا۔ 2001ء میں شہر کے مرکز کو عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا گیاتھا۔ ویانا کی ہر گلی، ہر چوک، ہر سڑک، ہر بلڈنگ، ٹریفک، نہریں، ہریالی اور عمارات اس شہرکا خاصّہ ہیں۔ اِن عمارات کا آرکیٹیکچر دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔

ہوف برگ پیلس

یہ محل رومن امپائر کی نشانی ہے، جو اپنے پورے جا ہ و جلال کے ساتھ موجود ہے۔ رات کو یہ ایسے چمکتا ہے کہ وہاں سے نظریں نہیں ہٹ پاتیں۔ پندرھویں صدی کے حکمران کا2800کمروں پر مشتمل یہ محل قابل دید ہے۔ ہوف برگ پیلس کے آگے وسیع و عریض میدان تھا۔

سگمنڈ فرائیڈ میوزیم

مشہور ماہر نفسیات سگمنڈ فرائڈ بابائے تحلیلِ نفسی مانے جاتے ہیں۔ ان کی انسانی لاشعور میں دلچسپی اس وقت پیدا ہوئی جب ان کے والد کا1896ءمیں انتقال ہوا۔ اگلےکئی برسوں تک فرائڈ اپنے خوابوں کا تجزیہ کرتے رہے اور1900ء میں انہوں نے اپنی مشہور کتاب ’’انٹرپریٹیشن آف ڈریمز‘‘ لکھی، جو نفسیات کی تاریخ میںمعرکتہ الآراء گردانی جاتی ہے ۔

سگمنڈ فرائیڈ میوزیم دراصل ان کا اپارٹمنٹ تھا، یہیں پر ان کا کلینک اوردفتر تھا، جو تقریباً 400 مربع میٹر کا فلیٹ تھا لیکن اب یہ میوزیم کی شکل میں موجود ہے۔ Berggasse19پر واقع اس میوزیم کے باہر ڈاکٹر سگمنڈ فرائیڈ کے نام کی تختی اب بھی لگی ہے۔1891ءسے لے کر 1931ء تک سیگمنڈ اپنے چھ بچوں، سالی اور بیوی کے ساتھ اس عمار ت میں رہائش پذیر رہے۔ میوزیم میں داخل ہوتے ہی ایک ٹرانسمیٹر تھما دیا جاتا ہے، جس سے ہر کمرے میں جانے سے پہلے اس کمرے کا نمبر ٹرانسمیٹر پر دبا کر کمنٹری سنی جاسکتی ہے۔ اس سہولت سے یہ پتہ چلتاہے کہ وہ کون سا کمرہ تھا جہاں فرائیڈ مریضوں کا معائنہ، ان کا نفسیاتی تجزیہ اور ان کو ہپناٹائز کیا کرتے تھے ، مزید یہ کہ ان کے لکھنے لکھانے کا کمرہ کون سا تھا۔ میوزیم میں سیگمنڈ فرائیڈسے وابستہ تمام چیزیں نہایت احتیاط کے ساتھ محفوظ ہیں، جس میں ان کی ٹیبل، کرسی، صندوق، کتابیں، ہیٹ، چھڑی، ہینگر، کارپیٹ، نوٹس، خطوط، غرض ہر چیز یہاں محفوظ ہے، حتیٰ کہ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ کیسے وہ نیم دراز ہو کر ایک مشکل پوز میں لکھا کرتے تھے۔ فرائیڈ کے مشہور اقوال بھی یہاں میوزیم کی دیواروں پر درج ہیں اور فرائیڈ کے دوستوں کی تصاویر بھی ٓآپ دیکھ سکتے ہیں، ان میں آئن اسٹائن کی تصویر بھی ہے۔ اس کے علاوہ اس زمانے میں سگمنڈ فرائیڈ کے علمی حلقہ میں دانشوروں اور سائنسدانوں کا ریکارڈ بھی موجود ہے جو اس وقت اپنے عروج پرتھے۔

میئر کا مجسمہ

جمہوریت کا تصور اِن کے ہاں بھی یونانیوں سے آیا، جس کی نشانی کے طور پر انہوں نےویانا میں مجسمے بھی لگا رکھے ہیں، جو شہر میں ہمیں جا بجا نطر ٓاتے ہیں۔ ویانا کے ایک میئر کا مجسمہ بھی ایک فرشتے کی شکل میں شہر میں ایستادہ ہے، یہ فرشتہ نما انسان 300 سال پہلے یہاں کا میئر تھا۔ جب شہر میں ایک وبا پھیلنے سے پے درپے ہلاکتیں ہونے لگیں اور لوگوں کی بڑی تعداد شہر چھوڑ کر جانے لگی تو میئر نے افراتفری کے اس عالم میں شہر سے جانے سے انکار کردیا اور اُس وبا کا ڈٹ کے مقابلہ کیا۔ اس میئر کی ایک وجہ شہرت اور بھی تھی۔ جب دو لاکھ ترک فوج نے شہر کا محاصرہ کیا ہوا تھا تو یہ میئر پوری جوانمردی سے لڑا اوراپنے شہر اور لوگوں کا دفاع کیا۔ مگر بدقسمتی سے آزادی ملنے سے صرف دو دن پہلے اس میئر کا انتقال ہوگیا۔ لیکن اس کا مجسمہ آج بھی ویانا شہر میں موجود ہے۔

سینٹ اسٹیفین

سینٹ اسٹیفین چرچ کے بلند و بالا مینار پر ایسا باریک کام ہے کہ دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ بارھویں صدی میں ہنر مندوں نے بھی ایسا کارنامہ انجام دیا ہوگا، اسی سے ملتا جلتا Votiveچرچ بھی یہاں سے کچھ فاصلے پر موجودہے ،فرق یہ ہے کہ اس کے2 مینار ہیں، یہ دونوں گرجا گھر ویانا کی علامت (Signature View) ہیں۔

تازہ ترین