گل و خار…سیمسن جاوید ٹاک شومیں لاہور سے آئی ہوئی صحافی تہمینہ رانامہمان تھیں جو الیکڑانک اور پریس میڈیا سے وابستہ ہونے کے ساتھ اقلیتوں کے حقوق اور بین المذاہب ہم آہنگی کی علمبردار بھی ہیں۔ صحافت کے حوالے سے اس خصوصی پروگرام میں ڈاکٹرآنند اور میں یعنی سیمسن جاوید ان کے ہمراہ شریک تھے۔مہانوں کے تعارف کے بعد یاور صاحب نے تہمینہ صاحبہ سے پوچھا کہ صحافت کیا ہے ؟کیا تمام صحافی اپنی ذمہ داری ادا کر رہے ہیں اور لفافہ صحافت کیا ہے ؟ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ ایک صحافی معاشرے میں ان چہروں کی شناخت کرواتا ہے جن کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ صحافت معاشرے کا وہ رخ یا وہ چہرہ ہے جسے آپ پوٹریٹ کرکے اپنی تحریر کے ذریعے دوسروں تک پہنچاتے ہیں اس میں ان کے دکھ سکھ، خوشیاں اور مسائل بھی شامل ہیں اس کی پرموشن بھی شامل ہے یا یوں کہیے کہ آپ اس کے چہرے کے نقش و نگار کی عکاسی کرتے ہوئے دوسروں کے سامنے رکھ دیتے ہیں۔ جس میں اس کی خوشیاں اور غم شامل ہوتے ہیں۔بہت سے چینلز اور پرنٹ میڈیا کا دارومدار سرکاری اشتہارات پر ہوتا ہے۔ اشتہارات بندہونے کے ڈر سے سچ لکھنے اور دکھانے سے گریزاں رہتے ہیں حکومت کی موجودہ پالیسیوں کی وجہ سے بہت سے صحافی جاب سےہاتھ دھو بیٹھے ہیں ۔ اندازا کیجئے صحافت کا معیار کیسے بلند رہ سکتا ہے کہ ایک گدھا گاڑی، دودھ بیچنے والے گوالے کی موٹر سائیکل ،ادوایات سپلائی کرنے والی گاڑیوں، جوتے بیچنے والوں سمیت ہر وہ بندہ جودو نمبر دھندہ کرتا ہےان کی گاڑیوں پر بھی پریس لکھا ہوتا ہے۔ اس سوال پر کہ کیا آپ موجودہ حکومت کی کارکردگی سے مطمئن ہیں جس پرتمام مہمانوں کا مشترکہ جواب تھا کہ حکومت کی کارکردگی غیر تسلی بخش ہے۔ کوئی منصوبہ بندی یا ہوم ورک نظر نہیں آتا۔ نئے پاکستان کے نام پر کوئی نئی تبدیلی نظر نہیں آ رہی البتہ جو انہوں نے پچھلی حکومت کو ہٹانے کے لئے منصوبہ بندی کی تھی انہی حالات کو ازسرے نو دہرانے کی کوشش کی جا رہی ہےکاش موجودہ حکومت کنٹینرز کی سیاست کرنے کی بجائے آنے والے حالات کو بہتر بنانے کیلئے جامع انداز سے حکومت کرنے کی منصوبہ بندی کرتی تو شاید آج حکومت کی مایوس کن کارکردگی سامنے نہ آتی۔حکومت جوش سے نہیں بلکہ تھینک ٹینک اور ٹیم وری کی باہمی مشاورت سے چلتی ہے جو پی ٹی آئی کے پاس موجود نہیں۔پی پی پی اور ن لیگ کے اکٹھے ہونے سے پی ٹی آئی کی جارہانہ پالیسیوں میں تبدیلی دیکھنے کو ملی ہے۔ اگر اپوزیشن حقیقی معنوں میں اپنا کردار ادا کرتی ہے تو حکومت کو اپنی کارکردگی بہتر بنانے کے مواقع مل گئے۔ پروگرام مجموعی طور پر انتہائی کامیابی سے اپنے اختتام کو پہنچا۔سامعین کی بھر پور شراکت اور فون کالز کی بنا پر پروگرام مزید دوبالا ہو گیا۔ ہزاروں لوگوں نے اسے سوشل میڈیا پر بھی دیکھا اور اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا۔ گوکہ نیو کاسل ایشین آبادی کے لحاظ سے سوشل اور صحافتی سرگرمیوں میں کچھ زیادہ متحرک دکھائی نہیں دیتا۔یہاں کلچرل سوسائٹی ہفتہ وار پروگرام منعقد کرتی رہتی ہے جس میں صنم ممتاز حسین ،ڈاکٹر آنند، یاور حسین بہت متحرک ہیں۔ اس سے ثابت ہوا کہ اس الیکڑانک دور میں بھی ریڈیو کی اہمیت کم نہیں ہوئی۔ڈاکٹر آنند کو ایشین کمیونٹی سے گلہ ہے کہ انہوں نے خواتین کو چاردیواری میں مقید کر رکھا ہے ان کی سوشل اور سیاسی سرگرمیوں میں آنے کے لئے حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی۔خواتین کے موثر کردار کے بغیر مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کئے جا سکتے۔ یہ تو تھا پروگرام کا مختصر جائزہ۔مگر میری سوچ کا مرکز و محور مسیحی صحافیوں کی مشکلات تھیں ۔جن کو بیشمار چیلنجز کا سامنا ہے۔بین القوامی سطح پر جن کی خدمات کا اعتراف کیا جائے ایسے صحافی نہ ہونے کے برابر ہیں۔جو ہیں وہ صرف کمیونٹی کے مسائل اور ان کے حقوق کے لئے سرکرداں ہیں۔المیہ یہ ہے کہ انہیں قوم کی طرف سے پزیرائی نہیں ملی۔بہت سے ایسے نام نہاد فیس بکئے لیڈرز اور تنظیمیں ہیں جو گلی باتی تومتحرک نظر آتی ہیں مگر ان کا آوٹ پٹ صفر ہے۔ البتہ ان کی اولین خواہش ہوتی ہے کہ وہ مسیحی کمیونٹی کے متعلقہ مسائل کا حصہ بنے نہ بنیں البتہ اس کی کامیابی کا کریڈٹ ضرور لیا جائے۔ اور جب کوئی صحافی ان کی نشاندہی کرتا ہے تو اسے حدف تنقید بنایا جاتا ہے۔حکومت اور حقوق کے لئے تو وہ جراتمندانہ آواز اٹھا سکتا ہے مگر اپنی کمیونٹی میں پائی جانے والی بیشمار خامیوں پر جائز تنقید کا بھی حق نہیں رکھتا۔بقول خلیل جبران کہ ہر سال 25دسمبر کرسمس کے روز گلیل کی پہاڑیوں پر یہودیوں کا مسیحا اور مسیحیوں کا مسیحا ملتے ہیں اور یہ کہہ کر ایک دوسرے سے جدا ہو جاتے ہیں کہ ہمارا ملاپ کبھی بھی نہیں ہو سکتااسی طرح آج کے مسیحیوں اورخداوند یسوع المسیح کے مسیحیوں میں بہت فرق نظر آتا ہے۔آج کا چرواہا اپنی بھیڑوں کی رہنمائی کرنے کی بجائے مادیت پرستی، نمود نمائش ،دنیا داری ،خرید و فروخت، سیاست اور سستی شہرت حاصل کرنے کیلئے حقیقی مسیح اور اسکے پیغام کو یکسر فراموش کرچکا ہے۔کاش ہم مغرب میں رہنے والے ان مسیحیوں سے سبق سیکھیں جن کے دم قدم سے پوری دنیا میں مسیحیت کا نام بلند تر ہے۔