• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سرتسلیم خم کہ حج بیت اللہ انفرادی عبادت ہے جو محض صاحبِ استطاعت افراد پر فرض ہے اور اس کی ادائیگی کے لئے پہلے سے معاشی مسائل کا شکار حکومت سے سبسڈی کا تقاضا نہیں کیا جا سکتا مگر تکلف برطرف، یہ کریڈٹ تو آپ کو ہی جاتا ہے کہ لاکھوں عازمین حج جو پرانے پاکستان میں صاحبِ استطاعت افراد کی فہرست میں شامل تھے، آپ کی غلط پالیسیوں نے ان سے استطاعت چھین لی، ویسے معاشی استحصال کرنے والوں نے سبسڈی کے نام پر عوام کوخوب دھوکہ دیا ہے۔ حکومتیں لوگوں کی جیب پر ڈاکہ ڈالتی ہیں، من پسند افراد کو نوازنے کے لئے کرنسی کی شرح تبادلہ میں اچانک ردوبدل کردیا جاتا ہے اور جب کھربوں روپے لوٹ لئے جاتے ہیں تو پھر آٹے، دال اور چینی پر سبسڈی کی خیرات دے کر احسان جتلایا جاتا ہے۔ سبسڈی کی یہ ساہو کاری ہر جگہ کار فرما دکھائی دیتی ہے، مثال کے طور پر ڈیم بنانے کا بوجھ عوام پر ڈالا جاتا ہے، آج بھی بجلی کے بلوں میں نیلم جہلم سرچارج کے نام پر زبردستی ٹیکس لیا جا رہا ہے، پھر جب ہمارے ہی پیسوں سے بجلی تیار ہوتی ہے تو نہ صرف مہنگی بیچی جاتی ہے بلکہ اس میں انواع و اقسام کے ٹیکس بھی شامل کر دیئے جاتے ہیں، یہاں تک کہ جہاں سرکاری اہلکاروں کی ملی بھگت سے بجلی چوری ہوتی ہے یا عملے کی نااہلی کے باعث لائن لاسز کی صورت میں بجلی ضائع ہوتی ہے تواس کا بوجھ بھی صارفین پر ڈال دیا جاتا ہے۔ جب لوگ اس ظلم و ستم پر چیختے، چلاتے ہیں تو ان سے اینٹھی جا رہی رقم سے ہی معمولی سی سبسڈی دیدی جاتی ہے۔ کسان گندم اُگاتا ہے، دھان کاشت کرتا ہے یا آلو کی فصل تیار کرتا ہے تو ایگری اِن پُٹس کی مد میں کوئی رعایت نہیں دی جاتی، جو لوگ ملک کی درآمد و برآمد میں توازن پیدا کرنے کے عوض بھاری تنخواہیں اور مراعات لیتے ہیں، وہ یہ تخمینہ لگانے کی زحمت نہیں کرتے کہ جو فصل ضرورت سے زائد ہوگی اسے کیسے برآمد کیا جائے گا۔ جب کسان کی ساری محنت ضائع ہو جاتی ہے، زرعی اجناس کے نرخ کم ترین سطح پر آجاتے ہیں، پالیسیاں بنانے والوں کے لاڈلے آڑھتی اورکارخانہ مالکان اپنی جیبیں بھرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو پھر حکومت گونگلوئوں سے مٹی جھاڑنے کو آگے بڑھتی ہے اور لوٹ مار سے نڈھال کسان کو سبسڈی کی بھیک دیکر معاملہ رفع دفع کر دیتی ہے۔

حج سبسڈی کے نام پر بھی عوام سے یہی کھلواڑ ہوتا رہا ہے۔ تحریک انصاف اپوزیشن میں رہتے ہوئے کرپشن کے خلاف آواز اٹھاتی رہی ہے اور قوم کو بتاتی رہی ہے کہ حاجیوں کو ہر سال لوٹا جاتا ہے۔ اس سال سبسڈی بیشک نہ دی جائے مگر اس مبینہ لوٹ مار کو ختم کر دیا جائے تو عازمین حج کو ایک سے ڈیڑھ لاکھ روپے کا ریلیف دیا جا سکتا ہے۔ رواں سال دو وجوہات کی بنیاد پر حج اخراجات میں اضافہ ہوا، سعودی حکومت نے بعض بنیادی اخراجات میں اضافہ کر دیا اورپاکستانی روپے کے مقابلے میں ریال کے نرخ بڑھ گئے لیکن تحریک انصاف کی حکومت ماضی کے ـ’’کھانچے‘‘ بند کرنے کی کوشش کرے تو اس اضافے کو غیر موثر کرکے عوام کو ریلیف دیا جا سکتا ہے۔ سعودی عرب کی جانب سے کمبائنڈحج ڈیوز(CHD)کی مد میں فی حاجی 1210ریال وصول کئے جاتے تھے جو اب 1756ریال ہو گئے ہیں۔ اس کے علاوہ حاجیوں کے قیام و طعام کے اخراجات پر 10فیصد ٹیکس لگا دیا گیا ہے۔ ہوٹل کے اخراجات پر اب پانچ فیصد ویلیو ایڈڈ ٹیکس ’’واٹ‘‘ اور پانچ فیصد میونسپلٹی ٹیکس لگا دیا گیا ہے۔ اگر سعودی فرمانروائوں سے اُدھار تیل لینے کے لئے درخواست کی جا سکتی ہے تو ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی پاکستان آمد پر یہ گزارش بھی کی جا سکتی ہے کہ پاکستانی عازمین حج کو اس اضافے سے مستثنیٰ قرار دیا جائے۔ اس کے علاوہ بھی کئی ایسی مدات ہیں جن میں ہر سال خورد برد ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر مکہ اور مدینہ میں قیام کے لئے فی حاجی 3500ریال جبکہ 35روزہ طعام کے لئےفی حاجی 770ریال وصول کئےجاتے ہیں۔ رہائش کا انتظام بہت دور کیا جاتا ہے۔ سعودی حکومت کی جانب سے بھی حاجیوں کو ٹرانسپورٹ کی سہولت دی جا تی ہے لیکن پاکستانی عازمین حج کی رہائش گاہیں اس ٹرانسپورٹ سے بھی کئی کلومیٹر دور ہوتی ہیں۔ حاجیوں کی آمد و رفت کے لئے کوچز ٹھیکے پر لی جاتی ہیں۔ یہ کس قدر دلچسپ بات ہے کہ گزشتہ 12سال سے ایک ہی کمپنی کو یہ ٹھیکہ دیا جا رہا ہے۔ اس کمپنی کے پاس اپنی بسیں نہیں تھیں اور یہ کہیں اور سے بندوبست کیا کرتی تھی لیکن اسے یہ کام اس قدر منافع بخش محسوس ہوا کہ اس نے گزشتہ برس نئی بسیں خرید لیں۔ اس کمپنی کے ساتھ ہونے والے معاہدے کا عکس دیکھا تو میں حیران رہ گیا۔ بڑی کوسٹر کا یومیہ کرایہ 2700ریال یعنی ایک لاکھ دو ہزار روپے جبکہ چھوٹی کوسڑ کا یومیہ کرایہ 1250ریال یومیہ۔ اسی طرح کھانے کے ٹھیکے سے رہائش گاہ کے ٹھیکے تک ہر جگہ خورد برد ہوتی ہے۔ وزارت مذہبی امور ہر سال حج انتظامات کے عوض 4000وصول کرتی ہے جبکہ 400انشورنس کے نام پر لیا جا تا ہے۔ اس محافظ فنڈ کی مد میں وزارت مذہبی امور کے پاس کروڑوں کے فنڈز موجود ہیں اگر حکومت چاہتی تو قومی خزانے سے کوئی اضافی رقم خرچ کئے بغیر لوگوں کو ریلیف دیا جا سکتا تھا۔ اگر پی آئی اے حج آپریشن کے نام پر ٹکٹ کی رقم نہ بڑھائے اور حاجیوں سے وہی رقم وصول کی جائے جو عمرہ زائرین سے لی جاتی ہے تو بھی حج اخراجات میں خاطر خواہ کمی ہو سکتی ہے۔ اگر 21دن کا عمرہ لگ بھگ ایک لاکھ روپے میں ہو سکتا ہے مگر 40روزہ حج کے اخراجات ساڑھے چار لاکھ روپے تک پہنچ جاتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ کہیں نہ کہیں کوئی گڑ بڑ ضرور ہے۔ سعودی عرب میں خیمہ بستی کے لئے مکتب کے نام پر جو سہولتی نرخ حکومتوں کو دستیاب ہیں اگر نجی کمپنیوں کو وہی حقوق دلوا کر حج آپریشن کو پرائیویٹائز کردیا جائے تو نہ صرف انتظامات اور سہولتوں میںخاطر خواہ بہتری لائی جاسکتی ہے بلکہ حج اخراجات بھی کم ہو سکتے ہیں۔ آپ نے حج اخراجات میںدی جا رہی سبسڈی ختم کر دی بہت اچھا کیا، عوام کو سبسڈی کے نام پر دھوکہ نہیں چاہئے بلکہ انہیں صارف کی حیثیت سے ان کا جائز حق دیا جائے اور لوٹ مار سے بچایا جائے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین