• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ماں کے ہاتھوں بچی کا قتل، ملزمہ ’’نفسیاتی مریض‘‘ قرار

کراچی کے علاقے کلفٹن میں ماں کے ہاتھوں بچی کو سمندر میں ڈبو کر قتل کرنے کے مقدمے کی تفتیش کے دوران مقتولہ کے نانا نے اپنی ملزمہ بیٹی کو ’’نفسیاتی مریض‘‘ قرار دے دیا ہے۔

ماں کے ہاتھوں قتل ڈھائی سالہ انعم کے نانا دلاور خان تفتیش کیلئے پولیس کے سامنے پیش ہوئے۔

ایس پی انویسٹی گیشن ساؤتھ طارق دھاریجو کے مطابق ملزمہ شکیلہ راشد کے والد دلاور خان کئی گھنٹے تک ساحل تھانے کے شعبہ تفتیش میں رہے۔

والد کے بیان کے مطابق شکیلہ اور راشد شاہ کی سال 2012 میں شادی ہوئی، کچھ عرصے بعد ہی گھر میں جھگڑے شروع ہوگئے۔ میاں بیوی کے درمیان مسلسل تناؤ کی وجہ سے شوہر نے کرایہ پر الگ فلیٹ لے کر دیا تھا۔

پولیس کے مطابق ملزم نے بیان دیا ہے کہ ذہنی دباؤ اور ڈپریشن کی وجہ سے شکیلہ سال 2016 سے کراچی کے نجی اسپتال میں زیر علاج تھی، دلاور خان نے اپنی ملزمہ بیٹی کے ڈپریشن اور ذہنی دباؤ کا شکار رہنے کا ڈاکٹری سرٹیفکیٹ بھی پولیس کے سامنے پیش کیا ہے۔

دلاور خان کے بیان کے مطابق ان کی بیٹی شکیلہ 5 ماہ سے ان کے پاس رہتی تھی جبکہ اس کی بیٹی اپنے والد کے پاس رہتی تھی۔ ایک ماہ سے دونوں میاں بیوی کے مابین صورتحال زیادہ گھمبیر تھی یہی وجہ تھی کہ والد نے بچی کو ماں سے نہیں ملنے دیا۔

شکیلا کے والد کا کہنا ہے کہ دماغی توازن ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سے بیٹی کے پاس پیسے نہیں رہنے دیتے تھے، وقوعہ کے روز پتہ نہیں وہ کس طرح اپنے شوہر کے گھر پہنچی؟، بچی کو کیسے لیا؟، کیسے ساحل سمندر پہنچی اور قصہ تمام کر دیا؟

ایس ایچ او ساحل پولیس اسٹیشن سیدہ غزالہ کے مطابق ڈھائی سالہ مقتولہ انعم کا والد اس کی راشد شاہ میت لینے نہیں آیا، لاش چچا صابر شاہ کے حوالے کی گئی جسے مقامی قبرستان میں سپردخاک کردیا گیا۔ پولیس کے شعبے تفتیش نے بچی کے والد راشد شاہ کو بھی بیان کیلئے طلب کر رکھا ہے۔

ایس ایس پی طارق دھاریجو کے مطابق تفتیش کے بعد کسی بھی کردار کو قتل السبب ہونے کی بنا پر تعزیرات پاکستان کی دفعہ 322 کے تحت گرفتار کیا جاسکتا ہے۔

ایس آئی او عامر الطاف کے مطابق ڈھائی سالہ بچی کے سمندر میں ڈبو کر قتل کرنے کے کیس سے متعلق دیگر کرداروں کے بھی بیانات ریکارڈ کیے جائیں گے۔

تازہ ترین