تجمل گرمانی، لاہور
ایوان وزیر اعلیٰ لاہور میں جنوبی پنجاب ایگزیکٹو کونسل کے چیئرمین طاہر بشیر چیمہ کی صدارت میں 8کلب روڈ پر اہم اجلاس ہوا، سرکاری ذرائع کے مطابق جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ یکم جولائی سے کام کا آغاز کردے گا ، جنوبی پنجاب صوبہ کے قیام کے لئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات شروع کر دئیے گئے ہیں اور اس حوالے سے جنوبی پنجاب کے تمام فریقین کو اعتماد میں لینے کا فیصلہ ہوا ہے، صوبہ کے قیام کے لئے بنیادی کام مکمل ہو چکا ہے ، یکم جولائی سے جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ قائم کر کے وہاں کے عوام کو بااختیار بنا دیا جائےگااس مقصدکے لئے ملتان اور بہاولپور دونوں شہروں کے ناموں پر غور ہو رہا ہے تاہم حتمی فیصلہ وزیر اعظم کریں گے ،جنوبی پنجاب ایگزیکٹو کونسل کے چیئرمین طاہر بشیر چمہ نے بتایا کہ کونسل کا دفتر 5کلب روڈ میں قائم کر دیا ہے جہاں ہر پندرہ دنوں بعد اجلاس ہو گے جن میں جنوبی پنجاب صوبے کے لئے اقدامات، وہاں جاری منصوبوں اور ان کے مستقبل کے متعلق سفارشات کے علاوہ ورکنگ پیپرز تیار کر کے مئی سے قبل وزیر اعلیٰ کو پیش کر دیں گے ، جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ 38محکموں پر مشتمل ہو گاجس کا سربراہ ایڈیشنل چیف سیکرٹری جبکہ ہر محکمے کا سپیشل سیکرٹری تعینات ہو گا جس کے بعد جنوبی پنجاب کے عوام کو ان کی دہلیز پر اختیارات ملیں گے اور لاہور آنے کی ضرورت نہیں ہو گی، ایڈیشنل سیکرٹریوں کی تقرریوں کے لئے وزیر اعلی کو صوابدید ی اختیارات حاصل ہیں تاہم مالی خود مختاری کے امور کی اسمبلی میں اجازت لی جائے گی، مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کی مخالفت نہیں کریں گی ورنہ عوام سے مار کھائیں گے۔ صوبائی دارالحکومت لاہور میںموسم سرما کے دوران شدید سردی کی وجہ سے 50بے گھر افراد ٹھٹھر کر مر گئے ، ان کی لاشیں فٹ پاتھوں، پارکوں اور سڑکوں سے ملیں ،دسمبر میں سردی سے مرنے والوں کی تعداد 30اور جنوری میں تعداد 20تھی، پولیس نے مرنے والوں کو لاوارث قرار کر لاشوں کو لاوارث قرار دے دیا اور انھیں تجہیز و تکفین کے لئے ایدھی فائونڈیشن کے سپر د کر دیا ،ایدھی رضا کاروں نے میتوں کو غسل دیا ، سفید کفن پہنایا ، نماز جنازہ ادا کر کے شہر سے باہر شہر خاموشاں قبرستان میں دفن کر دیا، قبر پر مرنے والے کا نام ، ولدیت اور عمر نہیں لکھی گئی بلکہ صرف میت نمبر لکھا گیا کیونکہ مرنے والے کے کوئی شناختی کوائف موجود نہیں تھے، سردیوں میں ہر سال لاوارث میتوں میں اضافہ ہو جا تا ہے، ایدھی پہلے بھی لاوارث میتوں کی تجہیز و تکفین کر تا تھا اور اب بھی اس کام کو مذہبی فریضہ سمجھ کر ادا کر رہا ہے ، اقتدار کی مسند پر بیٹھا طبقہ ہمیشہ اس سماجی مسئلے سے غفلت کر تا رہا ہے ، پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے گزشتہ سال اقتدار سنبھالا تو خاتون اول بشری عمران کی ذاتی دلچسپی سے بے گھرافراد اور مسافروں کے لئے پناہ گاہ منصوبہ شروع کیا گیا اور لاہور میں دس ہزار بے گھر افراد کو رہائش، کھانے اور علاج کی سہولیات مہیا کرنے کے لئے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی نگرانی میں پناہ گاہ منصوبہ کے تحت فوری طور پر پانچ مقامات پر ٹینٹ لگائے گئے اور بے گھر افراد اور مسافروں کے لئے عارضی رہائش گاہوں کا بند و بست کر دیا گیا یہ ٹینٹ ریلوے سٹیشن، سبزی منڈی ، جنرل بس سٹینڈ بادامی باغ،داتا دربار، ٹھوکر نیاز بیگ میں لگائے گئے ۔ پناہ گاہ منصوبے کے بنیادی مقاصد لاہور میں مسافروں اور بے گھر افراد کو رہائش اور کھانے کی مفت سہولیات مہیا کرنا تھا ، شہر کے پانچوں مقامات پر پناہ گاہوں کی مستقل عمارتوں کی تعمیر کا کام بھی شروع ہو گیا، ٹھوکر نیاز بیگ ، سبزی منڈی، جنرل بس سٹینڈ میں ایک کنال ، داتا دربار اور ریلوے سٹیشن میں دو دوکنال کی عمارتیں تعمیر ہو رہی ہیں، ا ن عمارتوں کی تعمیر پر ابتدائی تخمینہ 13کروڑ روپے لگا لیکن کام شرو ع ہونے کے بعد لاگت بڑھ کر 34کروڑ روپے ہو گئی ، ان میں 28کروڑ روپے عمارتوں کی تعمیر اور 5کروڑ روپے فرنیچر، کیمروں، بائیو میٹرک اور کمبلوں ، گدوں کی خرید پر خرچ ہو گے ، داتا دربار میں 144 افراد، ریلوے سٹیشن 164افرد، سبزی منڈی 120 افراد، جنرل بس سٹینڈ بادامی باغ 120افراد اور ٹھوکر نیاز بیگ میں 150افراد کو رہائشی سہولیات مہیا ہو گی،پناہ گاہوں کے منصوبہ کو لاہور کے بعد دوسرے شہروں میں توسیع دینے کے اقدامات جاری ہیں ، راجہ بازار روالپنڈی میں راولپنڈی ڈویلپمنٹ اتھارٹی پناہ گاہ چلا رہی ہے ، ڈیرہ غازی خان میں بھی پناہ گاہ قائم کرنے پر غور ہو رہا ہے ، پنجاب کے دوسرے شہروں میں پناہ گاہوں کے منصوبہ کو شروع کرنے کے لئے حکومت صوبائی اسمبلی میں پناہ گاہ اتھارٹی بل پیش کرنا چاہتی ہے ، چیف سیکرٹری پنجاب کے ماتحت ایک کمیٹی منصوبے کےقواعد و ضوابط کی تیاری میں مصروف ہے ۔صوبائی حکومت کے اقدامات درست لیکن شہر میں قائم پناہ گاہوں کی حالت زاردعووں کے برعکس ہے ، ریلوے سٹیشن پر پناہ گاہ کی عمارت کا کام 20 جنوری کو مکمل ہو نا تھا لیکن منصوبہ تاخیر کا شکار ہو گیا اور تعمیراتی کام تاحال جاری ہے ، تعمیرات میں تاخیر کے باعث دسمبر اور جنوری میں بے گھر افراداور مسافر شدید سردی، دھند اور بارشوں کے دوران خیموں میں راتیں بسر کرنے پر مجبور ہو گئے ، بے گھر افراد اور مسافروں کو بارشوں کے دوران فائر بریگیڈ اور خستہ عمارتوں میں رکھا گیا ، رضائیاں اور گدے بھیگنے کی وجہ سے بدبو دینے لگے ہیں، سفید پوش افراد اور طالبعلموں کے لئے پناہ گاہ میں قیام مشکل ہو چکا ہے ، پناہ گاہوں میں شناختی کارڈ کے بغیر رجسٹریشن نہیں ہو تی جس وجہ سے ذہنی ، نفسیاتی امراض اور منشیات کے عادی افراد کو پناہ گاہ میں قیام کی اجازت نہیں اور ایسے افراد سردیوں میں کھلے آسمان تلے ایڑیاں رگڑ گڑ کر مررہے ہیں ، ایدھی کو سپرد لاوارث لاشوں میں بیشتر افراد کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ ذہنی ، نفسیاتی امراض اور منشیات کے عادی تھے، حالت یہی رہی تو منصوبہ کی افادیت ختم ہو جائے گی اور ریاست مدینہ کا خواب کبھی پورا نہیں ہو گا۔