• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ کچھ دنوں سے میڈیا پر ایک نئی بحث جاری ہے جس کی وجہ وفاقی کابینہ کی طرف سے حج سبسڈی ختم کرنے کا حکومتی فیصلہ ہے، ایک طرف کچھ حلقوں کا اصرار ہے کہ ریاست مدینہ کی دعویٰ دار پی ٹی آئی حکومت نے حج سبسڈی سے انکار کرکے کوئی بہت غلط اقدام اٹھالیا ہے تو دوسری طرف حکومت کا موقف ہے کہ موجودہ معاشی صورتحال میں حج سبسڈی ختم کرنا ایک دانشمندانہ فیصلہ ہے، ایسی صورتحال میں سب سے زیادہ کنفیوژن کا سامنا پاکستانی عوام کو کرنا پڑ رہا ہے جواپنی زندگی بھر کی جمع پونجی سے حج کرنے کے خواہاں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم وطن حاجیوں کو بہترین سفری سہولتوںکی فراہمی یقینی بنانے کیلئے میں نے ضروری سمجھا کہ مختلف ممالک کی حکومتی پالیسیوں اور مذہبی تعلیمات کے تناظر میں اپنی تجاویز پیش کروں۔دنیا کے ہر مذہب میں مقدس مقامات کی زیارت کو نہایت اہمیت حاصل ہے، دنیا بھر کے باشندے اپنی اپنی مذہبی عقیدت کے مطابق یہ مقدس فریضہ سرانجام دیتے آرہے ہیں۔ میری معلومات کے مطابق ہر صاحب استطاعت مسلمان پر زندگی میں ایک بار حج کرنا لازم ہے لیکن اس کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے حق حلال کی کمائی سے اخراجات برداشت کرے ،یہی وجہ ہے کہ ہمیں حکومت سے حاجیوں کیلئے ضروری سہولتیں فراہم کرنے کی اپیل ضرور کرنی چاہئے لیکن حج سبسڈ ی پر اصرار نہیں کرنا چاہئے۔ میرے اس موقف کو سمجھنے کیلئے تاریخ کے جھروکے میں جھانکنا پڑے گا، انگریزوں کی آمد سے قبل سینکڑوں سالوں سے برصغیر کے مسلمانوں کے قافلے حج کیلئے روانہ ہوتےہیں جوزمینی راستوں سے برسوں کا سفر طے کرتے ہوئے سرزمین حجاز پہنچتے، انگریز ایک خالصتاََ کاروباری ذہنیت لیکر ہندوستان پر قابض ہوئے تھے، انگریزسرکارنے مقامی مسلمانوں کا فریضہ حج کیلئے جوش و خروش دیکھتے ہوئے 1932ء میں ’’پورٹ حج کمیٹیز ایکٹ‘‘ منظور کیا جس کے تحت کراچی ،بمبئی اور کلکتہ کی بندر گاہوں سے حاجیوں کی حجاز مقدس روانگی کے انتظامات کیلئے حج کمیٹیاں قائم کی گئیں،یہ کمیٹیاںحکومتی مالی امداد سے بحری راستے کے ذریعے حاجیوں کو حجاز مقدس تک پہنچاتی تھیں،تاریخی تناظر میں یہ اقدام درحقیقت حج سبسڈی کا آغاز تھا جس کے پس پردہ عوامل میںبرطانوی راج کا اپنا مفاد پوشیدہ تھا، حاجیوں کی بحری آمدورفت کو کنٹرول کیلئے برطانوی کمپنی ٹرنر موریسن کی ماتحت موگل لائن نامی شپنگ کمپنی کی اجارہ داری قائم کی گئی ۔تقسیم ِ ہند کے بعد انڈیا میں آج بھی حج انتظامات کی بنیا دیہی انگریزوں کا ایکٹ ہے، یہی وجہ ہے کہ وہاں حج کے انتظامات وزارت خارجہ کے ماتحت مرکزی حج کمیٹی کی ذمہ داری ہے جبکہ ہمارے ملک میں حج انتظامات کیلئے باقاعدہ طور پر وزارت مذہبی امورقائم ہے۔انڈیامیں اندرا گاندھی کے دورِ حکومت میں سمندر کے راستے حج کی بجائے ہوائی سفر اختیار کرنے کا کہا گیا،حاجیوں کوپیشکش کی گئی کہ وہ بحری جہاز کا کرایہ ادا کرکے سرکاری ایئرلائن کے ذریعے ہوائی جہاز کا سفر کرسکتے ہیں، حکومت نے اضافی رقم بطور سبسڈی ایئرانڈیا کو ادا کرنے کا اعلان کیا ۔انڈیا میں حکومتی سبسڈی کی مخالفت میں اسدالدین اویسی سمیت مسلمان اراکین پارلیمان پیش پیش رہے،حج سبسڈی کے خلاف سب سے جاندار موقف دہلی کی تاریخی جامع مسجد کے شاہی امام احمد بخاری کی طرف سے سامنے آیا ، انہوں نے عازمین حج کو ایئرانڈیاکے چنگل سے نجات دلانے کیلئے عالمی کمپنیوں کے مابین ٹینڈر کا مطالبہ کیاتاکہ سستے کرایہ میں بہترین سفری سہولتوں کا حصول ممکن بنایا جاسکے، شاہی امام نے حج کے امور میں حکومت کی مداخلت مکمل طور پر ختم کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔حج سبسڈی کا معاملہ2012ء میں سپریم کورٹ آف انڈیا کے روبرو پیش ہوا تو مسلمان جج آفتاب عالم اور جسٹس رانجانا پی ڈیسائی پر مشتمل بینچ نے حکومت کو دس سالوں کے اندر مرحلہ وار حج سبسڈی ہر صورت میں ختم کرنے کا حکم سنا دیا، جسٹس آفتاب عالم نے قران پاک کا حوالہ دیتے ہوئے عدالتی آرڈر میں تحریر کیا کہ فریضہ حج صرف ان صاحب ِ استطاعت مسلمانوں پر فرض ہے جو اخراجات برداشت کرسکیں، حکومتی سبسڈی کی رقم تعلیم اور سماجی ترقی کیلئے استعمال کی جائے،یوں گزشتہ برس انڈین حکومت نے حج سبسڈی کے مکمل خاتمہ کا اعلان کردیا۔ پاکستان کی بات کی جائے تو یہاں بھی روز اول سے حج سبسڈی کا سب سے زیادہ فائدہ سرکاری ایئرلائن پی آئی اے کو ہی پہنچایا گیا ہے جبکہ خطیر رقم ادا کرنے کے باوجود حاجیوں کی مشکلات میں کمی نہیں آئی۔کتنے افسوس کی بات ہے کہ پاک سرزمین سے تعلق رکھنے والا ایک حاجی جو خدا کی رضا کیلئے مقدس سرزمین کا سفر کرتا ہے، اس کو حج سبسڈی کے نام پر استحصال کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ حاجیوںکودرپیش مسائل سے ثابت ہوتا ہے کہ حکومت وقت کو حج سبسڈی نہیں بلکہ حاجیوں کی خدمت کیلئے ایک جامع پالیسی بنانے کی ضرورت ہے، اس حوالے سے میں کچھ تجاویز حکومت کے سامنے پیش کرنا چاہوں گا۔ نمبر ایک، حج سبسڈی کا خاتمہ اچانک نہیں بلکہ لوگوں کی آس کو مدنظر رکھتے ہوئے مرحلہ وار کیا جائے ، حاجیوں کی خدمت کیلئے انڈونیشیا کی طرز پرخصوصی حج فنڈقائم کیا جائے، اگر ایسا کوئی حج فنڈ قائم ہوجاتا ہے تو نہ صرف سب سے پہلے میں اس نیک کام میں حصہ ڈالوں گا بلکہ تمام مخیر پاکستانیوں سے بھی اپیل کروں گا کہ وہ مذہبی فریضہ سمجھتے ہوئے اپنی ایک دن کی تنخواہ یا حسب استطاعت رقم جمع کرائیں تاکہ اللہ کے مہمانوں کی خدمت کرنے سے اللہ کی رحمت پاک سرزمین میں سب پر یکساں برسے۔ نمبر دو، پی آئی اے کی اجارہ داری ختم کرکے دیگر عالمی و نجی ایئرلائنز کو سستے حج سفری پیکج پیش کرنے کیلئے ٹینڈر کا اعلان کیا جائے۔

نمبرتین، فریضہ حج کی ادائیگی کیلئے بحری سفر کو بحال کیا جائے، ایک ہفتے سے کم دورانیہ پر مشتمل بحری سفر کا کرایہ بمعہ خوراک صرف تیس ہزار روپے تک کا اندازہ ہے اور دوران سفر پاکستانی حاجیوں کو مناسک حج و دیگر مذہبی تعلیمات سے بھی آگاہی فراہم کی جاسکتی ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ اپوزیشن حج جیسے مقدس فریضے کی آڑ میں پی ٹی آئی حکومت کوبلاجواز ہدفِ تنقید بنا رہی ہے،میں تمام مخالفین سے کہوں گا کہ وہ خدارا سیاسی عزائم کی خاطر عوام کو بدظن نہ کریں۔ میری خدا سے دعا ہے کہ دورِ غلامی کی یادگار حج سبسڈی کا خاتمہ پاکستانی حاجیوں کی مشکلات کا ازالہ کرنے میں معاون ثابت ہوسکے۔بقول شاعر مشرق علامہ اقبال، آئین ِنو سے ڈرنا طرزِ کہن پہ اَڑنا، منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین