• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’فاطمہ ثریا بجیا‘‘ ادب کی دنیا کا درخشاں ستارہ

فاطمہ ثریا بجیا ادبی دنیا کا ایک ایسا روشن باب اورضوفشاں عہد ہیں، جن کی اردو ادب کے لیے دی گئی خدمات کو بھلایا نہیں جاسکتا۔ بجیا کی ادبی دنیا سے وابستگی کوئی حسین اتفاق نہیں تھی بلکہ یہ ایک ایسا عمل تھا، جسے زندگی کے کسی بھی دور میں حقیقت کا روپ دھارنا ہی تھا۔ وہ ایک ایسے تعلیم یافتہ ادبی گھرانے میں پلی بڑھی تھیں، جس میں ادبی دنیا کی کئی نامور شمعیں روشن ہوئیں۔ فاطمہ ثریا بجیا ادبی دنیا میں بطور ڈرامہ نگار، ناول نگار اور ادیبہ بے حد مقبول ومعروف ہوئیں۔ ان کی زندگی سے متعلق چند اہم باتیں جن کا کسی بھی قاری کو جاننا بے حد ضروری ہے، بطور خراج عقیدت قلم بند کی گئی ہیں ۔

ابتدائی زندگی

فاطمہ ثریا بجیا نے یکم ستمبر 1930ء کو ہندوستان کے شہر حیدر آباد کے ضلع کرناٹک میں ادبی لگاؤ رکھنے والے گھرانے میں آنکھ کھولی۔1947ء میں قیام پاکستان کے بعد ان کا خاندان ہجرت کرکے پاکستان منتقل ہوگیا اور کراچی میں مستقل سکونت اختیار کرلی۔ فاطمہ ثریا بجیا نے کبھی اسکول کی تعلیم حاصل نہیں کی، انہیںتمام تر تعلیم گھر میں ہی دی گئی مگر اس کے باوجودانھوں نے اپنی صلاحیتوںکے بل بوتے پر اپنا نام ملک کے معزز دانشوروں اور لکھاریوں کی فہرست میں لکھوایا۔ بجیا کے بہن بھائیوں کی تعداد 10تھی، جن میں وہ سب سے بڑی تھیں۔ والد اور دادا کی وفات کے بعد چھوٹے بہن بھائیوں کی ذمہ داری بجیا کے کندھوں پر آگئی، بجیا نے تمام بہن بھائیوں کو اچھی تعلیم دلوائی اور اس تعلیم کے سبب، سب بہن بھائیوں نے اپنے اپنے شعبوں میں جداگانہ حیثیت حاصل کی۔ ان کے بھائی انور مقصودکا شمار ملک بھر کے نامور اور باصلاحیت فنکاروں میں ، بہن زہرہ نقوی کا شمار معروف ومشہور شاعروں میں جبکہ ایک اور بہن زبیدہ طارق المعروف زبیدہ آپا (مرحومہ ) کا شمار کوکنگ ایکسپرٹ میں کیا جاتا ہے۔

سپرہٹ ڈرامے ناول اور تحریریں

اگرچہ فاطمہ ثریا بجیا رسمی تعلیم سے ناواقف تھیںلیکن قلم کی طاقت کی بدولت ان کا نام معروف ادبی شخصیات میں ہمیشہ لیا جاتا رہے گا۔ بجیا نے اپنے لیے کسی اور شعبے کے بجائے قلم اور ڈرامائی تشکیل کا شعبہ منتخب کیا۔ بجیا کے ناولوں کی تعدادآٹھ سے دس تھی لیکن شائع صرف ایک ہی ناول ہوسکا۔ 14برس کی عمر میں بجیا نے 250صفحات پر مشتمل مکمل ناول تحریر کیا، جس کی ایک ہزار کاپیاںشائع کی گئیں۔ بقیہ ناول آج بھی اشاعت کے لیے بے کل ہیں۔ علاوہ ازیں بجیا نےپاکستان ٹیلی ویژن کے لیے لاتعداد ٹی وی سیریل لکھے، جو ڈرامے زیادہ مقبول ہوئے ان میں سرفہرست عروسہ، شمع، انا، زینت، تحقیق وتمثیل، انارکلی، بابر، افشاں، تصویر، سسی پنوں، گھر ایک نگر اور آرزو شامل ہیں۔ بجیا نے اپنے ڈراموں میں کر دار نگاری، مکالمہ نگاری اور جزئیات نگاری پر خاصی توجہ دی۔ ان کے ڈراموں میں نئے خیالات، نئے اسالیب اور موضوعات کا انتخاب، خونی رشتوں کے درمیان تعلق اور رویوں کو انتہائی خوبصورتی کے ساتھ پیش کرنے کی صلاحیت اورقلب و روح کی اتھاہ گہرائیوں میں اتر جانے والی اثر آفرینی ناظرین کو بجیا کےڈراموں کے سحر میں مبتلا کردیتی تھی۔ بجیا کی اردواد ب کے لیے کی گئی ایک اور خدمت جاپانی طرز کی شاعر ی کو 11پاکستانی زبانوں میں متعارف کروانا بھی ہے، جس کے لیے انھوں نےجاپانی طرز کی شاعری ’ہائیکو‘ اور ’واکلا‘ کا انتخاب کیا۔

قلم دوستی اور ادبی کیریئر

فاطمہ ثریا بجیا 1960ء میں اس وقت پاکستان ٹیلی ویژن سے منسلک ہوئیںجب ان کی کراچی جانے فلائٹ تاخیر کا شکار ہوئی، جس کے سبب بجیا نے پی ٹی وی اسلام آباد اسٹیشن کا دورہ کیا اور اس وقت کے ہدایتکار آغا ناصر نے انھیںملازمت کی پیشکش کی۔ 1966ء میں بجیا نے ہدایتکار آغا ناصر کے ڈرامے سے اداکاری کا آغاز کیا۔ یہیںسے ان میں ڈرامے لکھنے کا شوق بیدار ہوااور وہ ڈرامہ نگاری کی دنیا میں قدم رکھنے کو تیار ہوگئیں۔ بجیا کا لکھا گیا طویل دورانیے کا پہلا ڈرامہ مہمان تھا ۔

ازدواجی زندگی

بجیا کے قلمی کیریئر کے برعکس ان کی ازدواجی زندگی حسین اور سنہرا دور ثابت نہ ہوسکی۔ اپنی ازدواجی زندگی سے متعلق بجیا کہا کرتی تھیں کہ ان کی شادی حیدرآباد دکن میں ہی ہوگئی تھی۔ شادی کے بعد انھیں خدا نے 2بیٹیوں سے نوازا لیکن یہ مامتا کا رشتہ مختصر عرصہ ہی زندہ رہ سکا، دوسری جانب شوہر سے ان کی علیحدگی بھی سالوں پرانی تھی۔

اعزازات اور خدمات

بجیا ادبی ہی نہیں، سماجی خدمات میں بھی پیش پیش رہتی تھیں۔ بجیانے سندھ حکومت کی مشیر برائے تعلیم کی حیثیت سے بھی خدمات سرانجام دیں۔ ان خدمات کے اعتراف کے طور پر حکومت پاکستان کی جانب سے انھیں تمغہ برائے حسن کارکردگی، ہلال امتیاز اور پرائڈآف پرفارمنس سمیت ان گنت ملکی ایوارڈز سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ جاپانی شاعری کو پاکستانی زبانوں کے قالب میں ڈھالنے پرجاپان کے شہنشاہ کی طرف سے انھیں ملک کا ا علیٰ ترین شہری اعزاز دیا گیا۔ بجیا 10فروری 2016ء کو کراچی میں گلے کے کینسر کی بیماری میں مبتلا ہونے کے سبب دارِفانی سے کوچ کرگئیں۔ آج بجیا کو ہم سے بچھڑے تین سال کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن ان کی خدمات اور ان کی تحریریں ہمارے دلوںمیں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔

تازہ ترین