• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اگر اسے شاعرانہ تعلی نہ سمجھا جائے تو حقیت یہ ہے کہ ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے اور ماں سے کبھی کوئی خوفزدہ نہیں ہوتا۔جس گھر میں ماں خوف کی علامت بن جائے،وہ گھر اجڑ جاتے ہیں۔اسی طرح ریاست میں چیف ایگزیکٹو اور ریاستی اداروں کے سربراہان کو ماں کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔کبھی بھی ان افراد کو اپنے عوام کے لئے خوف کی علامت نہیں بننا چاہئے،بلکہ چیف ایگزیکٹو سمیت ان تمام افراد کو ایک ماں کی طرح تحفظ کی علامت ہونا چاہئے۔بدقسمتی ہے کہ ایک ریاست جو ماں کی مانند ہوتی ہے ،آج وطن عزیز میں خوف کی علامت بن چکی ہے۔اسی پر محسن نقوی نے کہا تھا کہ

تجھے اب کیوں شکوہ ہے کہ بچے گھر نہیں رہتے

جو پتے زرد ہوجائیں وہ پیڑوں پر نہیں رہتے

تو کیوں بے دخل کرتا ہے مکانوں سے مکینوں کو

وہ دہشت گرد بن جاتے ہیں،جن کے گھر نہیں رہتے

جھکا دے گا تیری گردن کو یہ خیرات کا پتھر

جہاں میں مانگے والوں کے اونچے سر نہیں رہتے

اور

یقین یہ رعایا بادشاہ کو قتل کردے گی

مسلسل جبر سے محسن دلوں میں ڈر نہیں رہتے

یہ آج کے پاکستان کا حال ہے۔مگر اس ساری صورتحال میں جو بات سب سے زیادہ پریشان کن ہے۔ وہ سیاستدانوں کی بے توقیری ہے۔مگر اس سے بھی زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ سیاستدان خود ہی ایک دوسرے کی بے توقیری کررہے ہیں۔گالی اور تضحیک کا کلچر عام ہوچکا ہے۔ایسی تلخ روایات متعارف کرادی گئی ہیں کہ سیاست ایک گالی بنتی جارہی ہے۔مگر قدرت کا بھی ایک قانون موجود ہے۔ مکافات عمل بہت خوفناک ہوتا ہے۔

آج جو بھی سیاستدانوں کو گالیاں دلوارہے ہیں یاپھر کسی کی اشیر باد پر چند نوزائیدہ سیاستدان انتہائی سینئر سیاستدانوں کے متعلق نازیبا الفاظ استعمال کررہے ہیں انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ یہ سب کچھ ان کی طرف واپس لوٹے گا۔آج جو کچھ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کے ساتھ ہورہا ہے،کل یہی سب کچھ پاکستان تحریک انصاف کے دوستوں کے ساتھ ہوگا۔عمران خان کو یاد رکھنا چاہئے کہ ہوا کسی کی نہیں ہوتی مگر تب بہت دیرہوچکی ہوگی۔آج جس طرح سے پنجاب کے صوبائی وزیر علیم خان کو گرفتار کیا گیا۔وہ نامناسب ہے۔گرفتاری سب سے انتہائی اقدام ہوتی ہے،جو کسی بھی شخص کے نقل و حرکت کے بنیادی اختیار کو سلب کردیتی ہے۔گرفتاری کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ ملزم کے فرار ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔عدالت بڑے سے بڑے مقدمے میں مضبوط ضمانتی مچلکوں کی وجہ سے ضمانت بھی اسی لئے لے لیتی ہے کہ عدالت کو یقین ہوجاتا ہے کہ یہ شخص فرار نہیں ہوگا۔جو ممبر صوبائی اسمبلی ہو ،پنجاب کا سینئر وزیر ہو،جس کا سب کچھ پاکستان میں اسٹیک پر لگا ہوا ہو۔اسے گرفتار کرلینا انتہائی نامناسب ہے۔سیاستدان کسی بھی جماعت کا ہو ،اس کے ساتھ ایسے سلوک کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔مگر افسوس کا مقام یہ ہے کہ سیاستدان خو د ہی ایک دوسرے کے خلاف سہولت کار بنے ہوئے ہیں۔ آج ملک میں سیاستدانوں کی ساکھ کو بری طرح سے خراب کیا جارہا ہے۔کوشش کی جارہی ہے کہ سیاستدانوں کی اس قدر بے توقیری کی جائے کہ لوگوں کا سیاست پر سے اعتماد اٹھ جائے۔لیکن ایک بات یاد رکھیں کہ اگر عوام کا سیاست پر سے اعتماد اٹھ گیا تو پھر کوئی بھی وقت کنٹرول نہیں کرسکے گا۔سیاستدان اچھے ہیں یا برے ہیں مگر یہ ریاست کا ایک مثبت چہرہ ہیں۔جب بھی غیر معمولی حالات بنتے ہیں ،یہی سیاستدان سامنے آکر ریاست اور ریاستی اداروں کا دفاع کرتے ہیں۔اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ جمہوریت یا پارلیمانی نظام کو لپیٹ کر کوئی نیا نظام متعارف کرایا جاسکتا ہے۔تو احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔آج مہذب دنیا بھی اس بات پر متفق ہوچکی ہے کہ جمہوریت ایک بہترین طرز حکومت ہے۔

سیاستدانوں میں لاکھ خامیاں ہونگی مگر مکمل ذات تو صرف اللہ رب العزت کی ہے۔اگر قیام پاکستان سے لے کر آج تک غلطیوں اور خامیوں کا تعین شروع کرنے کے لئے کمیشن بنادیا جائے تو سیاستدان فہرست میں سب سے نیچے ہوں گے۔ 1971میں جب دور آمریت میںپاکستان دو لخت ہوا تھاتوایک سیاستدان نے ہی شملہ معاہدے کے ذریعے ہمارے 90ہزار قیدیوں کو وطن واپس لانے کی راہ ہموار کی تھی۔یہی سیاستدان ہی تھے جنہوں نے اپنے اداروں کا نہ صرف دفاع کیا بلکہ ان کی ساکھ بحال کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

اس لئے ان سیاستدانوں کی قدر کریں۔اب بھی کبھی ان کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔کچھ نوزائیدہ اور کچھ سہولت کار سیاستدانوں کو بھی چاہئے کہ اب اپنی روش ترک کردیںاور سہولت کاری کے بجائے اپنی قبیل کا دفاع کریں اور اپنے ساتھیوں کو مضبوط کریں۔ایسا نہ ہو کہ آپ ایک دوسرے کی بے توقیری کرتے کرتے اس سسٹم سے ہی ہاتھ دھو بیٹھیں اور عوام کے لئے آپ لوگ ایک گالی بن جائیںاور پھر وہ وقت آئے گا کہ کوئی آپ کا مقدمہ بھی نہیں لڑے گا۔

تازہ ترین