• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مجھے یاد ہے کہ 1992میں نوازشریف کی حکومت کے دوران مجھے پشاور میں ڈائریکٹرایف آئی اے تعینات کیاگیاتھا، تب میں نے1994کاطالبان دورقریب سےدیکھا۔ اسی دوران وزیراعظم کےپرنسپل سیکریٹری ہونےکےناطےانورزاہدسیاسی اور انتظامی کام کررہےتھے۔ اس کےنتیجے میں افغانستان میں قومی حکومت چلانےکیلئےبطوروزیراعظم گلبدین حکمت یاراوربطورصدرملاربانی کی حکومت لائی گئی تھی۔ افغانستان میں اس تبدیلی کےدوران انورزاہدمجھ سےرابطےمیں رہے۔ مجھے دونوں(حکمت یار اور ملاربانی) سے ملنے کا موقع ملا اور مجھے پتہ لگاکہ دونوں ہی میں اتفاق نہیں ہے۔ تاہم یہ اتحادی حکومت اچھاکام نہیں کرسکی اس کی وجہ دونوں کے درمیان سیاسی مخالفت تھی۔ حکومت ناکام رہی تھی اور پورے افغانستان میں یہ سول نافرمانی کی طرح تھا۔ اسی دوران کندھارمیں ملاعمراپنےگروپس کےساتھ مزیدسرگرم ہوگئے۔ وزیراعظم اورصدرکےدرمیان مخالفت کافائدہ اٹھاتےہوئےملاعمرکی قیادت میں طالبان کہلانے والا ایک جنگجوگروپ سامنے آیا۔ اس وقت تک معین قریشی کی نگران حکومت نے مجھے پہلے ہی ایف آئی اے ہیڈکوارٹر میں ٹرانسفرکردیاتھا۔ پاکستان سےغیرقانونی امیگریشن کو کنٹرول کرنےکیلئےکچھ وائٹ کالرجرائم کی تحقیقات کرنےکی اضافی اسائنمنٹس کےساتھ مجھےڈائریکٹر امیگریشن اینڈاینٹی سمگلنگ تعینات کیاگیاتھا۔ عام اتنخابات کے بعد جنرل نصیراللہ بابرنےوزیرداخلہ کا قلمدان سنبھالااور انھوں نےمیری سرکاری ڈیوٹی کے ساتھ مجھےاپنے آفس کاکام بھی سونپ دیا۔ وزیرداخلہ کےساتھ میرےسرکاری تعلقات کے باعث میں نےغورکیاکہ افغان مسئلے کے حل میں ان کی خاص دلچسپی تھی۔ گلبدین حکمت یار، احمد شاہ مسعود، ملارزاق، ملابُرجان، ملاعمرسے جنرل نصیراللہ بابرکے قریبی تعلقات تھے۔ میں نےپشاورمیں حکمت یار اور ملا ربانی سےملاقات کی اور میں افغان لیڈرشپ کا پسِ منظراور وہاں ہونےوالی سازشوں سے آگاہ تھا۔ اسی دوران حکمت یار نے 1990کے اوائل میں اسامہ بن لادن سے دوستی کرلی لیکن بعد میں الگ ہوگئے جب انھیں پتہ لگا کہ اسامہ بن لادن ملا عمر کے نئےدھڑےکے قریب ہوگئے تھے۔ دوسری جانب جنرل بابرنےاس وقت کےانٹلیجنس ویلراور ڈیلرز کی مدد سےملا عمرکےگروپ کےساتھ اچھےتعلقات بنالیےتھے جس کےباعث وہ طالبان کےبانی ملاعمر کے قریب ہوگئےتھے۔ ایک شام مُجھے جنرل بابر کی کال آئی انھوں نے بلیوایریا میں نارکوٹکس ڈویژن میں ایک خاص میٹنگ میں شامل ہونے کاکہاتھا۔ میں اُس اجلاس میں شامل ہوااورجنرل بابرکے ساتھ ملا عمر سے ملا، اس کے بعد ملاعمر کے تحت طالبان قندھار میں پہلی بارمنظرِعام پرآئے۔ نئےبننےوالےافغان طالبان کےگروہ سے تعارف کیلئےجنرل بابرسفیروں کوسی-130میں اسلام آبادسےقندھارلےگئے۔ ایک امریکی سفیر بھی مذکورہ دورے میں موجود تھے ۔ ملاقات کیلئے لاجسٹکس کا انتظام کراچی سے کیاگیاتھااور کندھار میں پیش کیا جانے والا کھانا شاندارتھااور پھر دنیا نے ملاعمرکےتحت طالبان کےاقتدارکوابھرتےہوئے دیکھا۔ اسلام آباد میں خود پر ہوئے قاتلانہ حملے کےبعد افغانستان کےراستے جلا وطنی اختیار کرنےکےدوران میں نےجلال آباداورکابل میں طالبان کی مضبوط گرفت دیکھی تھی۔ میں نےپشاور سےایک معروف صحافی کے ساتھ سفر کیا۔ ایک چھوٹے سےدھڑےکاسربراہ ہونے کے باجود ملاعمر نے 1996 میں امارات اسلامیہ افغانستان کابانی ہونےکااعلان کردیا۔ طالبان نے انھیں ’’امیرالمومینین‘‘(مسلمانوں کا سپریم لیڈر) منتخب کیاتھا۔ پڑھنےوالوں کیلئےمیں ملاعمر کی مختصرتاریخ بتانا چاہتاہوں۔ وہ ایک غریب خاندان میں پیدا ہوئےاور ان کے کوئی سیاسی تعلقات نہیں تھے۔ وہ بہت چھوٹےتھےجب ان کے والد کا انتقال ہوگیاتوان کےچچانےان کی پرورش کی۔ افغانستان میں 1978 کےسوویت انقلاب کے بعد انھیں دوسرےبچوں کے ساتھ 1979میں پڑھائی کیلئے کراچی کےجامعہ علوم الاسلامیہ بھیج دیاگیا۔ سوویت قبضےکےبعداُن کا خاندان اُرزگان صوبےمیں تارینکوٹ چلاگیااور نوجوان عمرپرخاندان کی ذمہ داری تھی۔ وہ بے روزگارتھے لہذاوہ ملا بن گئےاورچند گائے کے ساتھ انھوں نےایک جھونپڑی میں اپنامدرسہ قائم کیا۔ آغاز میں انھوں نے حزبِ اسلامی(خالص) کےنائیک محمدکی زیرقیادت بطورباغی سپائی سوویت مخالف مجاہدین کے ساتھ لڑائی میں حصہ لیا۔ بعد میں وہ دوبارہ کراچی کی ایک مسجد میں آگئے جہاں وہ امامت کرایاکرتے تھے۔ جلدہی سوویت افغانستان سے نکل گیاتو انھوں نے مدرسے کے 50طلبہ کے ساتھ افغانستان سےاپنی تحریک کاآغازکیااوراس کےبعد12000لوگوں کو بھرتی کرلیا۔ میں نے کبھی نہیں سوچاتھاکہ یہ سادہ سا آدمی جس سے میں کالی پگڑی میں ملاقات کررہاہوں وہ طالبان کا امیربن کرابھرے گا اور حتٰی کہ طاقتور حقانی نیٹورک بھی اُس کے ماتحت ہوجائےگا۔ اسامہ بن لادن نےسوڈان سے واپسی پرملاعمرکےساتھ ملاقات کی اور ان کی بیعت کی اور القاعدہ اورطالبان کےدرمیان ایک نقطےپرحِکمت عملی تیارکی۔ 11ستمبرکےحملوں کےبعدجب عمرپراسامہ بن لادن کو پناہ دینے کاالزام لگا تو امریکی حکومت کیلئےوہ طالبان کےایک انتہائی مطلوب لیڈربن گئےجبکہ ملاعمرنےاپنی کابینہ کےمندرجہ ذیل ارکان کے ذریعے اپنی حکمرانی جاری رکھی، ان میں ملا اخترمنصوربطور(ڈپٹی لیڈر)، ملاعبدالغنی برادر بطور(ڈپٹی لیڈر)، مولوی عبدالکبیربطور(گورنرننگرہار)، ملاخیراللہ خیرخواہ(بطورگورنرصوبہ ہرات اور وزیرِ داخلہ)، ملاعبیداللہ بطور(وزیردفاع، ڈپٹی چیف)، مولوی احمد جان بطور(گورنرِ صوبہ زابل)۔ ان کے اقتدار کو متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور پاکستان نے تسلیم کیا۔ افغان طالبان منظم رہےاورامریکیوں سےلڑتےرہےاورحتٰی کہ ان کی لگائی گئی افغان حکومت سے بھی لڑتے رہے۔ حتٰی کہ سب سے زیادہ طاقتور بین الااقوامی فوجیں بھی انھیں ختم نہ کرسکیں۔ افغانستان میں امریکی حملے کےبعدملاعمر کی کابینہ کے زیادہ تر ارکان گرفتارہوگئےتھے۔ اُن میں سے زیادہ تر کو آنکھوں پر پٹی باندھ کر گوانتاناموبےلےجایاگیا جہاں ان پر بدترین تشدد کیاگیا لیکن طالبان کےعزم کو ہلایانہیں جاسکا۔ امریکا مذاکرات کرنے پر مجبورہوااورپاکستان نےطالبان کو مختلف مقامات پرمذاکرات کی میزپرلانے میں اپنا کردار اداکیا، ان میں جدہ، جرمنی، چین، پاکستان اور متحدہ عرب امارات اور بالآخرقطرشامل ہے۔ قطر میں ملاقات کےبعد امریکا اور طالبان کے درمیان حالیہ مذاکرات ابوظہبی میں ہوئے۔ خلیل زلمے کی زیرقیادت امریکی وفدنے ملابرادران اورملاعبدالسلام جن پر گوانتاناموبےمیں امریکی ٹارچرسیل میں تشدد کیا گیاتھا،کی زیرِقیادت طالبان سےملاقات کی۔ مذکورہ اجلاس میں انھوں نےاہم قیدیوں کے تبادلےاورایسےسیزفائرپربات کی جس میں بالآخر افغانستان سےامریکی فوجوں کاانخلاہوجائے۔ یہ امرقابلِ ذکرہےکہ طالبان یہ دیکھتے ہوئے کہ امریکاکوڈیل کرنےکی جلدی ہے، وہ اپنےمطالبات اورسوچ میں کم لچکدارتھے۔ طالبان نےسخت موقف لینے کے حوالےسےجان بوجھ کرامریکاکی کمزوریوں سےفائدہ اٹھایا۔ ایسالگتاہےکہ امریکاطالبان کااہم مطالبہ ماننےکےقریب ہےاوروہ یہ کہ امریکی فوج کاانخلاہوکیونکہ ٹرمپ انتظامیہ نےافغانستان سے 14ہزار فوجیوں میں سےآدھےفوجی نکالنےکافیصلہ کیاہے۔ اپریل 2019میں اقتدارکی منتقلی کیلئےمذاکرات کا دوسرااورتیسرا مرحلہ جنوری میں ہوا۔ اب تک طالبان نے امریکا کو بدلے میں کچھ نہیں دیاسوائے امریکی فوج کے انخلا کوتیز کرنے کےاپنےمطالبےپرزوردینےکے۔ حتٰی کہ انھوں نےافغان حکومت سےمذاکرات کرنےسےبھی انکارکردیاتھا۔ اِن مذاکرات کوحتمی نتائج تک پہنچانےکیلئےپاکستان نےاپناقابلِ تعریف کردار اداکیا۔ اس ناممکن کام کوکرنےکاسہراجنرل باجوہ اوران کی ٹیم کےسرہےکہ انھوں نےامن معاہدےکرنےمیں امریکااورطالبان دونوں کی مدد کی ، یہ بہت جلد حقیقت کا روپ دھارلےگا۔ اب ہم پاکستان کیلئےامریکی انتظامیہ اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لہجے میں مثبت تبدیلی دیکھ رہےہیں اور اس پیس پراسس کی کامیابی سے دنیابھر میں پاکستان کاامیج بہترہوگا۔ گزشتہ کئی سالوں سے مقامی اور بین الااقوامی فورمزپر اس بات کی پرچارکررہاہوں کہ افغانستان اسی صورت میں پُرامن ہوگاجب امریکی فوجیں افغانستان سے نکل جائیں گی۔ میں نے ریکارڈپر کہاتھا کہ امریکا کےپاس کوئی راستہ نہیں ہےسوائے افغانستان کو چھوڑنے کے۔ اب ڈونلڈ ٹرمپ کو مُلرانکوائری اوراِس جنگ پرمیں کسی کامیابی کے بغیرہونےوالےبےکارکےاخراجات پر عوامی دبائو کےبعد انھیں امریکی فوجوں کےانخلاءکےشدید دبائو میں دیکھا جاسکتاہے۔ امریکی انتظامیہ افغانستان میں ایک ایسی عبوری حکومت لانے کی کوشش کررہی ہے، جو موجودہ افغان حکومت کی پسند کے مطابق نہیں ہے۔ افغان طالبان کے ساتھ اس عمل میں صدر کرزئی کی انٹری کرزئی اور طالبان کے درمیان بنےوالی مستقبل کی اتحادی حکومت کاایک مضبوط اشارہ ہوسکتی ہے۔ کرزئی اس اتحاد کیلئے اچھے طالبان کے ساتھ اس وقت سےکوشش کررہے تھے جب وہ افغانستان کے صدر تھے۔ ایسا لگتاہے کہ صدراشرف غنی تنہاہوجائیں گےجبکہ صدرکرزئی کچھ دیگر دھڑوں بشمول جنرل دوستم کےساتھ آگے نکل جائیں گے۔ اس صورتحال میں پاورشیئرنگ فارمولےکیلئے کچھ انتظامات کرنے میں روس کا کچھ کردار ہوسکتاہے۔ اس سب کا انحصار اس پر ہوگا کہ صدر کرزئی کو امریکیوں کی جانب سے کتنی حمایت ملتی ہے کیونکہ اپنی حکومت کے آخری دنوں میں وہ امریکی حمایت کھوچکے تھے۔ یہ جنگ ٹی ٹی پی کے ذریعے ہمارے ملک میں بھی داخل ہوگئی تھی اور اس امریکی جنگ کے باعث ہماری معیشت کو 120ارب ڈالر کا بھاری نقصان ہوا۔ ہماری مساجد، سکول، کالجز، یونی ورسٹیوں اور سرکاری اور نجی اداروں پر حملے ہوئے۔ پشاور میں آرمی پبلک سکول پر ہوئے حملے میں تقریباً ڈیڑھ سو بچوں کو شہید کردیاگیا۔ کئی بار اقلیتوں کو نشانہ بنایاگیااور عالمی سطح پر ہمارے ملک کی ساکھ مجروح ہوئی۔ پاکستان اور بلیم گیم اور ڈرون دونوں سے نقصان ہوا کیونکہ اس جنگ میں یہ امریکا کی حمایت کررہاتھا لیکن اسےطالبان دھڑوں کی مبینہ حمایت کرنے کے الزامات کا بھی جواب دینا تھا۔ واشنگٹن سے ہمیشہ ہماری واپسی ان الزامات کے ڈھیراور ڈومور کے مطالبات کےساتھ ہوئی۔ مجھے امید ہے کہ افغانستان میں امن سے پاکستان کے لوگوں کو سکھ کا سانس لینا نصیب ہوگا۔ امریکا طالبان کو یہ قائل کرنے میں کامیاب رہاہے کہ بگرام اور شورابک میں دوفوجی اڈےامریکا کے کنٹرول میں رہیں گے، یہ اس بات کا مضبوط اشارہ ہے کہ امریکیوں نے’کچھ لینےاوردینے‘ پر افغانستان کاکنٹرول طالبان کےحوالے کرنےکافیصلہ کرلیاہے۔ تاہم دوسری جانب طالبان افغانستان سےمکمل امریکی فوج کےانخلا کے اپنے مطالبےپرقائم ہیں تاکہ اپنے ملک میں ملاعمرکےنظریات پرطالبان کی حکمرانی دوبارہ قائم کی جائے۔ دنیا تاحال پریشان ہے کہ جب عالمی برادری کی اکثریت نے امریکاکوافغانستان پرحملہ کرنےسےمنع کیاتھاتوکیوں امریکانے افغانستان پر حملہ کیا۔ جلاوطنی میں رہتے ہوئے میں ان کاوشوں کا عینی شاہد ہوں۔ شہید محترمہ بےنظیربھٹوبھی افغانستان پر حملے کی حامی نہیں تھیں اور میں نے ان کےمشورے کےمطابق ایک سفیراور سعودی لیڈرشپ کےذریعےاس حوالے سےایک قدم اٹھایاتھا۔ وہ ملا عمر کی کابینہ کے کئی ارکان کے قریب تھے۔ مذکورہ دوست اور یورپ اور امریکاکےنمائندوں نے بحرین میں ملاقات کی جہاں میں بھی موجود تھا۔ یورپ حملے کے خلاف تھا اور سعودی عرب بھی حملے کے حق میں نہیں تھا وہاں حملے کو روکنے کیلئے مذاکرات کی راہ نکالی گئی تھی۔ ہم دونوں کو48گھنٹے بعدشام کو یورپی نمائندوں نے بتایاتھاکہ امریکانے طالبان کی پیش کش ٹھکرادی تھی اور کچھ بھی ہوجائے امریکانے افغانستان پر حملے کا فیصلہ کرلیاہے۔ میں کہہ سکتا ہوں کہ بالکل اسی طرح سے حملہ کرنے کیلئے پُرعزم تھا جس طرح غلط انٹلیجنس پر عراق پر حملہ کیاگیاتھا۔ اس وقت ہونے والی کئی پیش رفتوں کا میں خود عینی شاہدہوں۔ میری خواہش ہے کہ افغانستان پر حملے سے پہلے امریکا نے طالبان سے مذاکرات کی تجویز مان لی ہوتی کیونکہ اس سے وہ نہ ختم ہونےوالےنقصان سےبچ جاتے۔ اگلے روزمیں دبئی گیااورشہیدمحترمہ بےنظیر بھٹو کوامریکیوں کےفیصلےسےآگاہ کیا اوروہ بھی یہ جان کرکافی مایوس ہوئیں۔ ایک ہفتےبعددنیانےدیکھاکہ امریکانےافغانستان پرحملہ کردیا۔ عالمی طاقتوں کے کچھ اور ہی مقاصدتھے اور اس کے بعد ہم نے عرب سپرنگ پر ساری مسلم دنیا کو مشکل میں پڑتے دیکھا، لیبیاکی حکومت گی، مصری سانحہ، عراق میں بھی حکومت گِری اور پھر شام میں خانہ جنگی ہوگئی۔ میں نے دیکھتاہوں کہ وہ ہی سٹیک ہولڈرز اور وہ ہی ممالک طالبان اور عالمی طاقتوں کے درمیان مذاکرات کی گیم میں بھی شامل ہیں۔ میں اس خطے میں فوری طورپر امریکی فوج کے انخلا کو تبدیل ہوتے ہوئے دیکھتاہوں۔ اب دیکھتے ہیں کہ سی آئی اے کی جانب سےکافی عرصہ قبل لکھے گئے سکرپٹ پر اب عمل کیاگیا۔ عراق اور افغانستان میں 7ہزار فوجی کھونےکےبعد صدرڈونلڈ ٹرمپ بظاہر فوجی انخلاکیلئے پُرعزم نظرآتے ہیں کیونکہ امریکی عوام بیرونِ ملک مزید امریکی فوجیوں کی موت نہیں چاہتے۔ یہ دنیا جلد اتحادی طالبان کی حکومت کو تسلیم ہوتا ہوادیکھے گی جہاں اہم سٹیک ہولڈرز وہ طالبان ہوں گے جو ماضی میں امریکی فوجیوں کی حراست میں رہ چکے ہیں۔ بدقسمتی سے طالبان کی متوقع اتحادی حکومت کےباوجودطالبان حکومت کیلئےسب سےبڑاچیلنج داعش کی موجودگی اوران کےاثرکوروکناہوگا جسے پہلے ہی افغانستان میں پلانٹ کیاجاچکاہے۔ ماضی کے برعکس اس بار داعش کافی منظم اورطاقتور ہوگی جواس خطےمیں القاعدہ سےبھی زیادہ خطرناک طاقت بن کر ابھرےگی۔ یہ عمل نہ صرف پاکستان کیلئے خطرناک ہوگا بلکہ چین سمیت پورے خطے کیلئے خطرناک ہوگا۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ کیا طالبان داعش کے ساتھ ہاتھ ملائیں گے یا داعش ایک اور گوریلا جنگ شروع کرےگی۔ امن کے قیام میں پاکستان کے کردار پر بات کرتے ہوئے میں قریب سے اس امن عمل میں پیش رفت دیکھ رہاہوں اور آیئےتسلیم کریں کہ جنرل قمرجاوید باجوہ نے ایک خاموش ثالث کا کردار اداکیاہےاور یہ ایک ماہرانہ مینجمنٹ تھی جو طالبان کو مذاکرات کی میز پر لے آئی۔ ایسا لگتاہے کہ جنرل باجوہ امریکا سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کو اس بات پر قائل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں کہ افغانستان میں امن پاکستان کیلئے اہم ہے۔ میں خود ذاتی طورپر زلمے خلیل زاد کوجانتاہوں جو ایک قابل سفارتکارہیں اور مجھے لگتاہےکہ وہ بھی اس معاملے پر پاکستان کے ہم خیال ہیں کیونکہ وہ اس خطے کواچھی طرح جانتے ہیں اور وہ پاکستان کے کردار کی تعریف کرچکے ہیں۔ اس نیک مقصد میں کامیابی کیلئے میں ان کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کرتاہوں۔ پاکستان کو پختہ یقین ہے کہ جنگیں لوگوں کیلئے موت، تباہی اور بدحالی کا باعث بنتی ہیں۔ بالآخر میزپرمذاکرات کےذریعےاس امید کےساتھ تمام معاملات حل ہونےوالےہیں کہ خطے میں امن آئےگا۔ پاکستان مختلف محاذوں پر شدت پسندی سے لڑرہاہے لہذا بھارت کو مت بھولیےجو ہمیشہ پاکستان اور جزوی طورپر چین کےخلاف سردجنگ کیلئےتیارہے۔ امید ہے کہ ہم بھی ٹی ٹی پی کو تشدد کا راستہ چھوڑ کر مرکزی دھارے میں شمولیت کیلئے قائل کرلیں گے اور یہ ضروری نہیں کہ یہ میری پارٹی کے نظریات ہوں۔ مزیدبرآں، امید ہے اور دعا ہے کہ یہ خطہ مزید’’امریکی ڈاکٹرائن‘‘سےآزاد ہوجائے۔

تازہ ترین