• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:مفتی محمد حامد…کارڈف
آپ مورخہ 25مارچ 1867بروز ہفتہ واں بھچراں ضلع میانوالی(پنجاب )کے ایک زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئے والد کا نام محمد تھا جو حافظ قرآن تھے بعض حضرات نے مولانا کی قوم میانہ لکھی ہے اور بعض نے اعوان بتائی ہے۔ و اللہ اعلم ۔ابتدائی تعلیم عربی فارسی کی کتابیں گھر پر اپنے والد ہی سے پڑھیں ۔منطق کی کتابیں شادیہ تلبریاں(ضلع میانوالی)میں مولانا غلام نبی اور مولانا سلطان احمد سے پڑھیںاٹھارہ سال کی عمر میں دورہ حدیث کے لیے ہندوستان کا سفر کیا اور محدث وقت۔قطب الاقطاب۔ حضرت مولانا رشید احمدگنگوہی رحمہ اللہ کے پاس حاضر ہوئے یہ ایسا وقت تھا جب اسباق شروع ہو چکے تھے اور طلباء میں کتابیں تقسیم ہوچکی تھیں اور ان کی خوراک و رہائش کا انتظام مختلف گھرانوں میں ہو چکا تھا۔ اس بناء پر حضرت گنگوہی رحمہ اللہ نے شریک درس کرنے سے معذرت کر لی مگر یہ خیال کر کے کہ طالب علم بہت دور سے آیا ہے۔ آپ نے ان کو دو شرائط پر شریک درس ہونے کی اجازت دے دی۔ (1)طالب علم کو خوراک کا بندوبست خود کرنا ہوگا(2)مطالعہ کتب کے لیے کسی ساتھی طالب علم سے شراکت کرنا ہوگی ۔چند دنوں بعد جب استاد محترم حضرت گنگوھی رح پراس نوجوان پنجابی طالب علم کی ذہانت کا عقدہ کھلا تو اپنی ذاتی کتابیں مطالعہ کے لیئے فراہم کر دیں اور اپنی بیٹی کے گھر سے کھانے کا بندوبست کر دیا۔ دوران سبق کتاب سے عبارت پڑھنا بھی آپ کی ذمہ لگائی گئی۔حضرت گنگوہی رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ میں نے اپنی پوری زندگی میں ان سے بڑھ کر ذہین و محنتی طالب علم نہیں دیکھا ۔یہ روایت بھی سننے میں آئی ھے کہ حضرت گنگوہی رحمہ اللہ نے اپنے حلقہ خاص میں بارہا فرمایا کہ اس مرتبہ کا دورہ حدیث تو اس پنجابی طالب علم(حسین علی ) کے لیے پڑھا رہا ہوں ۔حضرت گنگوہی رحمہ اللہ نے ہدایت کی کہ سہارنپور جا کر حضرت مولانا مظہر نانوتوی رحمہ اللہ سے قرآن پاک کا ترجمہ اور تفسیر پڑھیں چنانچہ حضرت شیخ محترم کے حکم کی تعمیل میں سہارنپور کے مدرسہ مظاہرالعلوم میں حاضر ہو کر ایک سال تک ترجمہ و تفسیر قرآن پڑھی ۔سہارنپور سے کانپور تشریف لے گئے جہاں فلسفہ منطق اور فنون کے حوالے سے حضرت مولانا احمد حسن کانپوری رحمہ اللہ کی ذات مرجع خلائق تھی۔ یہاں آپ نے بیس کتابیں ایک سال میں پڑھیں ۔کانپور سے اسی سال دوبارہ حضرت گنگوہی رحمہ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے ان کے خاص طرز پر ترجمہ و تفسیر پڑھی اسی طرح آپ 1889میں واپس آئے ۔1889میں وطن واپسی کے بعد آپ نے اپنے آبائی قصبہ میں قرآن پاک کے ترجمہ و تفسیر کا آغاز کیا شروع شروع میں آپ صرف ونحو اور فنون کی کتابیں پڑھایا کرتے تھے مگر کچھ عرصہ بعد خود کو قرآن پاک کے ترجمہ و تفسیر اور تدریس حدیث کے لیے وقف کر دیا ۔(بیعت و خلافت) 1893میں آپ کو حضرت خواجہ محمد عثمان موسی زئی شریف کی طرف سے بیعت و خلافت سے نوازا گیا ۔حضرت مولانا حسین علی الوانی رحمہ اللہ نے مجلس وجلسہ،درس ووعظ حتی کہ نجی محفلوں میں بھی تمام انبیاء علیہم السلام کے مشترکہ مشن مسئلہ توحید کے بیان کو اپنا شعار بنا لیا۔ حضرت صاحب مرحوم و مغفور اللہ تعالٰی کی توحید خالص کی تبلیغ و اشاعت اور دعوت الی القرآن کے میدان میں آٹھویں صدی ہجری کے عظیم مبلغ و مصلح شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور مجاھد و شھید فی سبیل اللہ۔ حضرت مولانا سید شاہ اسمعیل شہید رحمہ اللہ کے نقش قدم پر تھے ۔توحید و سنت کی اس طرح واشگاف دعوت اور شرک و بدعت کی اتنی بھر پور مذمت پہلے کبھی نہ ہوئی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ شہر کے لوگ عداوت پر اتر آئے کئی بارتو جان سے مارنے کی کوشش کی گئی حتی کہ حضرت صاحب رح کا گھر بار جلانے کا منصوبہ بھی بنایا گیا ،ان حالات میں مولانا نے سنت نبوی کے تقاضوں کے عین مطابق اپنے شہر سے نقل مکانی کر کے تقریبا دو میل دور اپنی زمینوں میں مکان بنا کر وھاں رہائش اختیار کر لی اور ساتھ ھی مسجد اور طلباء کرام کی رہائش کے لیئے کمرے بھی بنائے ۔مولانا حسین علی رحمہ اللہ جو ہمارے اساتذہ کے استادوں کے بھی استاد ھیں۔یعنی قرآن مجید کے ترجمعہ و تفسیر میں ھمارے پردادا استاد ھیں ۔کے متعلق وقت بڑے بڑے شیوخ کیا فرماتے تھے ملاحظہ فرمائیں ( 1 ) ہمارے دور کے نقشبندی مجددی سلوک کے امام اور سب سے بڑے شیخ ہیں(از امام العصر محدث وقت علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ ) (2 ) ہم مولانا حسین علی رحمہ اللہ کو اپنا بزرگ مانتے ہیں(شیخ الاسلام حضرت مدنی رحمہ اللہ ) ( 3 ) انجمن خدام الدین کے جلسوں میں دیگر علماء کو عوام کے فائدے کے لیئے اور مولانا سید انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ اور مولانا حسین علی رحمہ اللہ کو علماء کے استفادے کے لیئے دعوت دیتا ہوں(شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمہ اللہ ) ( 4 ) مولانا حسین علی کا کیا پوچھتے ہو وہ پنجاب کے شاہ عبد القادر رحمہ اللہ تھے(امیر شریعت سید عطاءاللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ )۔ (حضرت صاحب رحمہ اللہ کی تصانیف) (1)بلغھالحيران في ربط آیات القرآن(2) البیان فی ربط القرآن( المعروف تفسیر بے نظیر )(3)تلخیص الطحاوی (4) تقریر الجنجوہی علی صحیح بخاری( 5 ) تقریر الجنجوہی علی صحیح مسلم (6)عون المعبود علی سنن ابو داود( 7) تحریرات حدیث( 8 )رسالہ جریدتین (9 )خلاصہ فتح القدیر (10) رسالہ علم غیب (11) تحفہ ابراہیمیہ( 12 )حواشی فوادعثمانی ۔
(حضرت مولانا حسین علی الوانی رحمہ اللہ سے کسب فیض کرنے والے چند مشہور و معروف شاگردوں کے نام ہیں 1 شیخ القرآن حضرت مولانا غلام اللہ خان رحمہ اللہ 2حافظ الحدیث والقرآن حضرت مولانا عبداللہ درخواستی رحمہ اللہ 3 پیر طریقت حضرت مولانا سید عنایت اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ 4 پٹھانوں کے شاہ ولی اللہ شیخ الحدیث حضرت مولانا نصیرالدین غورغشتوی رحمہ اللہ 5شیخ القرآن حضرت مولانا محمد طاہر پنج پیری رحمہ اللہ 6 عارف بااللہ حضرت مولانا قاضی نور محمد رحمہ اللہ 7 استاد المحدثین حضرت مولانا قاضی شمس الدین رحمہ اللہ 8 شیخ القرآن حضرت مولانا عبداللہ بہلوی رحمہ اللہ 9شیخ التفسیر حضرت مولانا امیر بندیالوی رحمہ اللہ 10استاد الاساتذہ حضرت مولانا غلام رسول رحمہ اللہ(انہی والے بابا)11 محسن دیوبندیت شیخ الحدیث حضرت مولانا سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ 12حضرت مولانا ولی اللہ رحمہ اللہ(انہی والے) 13حضرت مولانا محمد شاہ جہلمی رحمہ اللہ 14 حضرت مولانا سید احمد رضا بجبوری رحمہ اللہ 15ریئس المناظرین حضرت مولانا منظور نعمانی رحمہ اللہ ۔ان کے علاوہ مولانا کے ہزاروں شاگرد اور مریدین ہیں ۔آج پاکستان کے کونے کونے میں دورہ تفسیر قرآن مجید کے جو سلسلے جاری ھیں وہ بطرز حضرت مولانا حسین علی صاحب رح پڑھائے جاتے ہیں 1940 کے عشرے کے آغاز میں حضرت صاحب مرحوم کی عمر 70 سال سے تجاوز کرچکی تھی چنانچہ زندگی کے آخری دو تین سال علالت میں گزارے، ایک بار علاج کی غرض سے لاہور لے جایا گیا وہاں طبیعت پر زیادہ بوجھ پڑا فرمایا مجھے واپس لے چلو میں یہاں ٹھیک نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ گائوں واپس چلے گئے، آپ کے تلمیذ رشید حضرت مولانا قاضی شمس الدین رحمہ اللہ نے علاج کے لیئے ایبٹ آباد جانے کا مشورہ دیا تو فرمایا سبحان اللہ۔ یہ وقت مکہ مدینہ جانے کا ہے یا ایبٹ آباد جانے کا ؟چنانچہ اسی بیماری میں وقت آخریں آپنہچا اور سوموار کی رات 25جون 1944واں بھچراں کی اسی صحرائی درسگاہ میں اس عالم ربانی، واقف اسرارحقانی، ماھر رموز قرآنی ۔ حامی توحید وسنت، ماحی شرک و بدعت ۔ عظیم مفسر و محدث مفسر نے انتقال فرمایا، اگلے روز نماز جنازہ ادا کی گئی حضرت صاحب مرحوم کے شاگرد خاص جنہوں نے آپ رح سے حاصل فیض قرآن کو تین جلدوں میں تفسیر جواھر القرآن کے نام سے جمع کیا اور رھتی دنیا تک اپنے عظیم استاد اور اپنے لیئے صدقہ جاریہ چھوڑا ھے ۔میری مراد۔استاد الاساتذہ۔ ضیغم اسلام۔ شیخ القرآن حضرت مولانا غلام اللہ خان رحمہ اللہ۔بانی و مہتمم دارالعلوم تعلیم القرآن راجہ بازار راولپنڈی ھیں۔جنہوں نے آپ کی نماز جنازہ کی امامت کی۔انا لله وإنا إليہ راجعون: کہا جاتا ھے کہ حضرت مولانا حسین علی الوانی رح فناء فی التوحید تھے۔قرآن مجید کی ھر آیت سے اثبات توحید کرنا آپ کا خداداد کمال تھا۔رحمہ اللہ رحمت واسعہ ۔
تازہ ترین