”لانگ مارچ کے لئے میری بیوی اور بیٹیوں نے اپنے سونے کے زیور بیچ دئیے ہیں ۔ اور اب وہ اپنا مکان فرخت کر نے کی تیاری کر رہی ہیں۔“
یہ فرمایا ہے شیخ الاسلام علامہ پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنی پریس کانفرنس میں ۔اخباروں کی خبر یہ ہے کہ جس لمحے وہ یہ اعلان فر ما رہے تھے اس وقت انہیں ایک پھریری سی آئی اور شدت جذبات سے ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔اب چونکہ شیخ الاسلام یہ فر ما رہے ہیں اس لئے یہ غلط نہیں ہو سکتا ۔ان کے خاندان کے تمام زیور سناروں کی دکانوں پر پہنچ گئے ہوں گے اور ان کے گھر پر” برائے فروخت “کا کتبہ آویزاں ہو گیا ہو گا ۔اور دو دن بعد کارکنوں کے کنونشن میں ہم نے دیکھا بھی کہ دیکھتے ہی دیکھتے علامہ صا حب کے سامنے زیورات اور پانچ پانچ سو اور ہزار ہزار کے نوٹوں کے ڈھیر لگ گئے ۔ وہ اپنے پیرو کاروں سے پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اپنی مو ٹر سائکلیں بیچ ڈالو، اپنے گھر فروخت کردو اور اپنے تمام اثا ثے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ پر قربان کردو ۔ عورتوں کے لئے اپنے زیور بیچنا اور گھر والوں کے لئے اپنے گھر بیچ ڈالنا آسان کام نہیں ہے ۔انہیں علامہ صاحب کی بات پر ایمان کی حد تک یقین ہو گا تبھی تو وہ ایسا کر نے پر آمادہ ہو گئے ہیں ۔ انہیں پورا یقین ہو گا کہ اسلام آباد پر ان کا دھاوا کلی طور پر کامیاب ہو گااور شیخ الاسلام اپنے مقصد میں کامیاب ہو جا ئیں گے ۔ اب ان کا مقصد کیا ہے ؟ یو ں تو انہوں نے فرمایا ہے کہ ان کا مقصد الیکشن سے پہلے انتخابی اصلاحات کرانا اور ایسی نگراں حکومت قائم کرانا ہے جس کے لئے فوج اور عدلیہ سے بھی مشورہ لیا جا ئے ،لیکن انہوں نے اسی پریس کانفرنس میں یہ بھی اعلان فرما دیا ہے کہ اگر عوام انہیں مجبور کر یں گے تو وہ خود ہی نگراں وزیر اعظم بننے کا چیلنج قبول کر لیں گے ۔اب انہیں مجبور کر نے والے یہ عوام کون ہوں گے ؟ ظاہر ہے ان کے وہی پیروکار ہوں گے جنہوں نے شیخ الاسلام کے جلسے اور لانگ مارچ کو کامیاب بنا نے کے لئے اپنا سب کچھ قربان کر دیاہے یا اس وقت تک قربان کر چکے ہوں گے ۔ہم اور ہمارے قانونی اور آئینی ماہرین خواہ کچھ بھی کہتے رہیں اور وہ علامہ صاحب کی دوہری شہریت اور صادق و امین ہو نے کی شرط ہمیں کتنی ہی یاد دلاتے رہیں ،جب اسلام آباد پر دھاوا بولنے والا شیخ الاسلام کے پیرو کاروں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر انہیں نگراں وزیر اعظم مقرر کر دے گا تو پھر کسی کی کیا مجال ہے کہ وہ ان کے سامنے سر تسلیم خم نہ کرے ۔چلئیے، ہم مانے لیتے ہیں کہ یہ بات علامہ صاحب نے روا روی میں کہہ دی ہو گی کیونکہ دو دن بعد انہوں نے اعلان کر دیا کہ وہ وزیر اعظم نہیں بنیں گے، لیکن جب تک کسی شخص کے دل و دماغ کے کسی کونے کھدرے میں کوئی بات نہو اس وقت تک اس کے منہ سے ایسی بات نہیں نکلا کر تی ۔ آخر پہلے ان کے منہ سے یہ بات کیوں نکلی تھی کہ وہ وزیر اعظم بننے کا چیلنج قبول کر لیں گے ۔ اب یہ علامہ صاحب بر سوں بعد اچانک پاکستان پر کیسے نازل ہو گئے ہیں؟ َ اس کے لئے ہمارے دوست خالد احمد(اردو شاعر نہیں انگریزی والے ) کچھ اور ہی خبر لائے ہیں ۔ ان کا بیان ہے کہ کینیڈا میں علامہ صاحب کے پاس اتنا سرمایہ جمع ہو گیا تھا کہ اسے وہاں کی حکومت کی نظروں سے بچانا مشکل ہو گیا تھا ۔ یہ توٓآپ جانتے ہی ہوں گے کہ مغربی ملکوں میںآ پ اپنا سرمایہ چھپا نہیں سکتے ۔ اور آپ کے پاس جتنا سر مایہ بڑھتا جا ئے گا اتنا ہی اس پر ٹیکس بھی بڑھتا جا ئے گا ۔اور پھر ایک وقت ایسا بھی آجا ئے گا کہ آپ کی آمدنی کا زیادہ حصہ ٹیکس کی نذر ہو جا ئے گا ۔
دنیا بھر میں علامہ طاہر القادری کے ہزاروں مدرسے اور دوسرے تعلیمی ادارے ہیں۔ ان ملکوں میں ان کے عقیدے مندوں کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے ۔ ظاہر ہے اسی حساب سے ان کی آمدنی بھی ہو گی ۔ یہ آمدنی بلا شبہ جا ئز اور قانونی ہے ۔ان کے عقیدت مند انہیں نذرانہ دیتے ہیں تو وہ لیتے ہیں ۔ یا پھر تعلیمی اداروں سے ان کی آمدنی ہوتی ہے ۔ لیکن کینیڈا کے قانون کے مطا بق اس سرمایہ کی بھی ایک حد ہوتی ہے ۔کہتے ہیں وہاں علامہ صاحب تفتیش کی زد میں آگئے تھے ۔ خالد احمد کا تو یہ بھی خیال ہے کہ علامہ صاحب کی وجہ سے کینیڈا میں رہنے والے باقی پاکستانی بھی قانونی تفتیش کی زد میں آسکتے ہیں (دیکھئے فرائیڈے ٹائمز) ۔ اب اس بات میں کتنی حقیقت ہے َ ؟ یہ خالد احمد جانیں یا علامہ صاحب ، ہم نے جو پڑھا وہ نقل کر دیا ہے ۔ اور صورت حال خطر ناک بھی ہے ۔ لاکھوں انسانوں کا ہجوم جب اسلام آباد پر دھاوا بو لے گا تو وہ شہر اور اس شہر کی انتظامیہ اسے کیسے سنبھالے گی ؟۔یہ سب سے بڑا سوال ہے ۔ اور یہ ہجوم چند گھنٹے یا ایک دو دن کے لئے وہاں اکٹھا نہیں ہو گا بلکہ علامہ صاحب کے بقول جب تک ان کے مطالبات پورے نہیں ہوجا ئیں گے اس وقت تک اس شہر کا محا صرہ جاری رہے گا۔اس حالت میں حکومت کیا کرے گی؟ یاحکومت نے اس کے لئے کیا انتظام کیا ہے ؟ یہ ابھی تک ہمارے سامنے نہیں آیا ۔ لیکن اتنا ضرور ہے کہ حکومت کی طرف سے ایسا کوئی اشارہ نہیں ملا ہے کہ وہ اس لا نگ مارچ کی راہ میں کسی قسم کی رکاوٹ کھڑی کرے گی ۔ اورعقل مندی بھی یہی ہے کہ کوئی رکاوٹ نہ ڈالی جائے ۔ بہر حال ،ہمیں تو علامہ طاہر القادری کا شکریہ ادا کرنا چاہئیے کہ انہوں نے پاکستان آکر تمام جمہوری قوتوں کو اکٹھا کر دیا ہے ۔ اب کوئی بھی جماعت ایسی نہیں ہے جو انتخابات کے سوا کوئی دوسرا راستہ اختیار کرنے کی بات کر رہی ہو ۔عمران خاں نے بھی علامہ صاحب کے لانگ مارچ میں شریک ہونے سے انکار کر دیا ہے ۔ اب رہی ایم کیو ایم ؟ تو اسے کراچی سے باہر قدم جمانے کے لئے کوئی بھی پلیٹ فارم چا ہئیے ۔کچھ نہیں تو علا مہ طاہر القادری کا لانگ مارچ ہی سہی ۔ پھر وہ حکومت سے باہر بھی تو نہیں رہ سکتی ۔ہمارے لئے تو یہی اچھی بات ہے کہ ہمارے وہ ادارے بھی انتخابات کی ضمانت دے رہے ہیں جو آج تک حکومتیں بناتے اور بگاڑتے رہے ہیں ۔ ایک خبر یہ بھی ہے کہ حکومت اور میاں نواز شریف کے درمیان نگراں وزیر اعظم کے نام پر اتفاق ہو گیا ہے اور جنوری کے دوسرے ہفتے میں نگراں وزیر اعظم کے نام کا اعلان بھی کر دیا جا ئے گا ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اگرواقعی علامہ صاحب کے لانگ مارچ سے پہلے اس کا اعلان ہو جا ئے تو پھر علامہ صاحب کیا کریں گے ؟۔ اوراگر علامہ صاحب واقعی ر نگ میں بھنگ ڈالنے آئے ہیں تو پھر اس قوم کا اللہ ہی حافظ ہے ۔ بہر حال، قوم کو سکون چا ہئے ۔ اور یہ سکون نئے انتخابات سے ہی مل سکتا ہے ۔