تحریر: قاری محمد عباس…بریڈفورڈ اس واقعہ کےذمہ دار کون ہیں جے آئی ٹی نے سی ٹی ڈی اہل کاروں کو قصوروار قرار دے دیا سی ٹی ڈی اہلکاروں کی فائرنگ سے چار افراد کے بہیمانہ قتل عمد اور دل خراش واقعہ پر پوری پاکستانی قوم دُکھ اور صدمہ میں مبتلا ہے مقتولین کے ورثاء پر ایک قیامت کا سا سماں ہے پولیس کی اس بربریت پر جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے پاکستانی پولیس کی مثال بپھرے ہوئے بدمست ہاتھی بے لگام گھوڑے اور شُتر بے مہار کی سی ہے کہ جس طرف بھی منہ اُٹھتےہیں تباہی اور بربادی مچا دیتے ہیں اگر حکومتیں اور اعلی عدالتوں کے چیف جسٹس حضرات اس سے پہلےکرپٹ اور جعلی مبینہ پولیس مقابلوں کے سرغنہ ماسٹر مائنڈ راؤ انوار 442بےگناہ اور معصوم لوگوں کے قاتل اور اس جیسے دیگر پولیس افسروں کو قرار واقعی سزا دی گئی ہوتی اور انسانیت کی بقا کیلئے نشان عبرت بنایا گیا ہوتا تو کوئی پولیس اہلکار آئندہ مظلوم بے گناہ لوگوں اور نہتے شہریوں کو ظلم و بربریت کا نشانہ بنانے کی جرأت نہ کرتا اس شرمناک سانحہ ساہیوال نے دنیا میں پوری پاکستانی قوم کے سروں کو شرم سے جھکا دیا ہے ہر آنکھ اشک بار اور دل سوگوار ہے اورپوری پاکستانی قوم اس صدمہ کی وجہ سے مغموم و پریشان ہے پولیس کی طرف سے اس قدر بے حسی اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا گیا کہ بچوں کے سامنے ان کے والدین کو انتہائی بےدردی اور سفاکی سے قتل کر دیا گیا پھر پولیس اور وزراء کی طرف سے مقتولین پر بہتان تراشی اور دہشت گردی کے ساتھ جوڑنے پر مزیدصدمہ اور دُکھ ہوا اورایک وزیر کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ کار سے خود کُش جیکٹ اور اسلحہ برآمد ہوا کبھی یہ کہ پولیس مقابلہ کیا گیا درندوں نے انسانیت کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں اس مُلک کی پولیس نےمعصوم شہر یوں کی جان مال کی حفاظت کی بجائے قتل کے لائسنس اور پروانے ہاتھوں میں تھام رکھے ہیں موجودہ حکومت کو چاہئے کہ ان قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچائیں وزیراعظم سے اپیل ہے کہ وہ قاتلوں کی حمایت میں وزراء کے بیانات کا سختی سے نوٹس لیں جن میں دہشت گردوں کی پشت پناہی پنجاب کےوزیر کرتے نظر آ رہے ہیں اور قاتلوں کی حمایت میں اُن کو بچانے کیلئے کھلے عام جواز پیش کر رہےہیں کہ مرنے والے افراد بے قصور تھے اور آپریشن سو فیصد درست تھا یعنی مارنے کا عمل درست تھا عجیب منطق اور فلسفہ ہے اس احمقانہ اور جاہلانہ مؤقف کو کوئی بھی باشعور انسان تسلیم نہیں کرسکتا یہ قوم کے ساتھ ایک سنگین مذاق اور انسانیت کی تذلیل ہے اس حکومت نے جے آئی ٹی کا ڈرامہ رچا کے قتل کے ذمہ داران کو بچانے اور فائدہ پہنچانے کی کوشش کی ہے تاکہ سزا کے عمل سے قاتلوں کو بچایا جا سکےاور کہا گیا کہ مرنے والے چاروں کا نام ریڈ بُک کے اندر تھا اور یہ بھی کہا گیا کہ موقعے پر مزاحمت ہوئی اور دو دہشت گرد موٹر سائیکل پر سوار تھے وہ بھاگ گئےوہاں سے دو خود کُش جیکٹ اور آٹھ گرنیڈ اس کے علاوہ دو پستول اور گولیاں بھی ملی ہیں جے آئی ٹی نے کورٹ سے مقتول ذیشان کے بارہ میں دہشت گردی کے ثبوت اکٹھے کرنے کیلئے تیس دن کی مہلت مانگی اور وزیرایک دن کی مہلت مانگ رہا تھا یہ لوگ دنیا کو کیا بتانا چاہتے ہیں شاید دنیا کا یہ واحد اور پہلا دہشت گرد ہو گا جس کو مارنے کے بعد جے آئی ٹی کسی نہ کسی طریقے سے دہشت گردوں کے ساتھ تعلق جوڑنے کی کوشش کر رہی ہے اس ریاست مدینہ بنانے والوں کو اللہ عقل سلیم عطاء فرمائے باقی پاکستانی پو لیس کی کھلے عام درندگی یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے آئے دن پولیس قتل کرنے کے بعد مقتولین کودہشت گرد ڈاکو اور پولیس مقابلہ قرار دے کے اسلحہ وغیرہ ان کے کھاتے میں ڈال دیتی ہے جس طرح شہداء ساہیوال کے بارے میں کہا گیا۔حکومت کو چاہئے کہ خصوصی طور پر پنجاب میں پو لیس کی تربیت اور اصلاحات کیلئے انتظامات کرے اور ان کے اخلاقیات کی درستگی کو ترجیحی بنیادوں پر عمل میں لایا جائے تاکہ قوم کے خادم بن کر عوام کی خدمت کریں نہ کہ فرعون اور جابر ظالم بن کر لوگوں کی زندگیوں کے فیصلے کریں یہ کس قانون کے تحت اپبے بچوں کے ساتھ راہ چلتے نہتے مسافروں کو بغیر ثبوت اور تحقیق کیئے بغیر موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا اگر پولیس نے ہی فیصلے کرنے ہیں تو پھر عدالتیں کس لیئے بنائی گئی ہیں جب قوم کے محافظ ہی قاتل بن جائیں تو پھر کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کریں گے پولیس کی طرف سے کسی بھی گاڑی یا مسافرپر حملہ اور فا ئر نگ دہشتگر دی کے زمرے میں آتی ہے پاکستان کی پارلیمنٹ ایسا قانون واضح کرے کہ پولیس میں بھرتی کرنے سے پہلےاور موجودہ حاضر سروس تمام پولیس اہلکاروں کا دماغی اور نفسیاتی معائنہ کروایا جائے اور ہر سال فٹنس سرٹیفکیٹ لازمی قرار دیا جائے تاکہ عوام کی جانیں اور عورتوں کی عزتیں ان کے شر اور درندگی سے محفوظ رہ سکیں اعلی عدلیہ سے اپیل ہے کہ سانحہ سا ہیوال میں جرم کے مرتکب افراد کو کو ئی رعا یت نہ دی جائے انہیں آنے والی نسلوں کیلئے نشان عبرت بنایا جائے اور ان مجرموں کو سرعام پبلک کے سامنے پھانسی دی جائے یہ ملزم نہیں مجرم ہیں عدالت عالیہ اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحب سے درخواست ہے کہ ان کا جرم ثابت ہو چکا ہے اب یہ لوگ کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں فوری انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے ان قاتلوں کو تختۂ دار پر لٹکا دیا جائے تاکہ دو بارہ ایساکوئی انسانیت سوز واقعہ رونما نہ ہو سکےفوری انصاف کی مثال ایران میں 3آدمیوں نے جیولری کی دکان پر دکاندار کو قتل کرنے کے بعد سارے زیورات اور نقدی وغیرہ لوٹ کر فرار ہو گئے سی سی کیمرہ کی مدد سے قاتلوں کی شناخت کی گئی اس کے بعد حکومت ایران نے ان تینوں کو سر عام بازار میں کرین کے ساتھ موت کے پھندے گلے میں ڈال کر پھانسی پر لٹکا دیا گیا اگر حکومت پاکستان یا پولیس کوئی بھی قاتلان سانحہ ساہیوال کو بچانے کی کوشش کرے گا یاد رکھیں کل قیامت کے دن بھی ایک عدالت لگنے والی ہے جس میں ہر ظلم و زیادتی کرنے والا اللہ تعالی کی عدالت میں کھڑا کر دیا جائے گا اور مظلومین کو بھی اس کے سامنے لایا جائے گا جس میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا پھرمقتولین مظلومین کا ہاتھ اور قاتلین کا گریبان ہو گا اس وقت ان ظالموں کو اللہ کے قہر اور غضب سے کون بچائے گا اس دن ہر ایک کو پورا پورا انصاف ملے گا کسی پرکوئی زیادتی نہیں ہوگی اور کوئی چیز کسی سے پوشیدہ بھی نہیں ہو گی۔