• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اَش اَش یا عَش عَش ؟

اسے عام طور پر عش عش ہی لکھا جاتا ہے، یعنی عین سے ،مثلاً وہ اس بات پر عش عش کراُٹھے ، یعنی بہت داد دی، واہ وا کرنے لگے، تعجب کے ساتھ تعریف کی ، خوشی کے مارے وجد کرنے لگے وغیرہ۔ دراصل کچھ لوگوں نے یہ فرض کرلیا کہ عش عش کا لفظ ’’عیش‘‘ سے بنا ہے۔ لیکن یہ خیال درست نہیں اور اس کا درست املا عین سے نہیں بلکہ الف سے ہے یعنی اسے عش عش نہیں بلکہ اش اش لکھنا چاہیے۔

فرہنگ ِ آصفیہ میں سید احمد دہلوی نے ’’عش عش ‘‘ کو اَش اَش سے رجوع کرایا ہے اور ’’اش اش‘‘ کے تحت لکھتے ہیں : یہ لفظ عربی میں اشاش تھا جس کے معنی شادی وانبساط یعنی خوشی منانے کے ہیں ۔ اردو والوں نے اسے بگاڑ کر اش اش کرلیا اور یہاں تک ہاتھ صاف کیا کہ عین سے عشعش لکھنے لگے اور اپنے ذہن میں خلاف ِ قاعدہ عیش اس کا ماخذ بھی قرار دے لیا حالانکہ اس ’’عشعش ‘‘ کے معنی گھونسلے کے آئے ہیں ‘‘۔

رشید حسن خان نے بھی لکھا ہے کہ اش اش کرنا یا اش اش کر اُٹھنا کو ’’ع‘‘ سے’’ عش عش ‘‘ لکھنادرست نہیں ہے ، انھوں نے اس کی سند میں ناسخ کا یہ شعر بھی دیا ہے :

ہم سفر وہ ہے جس پہ جی غش ہے

دشت ِ غربت مقام ِ اش اش ہے

احسان دانش کا بھی یہی خیال ہے کہ اس کا صحیح املا’’ اش اش‘‘ ہے( البتہ ان کے خیال میں ناسخ کا اس اردولفظ اش اش کو اضافت کے زیر کے ذریعے عربی لفظ’’ مقام ‘‘کے ساتھ بطورِ مرکب ِ اضافی لکھنا درست نہیں ہے ۔ اکثر اہل علم اردو الفاظ کے ساتھ عربی یا فارسی کے اس طرح کے مرکب کو ٹھیک نہیں سمجھتے)۔گو یا درست املا اش اش ہے۔ اب اگر کوئی درست محاورہ لکھے تو آپ بھی اش اش کیجیے گا، لیکن الف سے۔اگر عین سے عشعش کیا تو گھونسلا بن جائے گا۔

واہ وا یا واہ واہ؟

اوپر کی سطور میں ’’واہ وا ‘‘ آیا ہے ۔ بعض لوگ اسے ’’واہ واہ ‘‘ یعنی دو’’ہ‘‘ کے ساتھ لکھتے ہیں جو درست نہیں ہے۔ صحیح املا ’’واہ وا‘‘ ہے جو کلمہ ٔ تحسین ہے یعنی تعریف و توصیف و تحسین کے لیے آتا ہے۔

’’میرا صاحب زادہ‘‘یعنی؟

کچھ لوگ اپنے بیٹے یا بیٹی کا تعارف کراتے ہیں تو ’’گاڑھی اردو‘‘ بولنے کے شوق میں کہتے ہیں کہ یہ میری صاحب زادی ہیں یا یہ میرے صاحب زادے ہیں ۔ ان کے خیال میں اس سے مخاطب پر ذرا رعب پڑتا ہے کہ انھیں بہت ثقیل اردو بھی آتی ہے۔ لیکن درحقیقت کوئی صاحب جب اپنی اولاد کو صاحب زادہ یا صاحب زادی کہتے ہیں تو گویا اپنی اردو دانی کے بارے میں شبہات پیدا کردیتے ہیں ۔کیونکہ صاحب زادہ کا مطلب ہے صاحب کا بیٹا ، صاحب کی اولاد۔ اس کا ایک مطلب تو یہ ہوا کہ وہ حضرت خود کو صاحب کہہ رہے ہیں۔ یہ بڑی بے ہودہ بات ہے ۔دوسرے معنی بہت برے ہیںکیونکہ صاحب کامطلب مالک یا آقا بھی ہے ۔اپنی اولاد کو صاحب کی یا مالک کی اولاد بتانابھی بہت بے ہودہ بات ہے ۔

عطااللہ شاہ بخاری صاحب تو لفظ ’’صاحب ‘‘ کو ’’انگریز‘‘ کے معنوں میں برتتے تھے ۔ ایک بار اپنے بیٹے کے ساتھ کہیں جارہے تھے تو کسی نے پوچھا ’’یہ آپ کا صاحب زادہ ہے ‘‘؟ کہنے لگے ’’نہیں جناب ، صاحب زادہ نہیںہے ۔ میرا بیٹا ہے‘‘۔

شاہ صاحب تو خیر اس معاملے میں بہت سخت تھے لیکن دوسروں کی اولا د کو تو’’ آپ کا صاحب زادہ‘‘ یا ’’ان کی صاحب زادی ‘‘ کہا جاسکتا ہے کہ اس سے مخاطب کے لیے احترام جھلکتا ہے ۔ البتہ اپنی اولاد کو صاحب زادہ کہنا گویا خود اپنا احترام کرنا ہے ، واہ صاحب ! کیا بات ہے ! (ڈاکٹر رؤف پاریکھ)

تازہ ترین