• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ بہترین ڈیل تھی، وہ بدترین ڈیل تھی۔ اس سے امیدکے شگوفے پھوٹے ، اس سے مایوسی کی کہر چھا گئی تھی(اور گیس نہ آئے تو مایوسی تو ہوگی)۔ آج کل پاکستانی سیاست ان دونوں ڈیلزکے ہاتھوں زک اٹھا رہی ہے ۔ پہلے تو حکومت ’’آئی ایم ایف کے پاس جانا ہے۔ نہیں جانا ہے ‘‘ کا ورد کرتی رہی۔ ایک دن ہم سنتے کہ حکومت نے پاکستان کے بہترین مفاد میں آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل کرلی ہے۔ اگلے روز ارشاد ہوتا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل مسترد کردی گئی ہے۔ وجہ ایک بار پھر وہی ہوتی، پاکستان کا مفاد۔

گزشتہ موسم ِ سرما میں آئی ایم ایف کے نمائندوںنے ڈالر کے مقابلے میںروپے کی قدر 125 تک کرنے کی بات کی تھی۔ اُنھوں نے سود کے نرخ بڑھانے کا بھی کہا تاکہ معاشی ترقی کی رفتار سست ، اور درآمدی بل کم ہوجائے ۔ اسٹیٹ بینک نے دسمبر 2017 ء اور پھر مارچ 2018ء میں میرے مشورے سے کرنسی کی قدر پانچ پانچ فیصد کم کردی، اورروپیہ ڈالر کے مقابلے میں115 کا ہوگیا۔ یہ تمام صورت ِحال اُس وقت کے وزیر ِاعظم شاہد خاقان عباسی کے علم میں تھی(ایسا کوئی مخمصہ نہیں تھا کہ کس کو علم تھا ، یا ذمہ داری کس کی تھی)۔ پاناما پیپرز کے بعد ملک کو مشکل معاشی صورت ِحال کا سامنا تھا۔ میر ااپنا خیال تھا کہ جون 2019ء تک ڈالر کے مقابلے میںر وپیہ 125 سے 130 تک گر جائے گا۔ اگرچہ میں روپے کی قدر میں بتدریج کمی کے حق میں تھا، لیکن میں سود کے نرخوں میں اضافے کی حمایت کرنے سے گریزاں تھا۔ میرا نہیں خیال تھا کہ ہمیں درآمدات کو کنٹرول کرنے کے لئے اپنی معاشی ترقی کی رفتار سست کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہم ڈیوٹیز بڑھا کر اور روپے کی قدر کم کرکے ایسا کرسکتے تھے ۔ اب تحریک ِ انصاف کی حکومت نہ صرف نہایت افراتفری کے عالم میں روپے کی قدر کم کرکے اسے ڈالر کے مقابلے میں 140 تک گرا چکی ہے ، بلکہ اس نے سود کے نرخوں میں بھی چار گنا اضافہ کردیا ہے ۔ اس نے بجلی اور گیس کے نرخ بڑھانے کے علاوہ ترقیاتی اخراجات میں کمی کی ہے اور بہت سے براہ ِراست اور بالواسطہ ٹیکسز لگادئیے ہیں۔ ان اقدامات کی وجہ سے معاشی ترقی کی رفتار سست ہوگئی ہے، بے روزگاری بڑھ رہی ہے ، مہنگائی میں اضافہ ہورہا ہے ، اور سرمایہ کاری اور پیداوار کا گرا ف گرچکا ہے ۔ اور اگر ہمیںآئی ایم ایف کے پاس نہیں جانا تھا تو پھر عوام کو ان مشکلات سے دوچار کرنے کا کیا مقصد تھا؟

فی الحال اس حکومت نے ایسا کوئی مثبت کام نہیں کیا جس پر یہ بات کرسکے ۔ مکانوں کی تعمیر، ملازمتوں کی فراہمی ، موثر گورننس، شفافیت، پولیس کے نظام میں اصلاحات اور تعلیم اور صحت کی سہولتوں میں انقلاب کا عملی زندگی میں کوئی شائبہ تک دکھائی نہیں دیتا۔ ان میں سے بہت سے امور کے لئے رقم نہیں ، توجہ اور ذہانت کی ضرورت تھی۔ ہمارے ہاں ان کی بہتات پہلے بھی کبھی نہ تھی، لیکن اس وقت تواسلام آباد میں ان کا قحط ہے ۔ اب کچھ ذکر ایک دوسری ڈیل کا ہوجائے جس کا آج کل بہت چرچا ہے ۔یہ ڈیل مبینہ طور پر میاں نواز شریف اور ریاست کے درمیان ہونے جارہی ہے ۔ ڈیل یہ ہے جس کا ذکر موجودہ وزیر ِاعظم تواتر سے کرتے رہتے ہیں۔ اُن کہنا ہے کہ ’’میں کوئی این آر او نہیں دوں گا۔‘‘یہاں سب سے پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمارے ہاں قانون کی حکمرانی ہے یا افراد کی ؟ اگر ہم قانون کی حکمرانی کے دعویدار ہیں تو ایک وزیر ِاعظم عدالت میں مقدمے کا سامنا کرنے والے کسی ملزم کو کس طرح ڈیل کی پیش کش کرسکتا ہے ؟کیا وزیر ِاعظم عمران خان کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ عدلیہ مقدمات کا میرٹ پر فیصلہ نہیں کرتی؟ کیا موجودہ وزیر ِاعظم کے عدالتوںپر اعتماد کا یہ عالم ہے ؟فرض کریں مسلم لیگ (ن) خاموشی سے وزیر ِاعظم کو ڈیل کا کہتی، تو اس صورت میں عمران خان دوٹوک انکار کردیتے۔ اُنہیں روزانہ یہ نہ کہنا پڑتا کہ ’’میں این آر او نہیں دوں گا۔‘‘اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے کسی ڈیل کی درخواست کی ہی نہیں ۔ تو پھر وہ بلاتکان این آر او نہ دینے کا ورد کیوں کررہے ہیں؟

ایک وجہ تو یہ ہوسکتی ہے کہ عوام کا مہنگائی سے کچومر نکالنے کے باوجود وہ آئی ایم ایف سے ڈیل نہ کرپارہے ہوں۔ پی ٹی آئی حکومت کے ہاتھوں معیشت کا بھی کباڑا ہوچکا ہے ۔ کسی شعبے میں ترقی کا کوئی امکان نہیں ۔ وزیر ِاعظم خان کے پاس ایک ہی چوائس ہے کہ وہ این آر او نہ دینے کا غلغلہ ماند نہ پڑنے دیں، اوربدعنوانی کے خلاف اپنی پانی پت آباد رکھیں۔

یہاں ایک سوال ضرور اٹھتا ہے کہ معاملات خرابی کی طرف کیوں بڑھ رہے ہیں؟ کیا اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ پی ٹی آئی کی ٹیم مسلم لیگ (ن) کی ٹیم کی نسبت کہیں زیادہ اناڑی ہے ؟ اب تو پی ٹی آئی کے پرجوش حامیوں کے جذبات پر بھی اوس پڑنا شروع ہوگئی ہے ۔ ڈیل کی مسلسل باتیں عمران خان کی ایک اور سوچ کی غمازی کرتی ہیں۔ نیب عدالت کے پہلے فیصلے پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکم امتناع جاری کردیا۔ ممکن ہے کہ دوسرے فیصلے پر بھی حکم ِ امتناع مل جائے ۔ اس صورت میں نواز شریف کو ضمانت مل جائے گی۔

اب اگر نواز شریف اور شہباز شریف عدالت میںمجرم ثابت نہیں ہوتے اور جیل سے باہر آجاتے ہیں ، اُن پر بدعنوانی کے تمام الزامات دھل جاتے ہیں، اُن کی اربوں روپے کی مبینہ منی لانڈرنگ کا کوئی سراغ نہیں ملتا ، تو ایسی صورت میں پی ٹی آئی کی ساکھ کا کیا بنے گا؟ عمران خان کے سیاسی بیانیے کی بنیاد نواز شریف کی مبینہ بدعنوانی تھی ۔ اب اگر نواز شریف بدعنوان نہ نکلے تو خان کی سیاست کہاں رہے گی؟چونکہ اُن کے پاس واحد کارڈ بدعنوان کے خلاف جنگ تھا۔ اس کے بغیر وہ سیاسی خلا میں معلق دکھائی دیں گے ۔

یہی وجہ ہے کہ ان کو اب دیگر اداروں پر شک ہونا شروع ہوگیا ہے ۔ کیا اپنی سیاسی ساکھ باقی رکھنے کے لئے دیگر اداروں کی ساکھ تباہ کرنادرست ہے ؟

(صاحب ِ مضمون سابق وفاقی وزیر برائے مالیاتی امور ہیں)

تازہ ترین