برطانیہ کے ایک شاعر نے اپنی جوانی کے زمانے میںکراچی میں دو تین سال گزارے۔ یہ سن ساٹھ کی دہائی کے آغاز کے دن تھے۔ اس شاعر نے کراچی کے کسی بازار میں ایک ایسا منظر دیکھا جو اس کے ذہن پر نقش ہوگیااور جیسا کہ توقع کی جاسکتی ہے اس نے اس تاثر کو ایک نظم میں ڈھال دیا۔ اب یہ دیکھئے کہ بیس سال سے زیادہ عرصے پہلے میں نے پرانی کتابوں کے اب گمشدہ بازار کھوری گارڈن سے انگریزی شاعری کا ایک انتخاب خریدا۔یہ کتاب دراصل کسی امریکی یونیورسٹی میں انگریزی ادب کے نصاب میں شامل تھی۔ نظموں کی تشریحات بھی تھیں اور سوال بھی پوچھے گئے تھے۔ سو انگریزی ادب کی بڑی شاعر ی کے ذکر میں یہ نظم بھی شامل تھی۔ میں نے پڑھی تو ٹھٹک سا گیا۔ ایسا لگا کہ جیسے یہ میری دریافت ہے۔ دوستوں کو بتایا اور خاص طور پر ادیب دوست آصف فرخی کو۔ مجھے یاد ہے کہ کسی کے لئے میں نے اس کا اردو ترجمہ بھی کیا تھا۔ مجھے یقین ہے کہ ادب پڑھنے والے کئی افراد اپنے طور پر اس سے واقف ہوں گے۔
اتنا کچھ کہنے کے بعد اب میں آپ کو بتائوں کہ وہ نظم کیا تھی۔ یا ہے۔ نظم کا عنوان ہے ۔ ’’ایک سندھی عورت‘‘۔ شاعر نےیہ دیکھا کہ ایک عورت سر پر بوجھ اٹھائے چلتی چلی جارہی ہے۔ یہ بوجھ کوئی گھڑا یا بڑا مرتبان ہوگا۔ وہ ننگے پیر ہے اور غریب علاقے کے اس بازار کی سڑک پر گندگی بکھری ہے۔ جس بات نے شاعر کو بے حد متاثر کیا وہ اس عورت کا اعتماد ، اس کی چال اور اس کا وقار تھا۔ شاعر نےسوچا کہ میری چال میں تو اتنا اعتماد نہیںہےاور چھوٹی سی نظم کی آخری دو سطروں میں اپنی بات کہی۔ وہ یہ کہ جنہیں بوجھ اٹھا کر چلنا آتا ہے وہی سر اٹھا کر چل سکتے ہیں۔ یہ شاعر، جان اسٹال وردی،بعدمیں ایک معروف نقاد اور شاعر کے طور پر جانا گیا۔ وہ 2014ء میں اپنے انتقال سے پہلے اوکسفرڈ یونیورسٹی میں انگریزی ادب کا پروفیسر بھی رہا۔
اب آپ پوچھیں گے کہ یہ نظم مجھے اس ہفتےکیوں یاد آئی اور میں کس تناظر میں اس کا حوالہ دے رہا ہوں۔ پہلی بات تو یہ کہ پیر کے دن ہم نے عاصمہ جہانگیر کی پہلی برسی منائی۔ ایک بے مثال ہستی کو کھودینے کے دکھ نے ہمارےذہن اور احساسات میں پھر ایک ہلچل سی مچادی۔ یہ سال بھی کیسا سال تھا۔ ہر قدم پر عاصمہ کی کمی محسوس ہوئی۔ یہ ایک مثال ہے کبھی کبھی کسی ایک فرد کے نہ ہونے سے کتنا فرق پڑسکتا ہے۔ میں اپنے میڈیا کی صورت حال دیکھ کر اکثر یہ سوچتا ہوں کہ عاصمہ ہوتیںتو ہم اتنی بے بسی کا شکار نہ ہوتے۔بہرحال ، آپ نے شاید یہ محسوس کیا ہوگا کہ عاصمہ کی پہلی برسی ہمارے میڈیا میںکافی سنجیدگی اور جذبے کے ساتھ منائی گئی۔ میرے خیال میں اب بہت سے وہ لوگ بھی عاصمہ کی تحریک کی اہمیت کو سمجھنے لگے ہیں جو پہلے ان کا نام سن کر ناک بھوں چڑھاتے تھے۔ برسی کے موقع پر ملک کے کئی شہروں میں یادگاری اجتماعات منعقد ہوئے۔ کراچی کی ایک تقریب میں، میں بھی شریک تھا جس کا اہتمام خواتین مجلس عمل نے انسانی حقوق کے پاکستان کمیشن اور آرٹس کونسل کے تعاون سے کیا تھا۔ وہاں یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ عاصمہ کے جانے کے بعد جو خلا پیدا ہوگیا ہےوہ کیسے پر ہوگا۔ جب زہرہ یوسف نے کہا کہ یہ خلا خواتین اپنی اجتماعی جدوجہد کے ذریعے ہی پر کرسکتی ہیں تو مجھے لگا کہ سیاہ بادلوںکے کنارے پر اگر کوئی روشن لکیر ہے تو وہ یہی ہے۔
اب میں اگر یہ کہوں کہ اس ملک کو بچانے کا ، اس کی سمت کے تعین کا سارا بوجھ خواتین کے سرپر رکھا ہوا ہے تو آپ یہ سمجھ سکتے ہیں کہ میں ’’ایک سندھی عورت‘‘ کو تمثیل بنا کر کیوں پیش کررہا ہوں۔ ہم بار بار تبدیلی کی بات کرتے ہیں۔ اس تبدیلی کی بھی جس کے غلاف میں بے وفائیوں اور وعدہ خلافیوں کا انبار جمع ہورہا ہے۔ لیکن اس عہد کی تاریخ یہ گواہی دے رہی ہے کہ معاشرے میں تبدیلی کا سب سے بڑا ثبوت عورتوں کی حیثیت میں تبدیلی ہی ہوتا ہے۔ ترقی،سماجی انصاف اور جمہوری آزادی کا سفر بچیوں کے پرائمری اسکول سے شروع ہوتا ہے۔ یہ سچ ہےکہ انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کی تحریک کے رہبر ہونے کی حیثیت سے عاصمہ کی اہمیت صرف اس لئے نہیں تھی کہ وہ ایک خاتون تھیں۔ لیکن وہ ایک خاتون تو تھیں اور ان کی مثال خصوصی طور پر خواتین کے دلوں کو گرما سکتی ہے۔ پھر یہ دیکھئے کہ قدامت پرستی اور روایات کا ظلم سہنے والی پاکستانی عورت بھی قید سے رہائی مانگ رہی ہے۔ اپنا سر اٹھانے کی کوشش کررہی ہے۔اس کی کئی مثالیں ہیں اور ملالہ سے بڑی کوئی مثال تو دنیا میں کہیں نہیںہے۔ اب یہ پاکستانی معاشرے کا امتحان ہےکہ وہ کب ملالہ کو اپنی بیٹی تسلیم کرے گا اور اس پر فخر کرے گا۔
یہ ایک تفصیل طلب داستان ہے کہ کیسے سماجی تبدیلی کا سارا بوجھ خواتین ہی کو اٹھانا پڑتاہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ سماج کی ساری بندشوں کے باوجود ، اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ہماری لڑکیوں نے لڑکوں کو پیچھے چھوڑدیا ہے۔ یہ ذہنی صلاحیتوں کی بارآوری کا عہد ہےاور خواتین اس میدان میں برابری ہی نہیں بلکہ سبقت لے جانے کی اہل ہیں۔ ’’می ٹو‘‘ کی تحریک کے بعد مغرب اور خاص طور پر امریکہ میں جوشیلی خواتین خم ٹھونک کر سیاست اور عملی زندگی کے اکھاڑے میں اتر رہی ہیں۔ چند مہینوں پہلے امریکہ کے ایوان نمائندگان کے انتخابات میں پہلی بار خواتین کی ایک بڑی تعداد نے کامیابی حاصل کی اور ان میں دو مسلمان خواتین بھی ہیں۔ ایوان کی اسپیکر نینسی پلوسی امریکی سیاست کی سب سے طاقتور خاتون ہیں اور رتبےکے لحاظ سے صدر ٹرمپ کےبعد ان کا دوسرا نمبر ہے۔ میں یہ کہوں گا کہ خواتین کی بیداری کی یہ لہر پاکستان میں بھی اٹھ رہی ہے۔ مثال کے طورپر پشتون آبادی میں بہت کم خواتین، گھر سے باہر نکلتی ہیں۔ اب میں صرف گلالئی اسمٰعیل کانام لے کر آگے بڑھ جائوں گا۔ چند مہینے پہلے جب فہمیدہ ریاض کا انتقال ہوا تو ہم نے جانا کہ ایک خاتون پاکستانی شاعر ،افسانہ نگاراور سیاسی کارکن نے روایات کے کتنے بت توڑے تھے اور کس فخر اور اعتماد سے اپنی بات کہی تھی۔ فہمیدہ نے کہا تھا کہ جب ’’جاں سے گزرنا ہی ٹھہرا تو سرجھکا کر کیوں جائیں۔ کیوںنہ اس مقتل کورزم گاہ بنادیں۔‘‘ اور یہ اعلان بھی انہوںنے ہی کیا تھا کہ ’’میں آدم نوکی ہم سفر ہوں/ کہ جس نے جیتی مری بھروسہ بھری رفاقت۔‘‘