میں ایک بار پھر سرزمین ِکوریا میں موجود ہوں جہاں اقوام ِ متحدہ سے منسلک عالمی ادارے یونیورسل پیس فیڈریشن کے زیراہتمام ورلڈ سمٹ 2019ء کا انعقاد کیا جارہا ہے ، جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیول میں دنیا بھر کے ایک سو بارہ ممالک سے تعلق رکھنے والے امن پسند پارلیمانی نمائندوں، موجودہ اور سابقہ سربراہانِ مملکت، مذہبی پیشوا، خواتین رہنمااور سول سوسائٹی کےنمائندگان پر مشتمل عالمی امن اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کیلئے اعلیٰ سطحی عالمی شخصیات مدعو ہیں، بطور ممبر پارلیمنٹ، سرپرست ِ اعلیٰ پاکستان
ہندوکونسل اور کنونئر پاکستان انڈیا پارلیمانی فرینڈشپ گروپ مجھے اس اہم اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے مختلف مندوبین سے تبادلہ خیال کرنے کا موقع ملا ، میں نے انڈیاکے وفدبشمول وجے جولی،ڈاکٹر انوپم ہزارا، اجے دت، وجے کمار، وغیرہ کو لوک سبھا میں بھی پاکستان انڈیا پارلیمانی فرینڈ شپ گروپ قائم کرنے کی افادیت پر زور دیا۔افریقی مندوب کا اپنے خصوصی خطاب میں کہنا تھا کہ غربت کا جرائم اور بدامنی سے براہ راست تعلق ہے، بھوک کوختم نہ کرنے والا خطہ کبھی ترقی نہیں کرسکتا، انسانی حقوق کا تحفظ اور خواتین کا احترام ہرصورت یقینی بنانا چاہئے، اگرسماجی امن کو یقینی بنانا ہے تو فروغِ تعلیم کواولین ترجیح دینا ہوگا، بطور والدین یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم نئی نسل کو امن کی اہمیت سے آگاہ کریں ۔یہ گزشتہ دو برسوں کے دوران میرا دوسرا دورہ کوریا ہے اور کوریا کے حوالے سے تیسرا کالم ہے،یہ ستمبر2017ء کی بات ہے جب میں جنوبی کوریا کی ایک امن کانفرنس میں شریک تھا، میں نے اپنے کالم میں میزبان کورین عوام کے جذبات کی ترجمانی بھی کی تھی کہ طاقت کے زور پر کسی کو زبردستی الگ تو کیا جاسکتا ہے لیکن امن کی خواہش کو دبا یا نہیں جاسکتا ،حالیہ دورہ کوریا کے موقع پر دو سال قبل کی خوشگوار یادیں ایک مرتبہ پھر میرے ذہن میں تازہ ہوگئیں جب عالمی امن فیسٹیول مناتے ہوئے ہزاروں کورین مقامی باشندے اورغیرملکی مندوبین دنیا بھر کے پرچم اٹھائے اپنی اپنی زبانوں میں ایک ہی عزم کا اعادہ کررہے تھے کہ امن کیلئے ہم سب ایک ہیں، کورین شہریوں کے دل میںماضی کی دشمنیاں بھلا کرپھر سے اپنے کوریا کو متحد دیکھنے کی تڑپ نمایاں تھی جو کبھی ایک ملک ہوا کرتا تھا۔ اسی طرح میں نے اپنے ایک اور کالم میں تجزیہ پیش کیا تھا کہ کوریا کے عوام نے 1950ء میں ایک ایسی بھیانک جنگ کی تباہ کاریاں دیکھیں جس میں مارنے والے اور مرنے والے دونوں کورین باشندے تھے، مبصرین کے مطابق جنگ بندی معاہدہ نہ ہونے کے باعث دونوں کوریائی ممالک کو آج بھی حالت جنگ میں سمجھا جانا چاہئے، اپنی بقا کی اس طویل جنگ میںاگر ایک طرف شمالی کوریا نے اپنے عوام کا مستقبل جوہری ہتھیاروں کے حصول کے ذریعے محفوظ کرنا چاہا تو دوسری طرف جنوبی کوریا نے اپنے عوام کو جدید تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا اور آج ریسرچ ، ا سمارٹ فون، الیکٹرونکس اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے میدان میں جنوبی کوریاکی قابل ِ رشک ترقی نے ثابت کردیا ہےکہ جیت ہتھیار کی نہیں بلکہ تعلیم اور سمجھداری کی ہواکرتی ہے۔ گزشتہ سال شمالی کوریا کے حکمراں کم جونگ ان کے تاریخی دورہ جنوبی کوریا اور امریکی صدر ٹرمپ سے ملاقات کے بعد سرزمین کوریا میں قیام امن کا خواب تیزی سے حقیقت کا روپ دھار رہاہے۔ جنوبی کوریا میں منعقدہ حالیہ ورلڈ سمٹ کے دوران ہی امریکی صدر ٹرمپ کی تازہ ٹویٹ منظر عام پر آئی جس میںانہوں نے امریکہ کے دیرینہ دشمن شمالی کوریاکے مابین مذاکرات کی کامیابی کا اعلان کرتے ہوئے دوسرے سربراہی اجلاس کیلئے ویت نام کے دارالحکومت ہنوئی کو منتخب کیا،ٹرمپ کے اس اعلان کو سمٹ مندوبین کی جانب سے نہایت مثبت انداز میں دیکھا جا رہا ہے تو کچھ شرکا نے نجی محفلوں میں ویت نام کے دارالحکومت کا انتخاب کرنے کو ایک خاص پیغام قرار دیاکیونکہ امریکہ ویت نام جنگ کے زمانے میں ہنوئی امریکہ مخالف کمیونسٹ شمالی ویت نام کا صدر مقام تھا، اس جنگ میں امریکہ کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا اور دونوں ویت نامی حصے متحد ہوکر ایک آزاد خومختارملک کے طور پر دنیا کے نقشے پر ابھرے۔ورلڈ سمٹ کے معزز شرکاسے اظہار خیال کرتے ہوئے میرا کہنا تھا کہ امریکی تاریخ میں پہلی مرتبہ صدر ٹرمپ نے اپنے آپ کو ایک ایسا صدر ثابت کیا ہے جو امریکی عوام کے مفادات کو مقدم رکھتے ہوئے حقیقت پسندانہ موثر فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے،یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ کی زیر قیادت امریکہ افغانستان میں بھی روایتی ہٹ دھرمی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے طالبان کے ساتھ قیامِ امن کا خواہاں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ وقت آگیا ہے کہ تمام ممالک خارجہ پالیسی کے حوالے سے اپنی دقیانوسی سوچ میں مثبت تبدیلی لائیں،ماضی سیکھنے کیلئے ضرور ہوتا ہے لیکن ماضی میں رہا نہیں جاسکتا، آج کا ڈیجیٹل دور ایک دوسرے سے جنگیں لڑنے کا نہیں بلکہ اقتصادی تعاون مستحکم کرنے کا ہے،زندہ قومیں ایک دوسرے کی تباہی کی خواہاں نہیں ہوتیں بلکہ اپنے عوام کی ترقی و خوشحالی کیلئے دشمنیوں کو خیرباد کہتی ہیں۔میں ورلڈ سمٹ کے منتظمین کے اس موقف سے سو فیصدمتفق ہوں کہ آج عالمی برادری کو ایسی وژنری اور بولڈ قیادت کی اشد ضرورت ہے جو خالصتاََ قیام ِ امن کی خاطر دیرینہ علاقائی تنازعات کے حل کیلئے نہایت سمجھداری سے اپنا قائدانہ کردار ادا کرئے، اس نوبل کاز کیلئے ضروری ہے کہ اپنے ممالک میں اثرورسوخ رکھنے والی امن پسند شخصیات کو ایک ایسے مشترکہ پلیٹ فارم پر متحد کیا جائے جہاں وہ اپنی سمجھ بوجھ، فہم و فراست اور دانشمندانہ تجربات سے دوسروں کو بھی مستفید کرسکیں۔مجھے اپنے دورہ کوریا کے دوران پاکستانی سفیر جناب رحیم حیات قریشی سے بھی ملاقات کا موقع ملا، میرا دنیا بھر کے پاکستانی سفارتخانوںسے واسطہ پڑتا رہتا ہے لیکن میں نے سب سے زیادہ متحرک جنوبی کوریا میں پاکستانی سفیر کو پایا جو تجارتی و ثقافتی تعاون اور دوطرفہ تعلقات کیلئے خدمات نہایت موثر انداز میں ادا کررہے ہیں،اسی طرح کوریا میں مقیم اوورسیزپاکستانی کمیونٹی کا بھی کہنا تھا کہ وہ امن کے اس نیک عمل کیلئے اپنا بھرپور کردارادا کرنے کو تیار ہیں، بطور پاکستانی آج سرزمین ِ کوریا میں امن پسندی کا بہترین ماحول دیکھ کر میرے ذہن میں یہ سوال کلبلا رہا ہے کہ اگر امریکہ اور افغانستان ، شمالی اور جنوبی کوریا کے مابین امن قائم ہوسکتا ہے تو پاکستان اور انڈیا ماضی کی تلخیوں کو بھُلا کراپنے عوام کو ترقی اور خوشحالی کی منزل سے ہمکنار کرانے کیلئے امن کا راستہ کیوں اختیار نہیں کرتے ؟ اس حوالے سے میرا ارادہ ہے کہ دونوں ممالک کے امن پسند حلقوں کے تعاون سے ایسی ہی ایک پاکستان انڈیا امن سمٹ کا انعقادجلد کرایا جائے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)