• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یورپ اور امریکا کے ماہرین انسانی دماغ کو پوری طرح سمجھ کر اس کا مشینی متبادل تیّار کرنے کی کوشش کررہے ہیں

ہم میں سے زیادہ تر افراد کسی شے کو ایک یا دو بار دیکھنے کےبعداسے پہچاننے لگتے ہیں ،لیکن مصنوعی یا مشینی ذہانت کو کسی شے یا لفظ کو پہچاننے کے لیے ہزاروں مثالوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ گوگل ڈیپ مائنڈ نے اس کا ایک حل ڈھونڈ لیا ہے جسے استعمال کرکے مشینی ذہانت کسی شے کی ایک تصویر دیکھنے کے بعد اسے پہچاننا شروع کردیتی ہے۔ اسے ہم تصویری طریقہ تعلیم کہہ سکتے ہیں۔ گوگل کی ٹیم نے کچھ عرصہ قبل اس کا مظاہرہ تصویروں کے ڈیٹا بیس میں موجود نشان زدہ تصاویر ، تحریراور زبان پر کیا۔اگرچہ مشینی ذہانت بہترین انداز میںاشیاکی شناخت کرسکتی ہے، لیکن اس پر خاصاً وقت صرف ہوتا ہے اور یہ طریقہ مہنگا بھی ہے۔ مثال کے طور پر مشینی ذہانت ہزاروں مثالوں کے بعد سڑک پر چلتی خودکار گاڑیوں کو شناخت کرسکے گی۔لیکن مشکل یہ ہے کہ مشین کو اتنا زیادہ ڈیٹا فراہم کرنا عملاً ممکن نہیں ہے۔ ایک روبوٹ جسے اجنبی گھر میں کام کرنا ہے، وہ ان گنت گھنٹے گھر کے کمروں کی شناخت میں نہیں گزار سکتا۔ گوگل ڈیپ مائنڈ میں کام کرنے والے سائنس داں اوریول وینائلز(Oriol Vinyals)مشینی ذہانت کے لیے نیورل نیٹ ورک پر مشتمل یادداشت کا نیا آلہ نظام میںشامل کرچکے ہیں۔یادرہے کہ ایسے سسٹمز کو اپنے ورچوئل نیورون کے ساتھ رابطے مستحکم کرنے کے لیے بہت سی تصاویر دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

گوگل کی ٹیم امیج نیٹ ورک پر نشان زدہ تصاویرپر سسٹم کی اہلیت کا مظاہرہ بھی کرچکی ہے۔تاہم سافٹ ویئر کو اب بھی تصویر کو شناخت کرنے کے لیے اس کی کئی سو کیٹیگریز درکار ہوتی ہیں۔ لیکن اس کے بعد وہ صرف ایک تصویر سے مطلوبہ شے کی شناخت کرلیتا ہے۔اب سسٹم صرف ایک تصویر دیکھنے کے بعد کسی بھی جانور کی شناخت کرسکتا ہے۔ وینائلز کہتے ہیں کہ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا سسٹم تیزی سے نئے لفظ کے معنی جان سکتا ہے۔ نئےالفاظ کے معنی جاننا گوگل سرچ انجن کے لیےبہت اہم ہے۔ گہری آموزش کا نظام اضافی یاد دا شت کا مکینزم شامل کرنے سے بہت مفید ہو گیاہے ۔ گوگل ڈیپ مائنڈ کی ایک اور ٹیم نے لچک دار یادداشت پر مشتمل ایک نظام تیار کیا ہے جو سادہ استدلال پر کام کرنے کا اہل ہے۔ مثلاً سادہ سی ڈایاگرام کی مدد سے کسی بھی سب وے کے راستے کی شناخت کرنا۔ کورین ایڈوانسڈ انسٹی ٹیوٹ فار سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں برین اینڈ مشین انٹیلی جنس ٹیم کے سربراہ سینگ وانگ لی کہتے ہیں کہ اتنے بڑے ڈیٹا سیٹ سے صرف ایک تصویر سے شناخت کرنا اچھا طریقہ ہے ۔تاہم ماہرین مصنوعی ذہانت کے ضمن میں اور بہت کچھ کرنا اور بہت کچھ ہوتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔چناں چہ اب سے تقریبا پانچ برس قبل ڈیجیٹل دماغ تیارکرنے کے لیے یورپی یونین نے ایک ارب پونڈز کی لاگت سے ایک منصوبے کا آغاز کیاتھا، تاکہ انسانی دماغ کو مکمل طور پر سمجھا جا سکے۔ ہیومن برین پروجیکٹ (ایچ بی پی) نامی اس منصوبے میں یورپی ممالک کے135 سائنسی اداروں میں کام کرنے والے سائنس داں حصہ لے رہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق اس منصوبے میں سائنس داں ایسی کمپیوٹر سمولیشن تیار کرنے کی کوشش کررہے ہیں جس سے انسانی دماغ کو مکمل طور پر سمجھنے میں مدد ملے گی۔

سائنس دانوں کے مطابق انسانی دماغ ایک ارب سے زیادہ نیورونز اور سو کھرب سے زیادہ لونیا جوڑوں پر مشتمل ہے۔ سوئٹزرلینڈکےپروفیسر ہنری مارکرم کے مطابق اس منصوبے کا مقصد انسانی دماغ کے بارے میں تمام معلومات اکٹھا کر کے ایسی کمپیوٹر ٹیکنالوجی بناناہے، جس کےذریعے دماغ کے بارے سمولیشن بن سکیں۔ ان کےمطابق اس منصوبے کے مقاصد میںیہ نکتہ بھی شامل ہے کہ دماغی بیماریوں کا کیسے پتا لگایاجائے اور انسانی ذہن کو سمجھ کر کیسے ایک نیا ڈیجیٹل دماغ تیار کیا جائے۔

سائنس دانوں کا اندازہ ہے کہ موجودہ کمپیوٹر ٹیکنالوجی انسانی دماغ کے پے چیدہ گوشوں کی مکمل سمولیشن تیار کرنے کے قابل نہیں ہے۔ انسانی دماغ کو سمجھنے کے اس منصوبے کا انسانی جینوم پروجیکٹ کے ساتھ موازانہ کیا جا رہا ہے۔ یاد رہے کہ ایک عشرے تک جاری رہنے والے انسانی جینوم پروجیکٹ میں ہزاروں سائنس دانوں نے حصہ لیا تھا اور اس منصوبے میں انسان کا جینیاتی کوڈ سمجھنے کی کوشش کی گئی تھی ۔ اس منصوبے پر اربوں ڈالرز خرچ کیے گئے تھے۔سائنس دانوں کاخیال ہے کہ ہیومن برین پروجیکٹ مکمل ہونے کے بعد انسانی اور ڈیجیٹل دماغ کا موازانہ کر کے انسانی دماغ کی بیماریوں کا پتہ چلایا جا سکے گا۔ یورپی یونین کا یہ منصوبہ مزید پانچ برس تک جاری رہے گا۔

پروفیسر ہنری مارکرم کے مطابق سائنس دانوں کے لیے یہ سمجھنا بہت زیادہ اہم ہے کہ آخر انسانی دماغ اتنا منفرد کیوں ہے اور انسانی رویّوں اور ذہانت کے پیچھے کون سے عوامل کار فرما ہوتے ہیں۔دوسری جانب امریکامیں سائنس داں انسانی دماغ کے ایسے نقشے بنا رہے ہیں جن کی مدد سے یہ جاننے میں خاصی مدد مل سکے گی کہ آخر کوئی شخص فطری طور پر سائنس یا موسیقی یا پھر فنونِ لطیفہ کی جانب کیوں مائل ہوتا ہے۔ اس تحقیق کے بارے میں چند تصاویر کی رونمائی جون 2014میں امریکی تنظیم برائے سائنسی ترقی کے بوسٹن میں منعقد ہونے والے اجلاس کے دوران کی گئی تھی۔اس منصوبے کے تحت امریکی ریاست میساچوسٹس کے جنرل اسپتال میں سائنس داںدماغ کی اسکیننگ کے لئے تیارکیےگئے اسکینر کو اس کی آخری حد تک استعمال کر رہے ہیں۔

امریکی محقق ڈاکٹر وان ویڈین اور ان کے ساتھی اس تحقیق کے ذریعے اس بات کی امید رکھتے ہیں کہ اس سے انہیں دماغ کے کام کرنے اور خراب ہو جانے کا علم ہو سکے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ سو برسوں میں ذہنی امراض سے متعلق طریقۂ علاج میں کوئی خاطر خواہ تبدیل نہیں آ سکی ہے اور دوسری جانب ماہرین کے پاس دماغ کی تصویر کشی کا کوئی طریقہ بھی نہیں ہے، جیسا کہ دل کی جانچ سے متعلق موجود ہے۔ڈاکٹر وان کے مطابق یہ بات بہت دل چسپ ہوگی کہ ہم دماغ کے اندر پہنچ کر اس کا جائزہ لیں اور پھر لوگوں کو بتائیں کہ ان کی پریشانی کیا ہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے ڈاکٹر ٹم بہرنس کا کہنا ہے کہ اس تحقیق کے بعد ماہرین اس بات کی حتمی طور پر تصدیق کرسکیں گے کہ ہر انسان کا دماغ جدا ہوتا ہے جیسے کہ ہرکنکشن۔ ان کے مطابق اس منصوبے کے ذریعے ماہرین کو انسانی برتاؤ اور رویّوں کے بارے میں بھی جاننے کا موقع ملے گا۔

تازہ ترین
تازہ ترین