• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایم کیوایم کے دفتر سے جناح پور کے نقشے ملے تھے، الطاف حسین کو نوازشریف نے بحال کیا

کراچی(ٹی وی رپورٹ) سینئر صحافی وتجزیہ کارزاہد حسین نے کہا ہے کہ ایم کیوایم کی پوری تاریخ پڑھ لیں کبھی اس کو استعمال کیا جاتا ہے اورکبھی الزامات لگتے ہیں۔ اس لحاظ سے میں نے جو آج کی پریس کانفرنس دیکھی تو مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے کوئی چیز دہرائی جارہی ہے، ایک لحاظ سے ٹیپ جو چلتا ہے وہ پرانا چلایا جارہا ہے۔انہوں نے یہ بات جیو نیوزکے پروگرام ’’کیپٹل ٹاک‘‘میزبان حامدمیرسے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔پروگرام میں چیئرمین نجکاری کمیشن محمدزبیر ،پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عمران اسماعیل ،992ء کے آپریشن کے دوران فوجی ترجمان بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون نے بھی شرکت کی۔پر وگرام میں ڈاکٹر صغیر احمد کے آج کے بیان کی کلپ بھی دکھائی گئی جبکہ اس کے علاوہ پروگرام کے درمیان میں بریگیڈئیر امتیاز اورپرویز مشرف کی بھی ایک ایک کلپ نشر کی گئی جس میں مبینہ جناح پورکے نقشوں سے متعلق وضاحت پیش کی گئی تھی۔ ایک سوال کے جواب میں چیئرمین نجکاری کمیشن محمد زبیر نے کہا کہ جہاںتک الزامات کا تعلق ہے 1992ء کے آپریشن کے وقت بھی ایم کیو ایم پر الزامات لگے تھے، آج یہ الزامات کوئی نئے نہیں ہیں، یہ ضرور حقیقت ہے کہ مصطفی کمال ایم کیوا یم کے ایک اسٹار تھے، ایم کیو ایم ان کی کارکردگی پر بڑا پرائڈ لیتی تھی، ان کی طرف سے جب الزامات آئے تو اس کو زیادہ سنجیدگی سے دیکھنے کی ضرورت ہے، لیکن مصطفی کمال نے بھی اپنی پریس کانفرنس میں کہا کہ میرے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے، مصطفی کمال، ڈاکٹر صغیراحمد، انیس قائم خانی یا ایم کیو ایم سے باہر بھی اگر کسی کے پاس ثبوت ہیں تو ضرور لائیں ، اسے سنجیدگی سے دیکھا جائے گا۔ میں صرف ’’را ‘‘کی بات نہیں کررہا ہے، ایم کیو ایم پر دہشتگردی کے حوالے سے، بوری بند لاشوں کے حوالے سے، بھتے کے حوالے سے بھی الزامات ہیں، یہ الزامات ’’را‘‘ کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے الزام سے کم سنجیدہ نہیں ہیں، 1992ء کا آپریشن ہوا ہی اس لئے تھا کہ ایم کیو ایم پر بڑے سنگین الزامات تھے، اس وقت بھی جناح پور کے حوالے سے الزامات لگائے گئے تھے، یہ نئے الزامات نہیں ہیں کہ اس پر ایک دم جیوڈیشل کمیشن بنادیا جائے۔پی ٹی آئی کے رہنما عمران اسماعیل نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ایم کیوا یم کا ووٹ بینک کراچی میں ہے اور الطاف حسین کی پسند یدگی بھی کراچی میں ہے، لوگ انہیں پسند کرتے ہیں ، ایم کیوا یم کے پاس وہ تنظیم بھی موجود ہے جس کو ہم ٹھپہ مافیا کے نام سے یاد کرتے ہیں، وہ ٹھپہ لگاتے ہیں اور الیکشن والے دن کام پورا ہوجاتا ہے، یہ کراچی کی کھلی حقیقت ہے کہ کراچی میں یہ ہوتا ہے اور ہوتا آیا ہے، اس کے بعد ایم کیو ایم کی تنظیم اتنی مضبوط ہوتی گئی جو نیچے والے تھے، یونٹ اور سیکٹرز کے انچارج تھے کہ ان کے ذریعے بھتہ وصولی اور اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں بھی یہ ملوث رہے چاہے وہ ٹاپ لیڈرشپ کی مرضی سے رہے یا اپنی طاقت پر یہ کام کرتے رہے لیکن یہ ہوا۔ رینجرز کا اس بار جو کراچی میں ٹارگٹڈ آپریشن تھا اس کے بعد کراچی میں قدرے امن آیا اور کراچی پرسکون ہوا، اب یہ جو چیز مصطفی کمال کی صورت میں آرہی ہے، یہ ان کے ایک بہت بڑے اسٹار ، پرائڈ آف ایم کیوا یم کہہ لیں، ان پر الطاف حسین خود بڑا فخر کرتے تھے، وہ آج آکر اگر یہ بات کہہ رہے ہیں اور پی ٹی آئی کے موقف کی تصدیق کررہے ہیں تو اس کی تحقیقات ضرور ہونی چاہئے، تحقیقات کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اگر مصطفی کمال نے رحمن ملک پر الزام لگایا ہے جو اس وقت وزیر داخلہ تھے ، ان کے اوپرا گر یہ الزام لگایا ہے کہ انہیں معلوم تھا کہ ہمارا رابطہ’’ را‘‘ سے رہا ہے اور کون کون لوگ را سے پیسے لیتے رہے ہیں تو یہ بڑا بھیانک الزام ہے۔ایم کیو ایم کے کچھ لوگوں نے اسکاٹ لینڈ یار ڈ میں بھی بیانات قلمبند کروائے ہیں، پاکستانی حکومت باضابطہ طورپر ان سے وہ بیانات لے اور ان کی روشنی میں تحقیقات کرے، اگر مصطفی کمال کہہ رہے ہیں تو مصطفی کمال کو سزا دیں اور اگر رحمن ملک ملوث تھے تو انہیں سزا دیں یا جو لوگ بھی ملوث تھے ان کو سزا ہونی چاہئے کیونکہ یہ معمولی واقعہ نہیں ہے، یہ’’ را‘‘ سے پیسے لینے کا واقعہ ہے، ظاہر ہے اگر’’ را‘‘ فنڈ کررہی ہوگی تو پاکستان کی سلامتی کیلئے نہیں کررہی ہوگی۔ایک اورسوال پر محمد زبیر نے کہا کہ پہلے میں درست کردوں، یہ جو دو دفعہ مسلم لیگ ن کی حکومت 90ʼs میں آئی تھی، دونوں دفعہ ایم کیو ایم کے ساتھ، آپ کو پتا ہے اس وقت جب پہلی دفعہ حکومت تھی، 1990 ء میں نوازشریف وزیراعظم تھے تو سنگل لارجسٹ پارٹی بھی نہیں تھی اور ایم کیو ایم کولیشن پارٹنر کے طور پر تھی جس کی وجہ سے حکومت بنی تھی، باوجود اس کے ، 1992ء کا جو آپریشن تھا اس وقت میاں نواز شریف وزیراعظم تھے، انہوں نے رسک اپنی حکومت کو بھی کیا تھا، اس وقت بھی ایم کیوا یم باہر ہوئی تھی اور 97ء میں جب آئے تھے تو گورنر راج لگایا تھا، حکیم سعید کے قتل کے بعد۔ میرا خیال ہے کہ مسلم لیگ بہت واضح تھی ، یہ نہیں تھا جیسا کہ جنرل پرویز مشرف نے کیا تھا، جنرل پرویز مشرف سب سے زیادہ جوابدہ ہیں، 1999ء میں بہت حد تک امن آچکا تھا، ، جنرل پرویز مشرف کا 1999ء سے ایم کیو ایم کے ساتھ تعلق نہیں تھا، وہ early کے اوائل میں ڈی جی ایم او تھے اور ڈی جی ایم او بہت اہم پوزیشن ہوتی تھی، انہیں اندر کے تمام حالات پتا تھے تو ان سے سب سے زیادہ سوال پوچھنے چاہئیں کہ انہوں نے کیا کیا تھا کہ چاہے ان کے را کے ساتھ تعلقات تھے یا کراچی کے امن کے حوالے سے ایم کیو ایم کا کوئی کردار تھاتو ان کو جواب دینا ہوگا ۔ایک اورسوال پر عمران اسماعیل کا کہنا تھا کہ جیوڈیشل انکوائری میں تو سب کو ہونا چاہئے۔اگر کوئی برانچز جاتی ہیں اگر کہیں سے ان کو طاقت کا انجکشن ملتا ہے تو وہاں تو بالکل جانا چاہئے، اس میں کوئی حرج نہیں، پرویز مشرف کوئی عدالت سے یا انکوائری سے بالا تر نہیں ہوگئے اور وہ ان چیزوں کا سامنا بھی کررہے ہیں، میرا خیال ہے کہ بالکل پرویز مشرف تک بھی جانا چاہئے، میں ابھی زبیر صاحب کی بات سن رہا تھا کہ 92ء کا آپریشن انہوں نے کروایا، اس کے بعد ایم کیو ایم کے پاس پھر چل کر نائن زیرو بھی تو گئے تھے، وہ یاد نہیں ہے، یہ بھی تو طاقت کا ٹیکہ لگاتے رہے، اپنی طاقت کے لئے یہ بھی ان کو ٹیکہ لگاتے رہے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں زاہد حسین بے بتایا کہ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ یہ بریفنگ، سروسز کلب بھی مجھے اچھی طرح یاد ہے، وہاں پر بریفنگ ہوئی تھی جس میں انہوں نے یہ بات کہی تھی کہ یہ ساری چیزیں ہیں، اس کے بعد 1995ء آتا ہے، 1995ء میں مجھے نصیرا للہ بابر کی وہ بریفنگ بھی اچھی طرح یاد ہے جس میں یہ کہا گیا کہ جاوید لنگڑا اور پانچ چھ اور نام تھے کہ کس کیمپ میں ہندوستان میں ان کی باقاعدہ ٹریننگ ہوتی رہی ہے، کہاں سے لوگ جاتے رہے ہیں، بہت تفصیل کے ساتھ ذکر آتا رہا، اس کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ وہی جماعت دس سال تک اقتدار میں اور اہم عہدوں پر شریک رہتی ہے، میرا سوال یہ ہے کہ ہمارا ملک کس قسم کا ہے کہ ایک جماعت پر اتنا سنگین الزام ہے، اگر یہ الزام صحیح تھا تو مجھے آپ کوئی ملک بتادیں جہاں کسی سیاسی جماعت پر ایسا الزام لگے اور اس پر کبھی کوئی مقدمہ تک نہ چلے اور وہ پارٹی اقتدار میں اندر بھی رہے اور باہر بھی رہے، یہ میری سمجھ سے باہر ہے، آج جو باتیں ہورہی ہیں اگر وہ صحیح بھی ہیں تو بھی لوگ ان پر اس وجہ سے یقین نہیں کریں گے کہ کیونکہ وہ دیکھ چکے ہیں کہ ماضی میں بھی اس قسم کے الزامات لگتے رہے ہیں اور پھر وہی پارٹی اقتدار میں بھی آتی رہی ہے۔پروگرام میں حامد میر کے اس سوال کہ بریگیڈیئر امتیاز صاحب نے کہا کہ جناح پور کا الزام آپ کی طرف سے لگا تھا، بعد میں انہوں نے انکوائری کی اور یہ الزام غلط تھا اور جناح پور کے نقشے plant کیے گئے تھے، اصل صورتحال کیا ہے، آپ ہمیں کیا بتائیں گے؟پربریگیڈیئر (ر) آصف ہارون نے کہا کہ میں نے ان کی یہ بات پہلے بھی سنی ہوئی ہے، ابھی بھی جو باتیں ہوئیں وہ بھی سنی ہیں، بات صرف یہ ہے کہ میں آئی ایس پی آر کا حصہ نہیں تھا، میں جی ایچ کیو میں آپریشنز کا ڈائریکٹر تھا، اس وقت کے ڈی آئی ایس پی آر کی ڈیوٹی لگی تھی لیکن وہ وہاں جانے میں متذبذب تھے، اس کے بعد جنرل آصف نواز نے مجھے بھیجا، میری یہاں ریپوٹیشن اچھی تھی، مجھے انہوں نے اس کام کیلئے اس لئے بھیجا کہ یہاں کا میڈیا کہہ رہا تھا کہ ہمیں وہاں کی پوری باتیں معلوم نہیں ہورہی ہیں، مجھے بطور آرمی ترجمان پورے سندھ کیلئے بھیجا گیا تھا، میں پریس بریفنگ سروسز کلب میں نہیں دیتا تھا، مختلف جگہوں پر دیتا تھا، زیادہ تر کور ہیڈکوارٹرز میں بھی ہوتی تھیں، ہوٹلز میں بھی ہوتی تھیں، حیدرآباد، لاڑکانہ سمیت مختلف جگہوں پر میں نے پریس بریفنگز دیں، اس میں جو واقعات ہوتے تھے وہ میں سامنے پیش کرتا تھا، اب جو بات جناح پور کی ہورہی ہے، یہ پھر وہی کہانی توڑموڑ کر پیش کی جاتی ہے جسے میں وضاحت سے پیش کرچکا ہوں، 17جولائی 1992ء کی پریس بریفنگ میری نہیں جنرل سلیم ملک کی تھی جو اس وقت جو او سی فائیو کور ملیر میں تھے، یہ صحافی حضرات جو وہاں سے لائے گئے تھے اس میں میرا کوئی عمل دخل نہیں تھا، مجھے معلوم بھی نہیں تھا، یہاں کے ڈی جی آئی ایس پی آر نے ایک سی ون 30 اسپیشل چارٹر کیا تھا، ان کو پہلے پنو عاقل لے کر گئے، وہاں کے جی او سی نے ان کو دو راتیں رکھا، وہ کچے کے علاقے میں بھی گئے، پھر حیدرآباد میں گئے، جنرل نورعاصم نے ان کو بریفنگ دی، پھر وہ کراچی آئے اور یہاں ان کی بریفنگ ملیر میں ہوئی۔ اس کے بعد جنرل نصیر نے مجھے کہا کہ آپ بھی کچھ بات کریںتو میں نے ان کو کہا کہ جب تین جرنیلوں نے بات کردی تو میرے لئے تو کچھ نہیں رہ گیا، تو انہوں نے کہا کہ آپ میرے طرف سے کور کی طرف سے جو سوال جواب ہیں ان کی بریفنگ کے بعد وہ آپ لیں گے، میں ان کی طرف سے صرف سوال جواب کیلئے روسٹرم پر کھڑا ہوا۔ مختلف سوال جواب ہوئے جن میں ایک سوال جناح پور کے اوپر بھی تھا۔ سوال یہ کیا گیا کہ ہم پریس میں جناح پور کا بہت قصہ سن رہے ہیں، آپ اس کے بارے میں کیا کہنا چاہتے ہیں؟ میں نے کہا کہ جیسے آپ نے سنا اور پڑھا ہے میں نے بھی اسی طرح سنا پڑھا ہے، زیادہ تفصیل مجھے نہیں پتا۔اس پر محمد زبیر نے کہا کہ بالکل غلط۔اسی دور ا ن زاہد حسین کا بھی کہنا تھا کہ غلط کہہ رہے ہیں، نقشے دکھائے گئے تھے۔حامد میر نے سوال کیا کہ کس نے دکھائے تھے؟ زاہد حسین نے کہا کہ بریگیڈیئر صاحب وہاں موجود تھے۔ اس پربریگیڈیئر (ر) آصف ہارون نے کہا کہ سوفیصد غلط ہے، یہ زاہد حسین صاحب اگر کہہ رہے ہیں تو یہ سوفیصد غلط ہے، 18اکتوبر 1992ء کے اخبارات لائیں، اس میں ایک اخبار میں بھی اگر مل جائے کہ نقشے بتائے گئے تھے تو میں ہر سزا کیلئے تیار ہوں، نقشے کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ بریگیڈ یئر (ر) آصف ہارون کا مزید کہنا تھا کہ وہ نقشے بعد میں جنگ اخبار نے 22 تاریخ کو شائع کیے تھے، یہ 17تاریخ کی بریفنگ تھی، اس وقت تک کوئی نقشہ نہیں تھا، میں نے کہا تھا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ کوٹری کے ایم کیو ایم دفتر سے کچھ نقشے اور ڈاکومنٹس، حلف نامے برآمد ہوئے ہیں، ان کے بعد اور سوال ہوا کہ آپ اس کے بارے میں مزید کیا بتائیں گے، میں نے کہا کہ مجھے اس کے علاوہ اور تفصیل نہیں پتا۔ یہ ساری بات ہوئی تھی۔حامد میر کے اس سوال کہ ایم کیوا یم کوٹری کے دفتر سے آپ کے خیال میں واقعی جناح پور کے نقشے برآمد ہوئے تھے؟پر بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون نے کہا کہ بالکل یہ ہوئے تھے،وہاں کے جی او سی جنرل نور عاصم تھے ، میں جب حیدرآباد میں پریس بریفنگ کیلئے گیا توا نہوں نے دفتر میں بلا کر خود مجھے بتایا کہ ہم نے یہاں پر جناح پور اور اردو دیش کے نقشے برآمد کیے ہیں، وہ توا ردو دیش بنارہے ہیں۔بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون نے کہا کہ وہ نقشے مجھے دکھائے نہیں گئے تھے، جنرل نور عاصم نے بھی مجھے نہیں دکھائے تھے، انہوں نے مجھے صرف اتنی بات کی تھی کہ ہم نے دریافت کیے ہیں، یہ نقشہ میں نے دراصل اپنی آنکھوں سے 19جولائی کو دیکھا۔اس پر زاہد حسین نے کہا کہ دیکھا تھا، یہی بات تو ہم کہہ رہے ہیں کہ 19 تاریخ کو نقشہ تھا۔اس دوران بریگیڈیئر امتیاز کا کلپ چلایا گیا جس میں وہ سہیل وڑائچ سے گفتگو کررہے تھے۔حامد میر نے اس دوران بتایا کہ مجھے ایک اور ریٹائرڈ بریگیڈیئر صاحب کا پیغام موصول ہوا ہے، ان کا تعلق بھی کراچی کے 92ء آپریشن سے تھا، وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ بریگیڈیئر آصف ہارون نے براہ راست جناح پور کا الزام نہیں لگایا تھا لیکن نقشے برآمد ہوئے تھے اور آگے چل کر انہوں نے ایک اور بات لکھی ہے کہ ایم کیو ایم کا جو عسکری ونگ ہے اس کی بحالی جنرل پرویز مشرف کے دور میں ہوئی ہے، اب زبیر صاحب یہ بڑے ذمہ دار فوجی افسر ہیں، چونکہ انہوں نے مجھے اجازت نہیں دی اس لئے میں نے ان کا نام نہیں لیا لیکن سب لوگ ان کو بھی بڑی اچھی طرح جانتے ہیں۔ یہ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ مصطفی کمال نے رحمن ملک کا نام تو لے لیا کہ ایم کیو ایم کے’’ را‘‘ کے ساتھ تعلقات ہیں لیکن جو ایک آرمی چیف تھے اور پاکستان کے صدر تھے ان کے بارے میں وہ نہیں بولے، حالانکہ ان کا بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ ایم کیوا یم کے ساتھ ان کے بہت قریبی تعلقات ہیں۔ میں آپ کو سنانا چاہتا ہوں پرویز مشرف نے 2013ء کے الیکشن سے پہلے ایم کیو ایم کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے کیا باتیں کی تھیں۔اس دوران پرویز مشرف کا کلپ چلایا گیا۔جس میں پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ کراچی سے میں ایک سیٹ سے لڑنے والا ہوں، اس میں دیکھتے ہیں کون کون مجھے سپورٹ کرتا ہے، سپورٹ کرنے والی پارٹی، ظاہر ہے ایم کیو ایم ہے، دیکھیں ایم کیو ایم کے ساتھ میرے تعلقات کوئی آج نہیں ہیں، میرے تعلقات ان سے 1999-2000 ء سے ہیں۔ میرے تعلقات ایم کیو ایم کے ساتھ رہے ہیں، یہ نئی بات نہیں ہے، دس گیارہ بارہ سال سے ہیں اور ان سے میرے تعلقات رہے ہیں، اور مجھے امید ہے کہ ہم کراچی میں ان کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ کرسکیں گے۔ زاہد حسین نے کہا کہ میں ایک آدمی کی بات نہیں ،تمام تر طرزعمل کی بات کررہا ہوں، 90ʼs میں میں نے آپ کو قصہ سنایا، 89 ء میں ، اس کے بعد بھی مختلف اوقات میں اسٹیبلشمنٹ کے ان کے ساتھ تعلقات رہے ہیں کوئی نئی بات نہیں ہے، love hate کی بات نہیں تھی بلکہ ایک useable پارٹی تھی جسے وقت کے دوران استعمال کیا جاتا تھا، بعد میں جب دیکھا جاتا تھا کہ وہ اپنے قد سے بہت بڑھ گئی ہے ، اس کے اثرات بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں تو اس کے پر بھی کاٹنے کی کوشش کی جاتی تھی، یہ تعلقات رہے ہیں، جہاں تک را کی بات ہے، بار بار ایک چیز دہرائیں گے، اب تو بات ثابت ہوگئی کہ نقشے چاہے کوٹری سے برآمد ہوں یا کراچی سے برآمد ہوں ان کی ایک پوزیشن تو تھی کہ جناح پور کی ایک سازش موجود ہے، اب مسئلہ یہ آتا ہے کہ اگر اتنا سیریس معاملہ تھا تو ان کے اوپر اس وقت کیس کیوں نہیں چلایا گیا ، یہ اسٹیٹ کا معاملہ ہے کسی حکومت کا معاملہ نہیں ہے، یہ ایک فرد یا پارٹی کا معاملہ نہیں ہے، اگر آپ کے پاس اتنے زیادہ شواہد تھے تو کیا وجہ ہے کہ اس پر کبھی مقدمہ نہیں چلایا گیا، کیا اس کا مطلب ہے کہ یہ سب بارگننگ کیلئے تھا، یہ تمام چیزیں بلیک میلنگ کیلئے تھیں یا اس میں حقیقت تھی، اگر حقیقت تھی تو تمام لوگ اس جرم میں شریک ہیں۔ایک سوال پر بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون نے کہا کہ صولت رضا میرے ماتحت کام کررہے تھے،وہ آئی ایس پی آر میں بطور میجر تھے۔ میں بریگیڈیئر تھا، دوسرے اس وقت میجر چشتی تھے، ایک اور کرنل علوی تھے، ہماری یہ ٹیم وہاں پر اکٹھے کام کررہی تھی، بریگیڈیئر صولت رضا نے 2009ء میں میڈیا میں کنفرم کیا کہ واقعی نقشے برآمد ہوئے تھے، پھر میجر ندیم ڈار کا آپ کو یاد ہوگا کہ نائن زیرو پر میں تھا رینجرز میں اور ایک ہزار سے زیادہ کاپیاں ہم نے کی تھیں، اس کے علاوہ جنرل شعیب امجد نے کہا کہ میرے ٹروپس وہاں لگے ہوئے تھے اور مجھے معلوم ہے کہ وہاں نقشے دریافت ہوئے تھے، جنرل صفدر علی خان جو پہلے حیدرآباد میں جی او سی میں تھے تو انہوں نے یہ کنفرم کیا، بہت سے لوگوں نے یہ کہا کہ نقشے برآمد کیے، میں نے خود بھی پھر وہ نقشہ دیکھا، جنرل نورعاصم نے خود کہا تھا کہ یہ ہم نے وہاں سے دریافت کیے ہیں تو نقشے تو بالکل تھے، وہ نقشے کور ہیڈکوارٹر میں بھی تھے فائیو کور میں، جی ایچ کیو میں بھی تھے، آئی ایس آئی میں بھی تھے۔اس سوال پر کہ پرویز مشرف صاحب کو پتا نہیں چلا؟بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون کا کہنا تھا کہ کیوں نہیں پتا، حد ہوگئی ہے، یہ سب چیزیں تھیں، ابھی مجھے پتا ہے کہ وہ تو میں نے ایک سوال کا جواب دیدیا، اس سوال کے جواب میں اگلے دن جس طریقے سے سنسنی پھیلائی گئی اور بہت زیادہ اس کو بڑھایا چڑھایا گیا اس کا اثربراہ راست الطاف حسین کے اوپر پڑا اور انہوں نے سیاست سے استعفیٰ دے دیا ،ختم ہوگئے، وہ خاتمہ ہوگیا تھا، پھر کس نے انہیں پانی دیا۔اس پر محمد زبیر نے کہا کہ بالکل غلط کہہ رہے ہیں، میں نے تو 92ء کا بھی ذکر کیا تھا، وہ کولیشن سے نکل گئے تھے، پھر 97-98ء میں پھر کولیشن سے نکلے تھے، یہ بھی میں عمران اسماعیل کو کراچی اور پاکستان کی تاریخ بتادوں کہ ایم کیوا یم نے 1988ء سے جب سے انتخابی سیاست میں حصہ لینا شروع کیا ہے، پہلی دفعہ 2013ء میں مسلم لیگ ن کی حکومت آئی اور ان کو اپنی حکومت میں حصے دار نہیں بنایا، پچیس سال کی ہسٹری میں یہ پہلی دفعہ ہے، ساتھ ساتھ ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ مصطفی کمال وغیرہ سے سوال یہ پوچھتے ہیں، یہ بہت سیریس الزامات ہوتے ہیں، آپ کو کب پتا چلا تھا کہ وہ ’را‘ کے ساتھ ہیں اور آپ نے یہ حقیقت پہلے کیوں نہیں بتائی تھی، ابھی جو آپ کہہ رہے ہیں الطاف حسین نے نسلیں تباہ کردیں تو جو اس کے مخالفین ہیں وہ پچیس سال پہلے سے کہہ رہے ہیں تو آپ کی آنکھیں کیوں بند تھیں ،ساکھ کی بہت اہمیت ہوتی ہے،میرا خیال ہے مصطفیٰ کمال کی ساکھ بالکل بھی نہیں ہے، اس لئے کہ وہ ڈارلنگ تھے، آج بھی ویڈیوز چلتی ہیں جس میں الطاف حسین ان کو پیار کررہے ہیں۔ایک سوال پر عمران اسماعیل نے کہا کہ بے شک ان کی مرضی ہے وہ قانونی راستہ اختیار کریں یا نہ کریں، مملکت خداداد پاکستان میں کیا فرق پڑتا ہے، وہ بیٹھے ہیں انہوں نے اتنی بڑی بڑی باتیں کی ہیں ، وہ اس پارٹی کے لیڈر ہیں، کراچی کے میئر رہے ہیں، وہ اس پارٹی کے لیڈر ہیں جس کا ہاتھ کراچی کی رگ پر ہے اور جس کی وجہ سے یہاں پر rest اور unrest ہوتے ہیں، اس لیڈر کے اوپر انہوں نے الزام لگائے ہیں، اس پارٹی پر الزام لگائے ہیں اور بڑے الزام لگائے ہیں، ہماری حکمراں جماعت کو اتنی تکلیف بھی نہیں ہورہی کہ اس کی تحقیقات ہی کرالیں، دوچار لاکھ روپے اس پر بھی خرچ کریں، وہ بھی کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں تو پھر چھوڑیں جو جس کی مرضی کہتا رہے، میں اگرا ٓج بیٹھ کر کہہ دوں کہ نواز شریف کے را سے رابطے ہیں تو میری انکوائری شروع ہوجائے گی، آپ بادشاہ حضور کو کچھ نہیں کہہ سکتے، باقی ملک میں جو ہوجائے، مصطفی کمال نے رحمن ملک پر الزام لگادیا، رحمن ملک نے الطاف حسین کے اوپر لگادیا، جس کے اوپر الزام لگایا سب آزاد ہیں، اس کے اوپر انکوائری ہی نہیں ہونی ہے۔ایک سوال کے جواب میںزاہد حسین نے کہا کہ انکوائری کیسے، ایک بات مجھے بتایئے جے آئی ٹی کی رپورٹ موجود ہے کہ بلدیہ ٹائون میں، اس پر اب تک کیس کیوں نہیں چلا ہے۔
تازہ ترین