• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر سلطانہ بخش

اردو پاکستان کی قومی، علمی اور ثقافتی زبان ہے۔ اگر چہ اسے سرکاری حیثیت حاصل نہیں ہے، تاہم یہ بڑی جامع زبان ہے۔ اس کی اپنی تاریخ ہے اور اس کے دامن میں بڑی وسعت ہے۔ اردو زبان کا شمار بھی دنیا کی بڑی زبانوں میں ہوتا ہے۔ یونیسکو کے اعداد دوشمار کے مطابق عام طور پر بولی اور سمجھی جانے والی زبانوں میں چینی اور انگریزی کے بعدیہ تیسری بڑی زبان ہے اور رابطے کی حیثیت سے دنیا کی دوسری بڑی زبان ہے ۔ کیوں کہ برصغیر پاک و ہند اور دنیا کے دوسرے خطوں میں اسّی کروڑ سے زیادہ افراد اسے رابطے کی زبان کی حیثیت سے استعمال کرتے ہیں ۔ اردو مشرقِ بعید کی بندرگاہوں سے مشرق وسطی اور یورپ کے بازاروں ، جنوبی افریقا اور امریکا کے متعدد شہروں میں یک ساں مقبول ہے۔ یہاں ہر جگہ اردو بولنے اور سمجھنے والے مل جاتے ہیں۔ یہ زبان ایک جان دار اظہار اور اظہار کا جان دار ذریعہ ہے۔

اردو زبان کو تو عام طور پر سولہویں صدی سے ہی رابطے کی زبان تسلیم کیا جاتا ہے۔ یہ تسلیم شدہ امر ہے کہ اس رابطے کی توسیع عہدِ مغلیہ میں فارسی زبان کے واسطے سے ہوئی۔ اردو زبان کی ساخت میں پورے برّصغیر کی قدیم اور جدید بولیوں کا حصّہ ہے۔ یہ عربی اور فارسی جیسی دو عظیم زبانوں اور برّصغیر کی تمام بولیوں سے مل کر بننے والی ، لغت اور صوتیات کے اعتبار سے دنیا کی سب سے بڑی اور قبول عام کے لحاظ سے ممتاز ترین زبان ہے۔

یہ ایک زندہ زبان ہے اور اپنی ساخت میں بین الاقوامی مزاج رکھتی ہے۔ یہ زبان غیر معمولی لسانی مفاہمت کا نام ہے۔ اس کی بنیاد ہی مختلف زبانوں کے اشتراک پر رکھی گئی ہے۔ اردو گویا بین الاقوامی زبانوں کی ایک انجمن ہے، ایک لسان الارض ہے، جس میں شرکت کے دروازے عام و خاص، ہر زبان کے الفاظ پریک ساں کھلے ہوئے ہیں ۔ اردو میں مختلف زبانوں مثلاً ترکی ، عربی فارسی ، پرتگالی، اطالوی، چینی ، انگریزی ، یونانی، سنسکرت اور مقامی بولیوں اور بھاشایا ہندی سے الفاظ لیے گئے ہیں۔

غیر زبانوں سے جو الفاظ بہ راہ راست اردو کے ذخیرۂ الفاظ میں شامل ہو گئے ہیں ان میں7584 الفاظ عربی کے،6041 الفاظ فارسی کے،105 الفاظ ترکی کے، گیارہ الفاظ عبرانی کے اور سات الفاظ سریانی زبان کے ہیں۔ مزید یہ کہ یورپی زبانوں میںسے انگریزی کے پانچ سو، اور ایک سو تریپن الفاظ ایسے ہیں جو مختلف یورپی زبانوں ، یونانی، لاطینی ، فرانسیسی، پرتگالی ، اور ہسپانوی زبانوں سے مستعار لیے گئے ہیں ۔اردو میں شامل اصل دیسی الفاظ کا تناسب سواتین فی صد ، سامی ، فارسی، اور ترکی زبان کے الفاظ تقریباً پچّیس فی صد اور یورپی الفاظ کا تناسب صرف ایک فی صد ہے۔ اس جائزے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اردو ایک بین الاقوامی مزاج کی حامل زبان ہے۔ اس میں نہ صرف عربی، فارسی یا مقامی بولیوں کے الفاظ ہیں، بلکہ دنیا کی ہر قوم اور ہر زبان کے الفاظ کم و بیش شامل ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اردو کے مزاج میں لچک اور رنگارنگی ہے۔ لیکن وہ کسی زبان کی مقلّد نہیں ہے، بلکہ صورت اور سیرت دونوں کے اعتبار سے اپنی ایک الگ اور مستقل زبان کی حیثیت رکھتی ہے۔

غیر زبانوں کے جو الفاظ اردو میں شامل ہیں وہ سب کے سب اپنے صلی معنوں اور صورتوں میں موجود نہیں، بلکہ بہت سے الفاظ کے معنی، تلفظ، املا اور استعمال کی نوعیت بدل گئی ہے ۔ اردو مخلوط زبان ہونے کے باوجود اپنی رعنائی، صنّاعی اور افادیت کے لحاظ سے اپنی جداگانہ حیثیت رکھتی ہے۔ اس نے اپنی ساخت ، مزاج اور سیرت کو دوسری زبانوں کے تابع نہیں کیا۔ ان ہی ظاہری ومعنوی خصوصیات اور محاسن کے اعتبار سے یہ دنیا کی اہم زبانوں میں شمار کی جاتی ہے۔

کسی زبان کی آوازوں اور کلمات کوضبط تحریرمیں لانے کے لیے جو مربوط نظام وضع کیا جاتا ہے اسے رسم الخط کہتے ہیں ۔ علمائے لسانیات کے نزدیک ایک اچھے رسم الخط کے لیے ضروری ہے کہ اس میں زبان کی ہر آواز کے لیے ایک مخصوص نشان ہو جو اس آواز کو واضح طور پر ادا کر سکے اور دوسرے وہ رسم الخط کی صورت کے لحاظ سے جاذب نظر اور عملی لحاظ سے سہل ہو۔

اردو رسم الخط زبان کی ساری مروّج آوازوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ اردو کے حروف بناوٹ کے لحاظ سے حددرجہ سادہ اور اشکال کے اعتبار سے بہت کم ہیں ۔ اردو زبان اپنے الفاظ کی بناوٹ کی بناء پر دنیا کی ہر زبان کے مقابلے میں لکھنے ، پڑھنے اور سیکھنے کے حوالے سے آسان ترین زبان ہے۔ اس کے علاوہ اردو زبان میں اخذ و جذب کی بے پناہ صلاحیت ہے۔ یہ ایک قائم بالذات زبان ہے۔ اس میں یہ صلاحیت ہے کہ دوسری زبانوں سے مفید مطلب الفاظ لے لیتی ہے۔ اگر وہ لفظ اس کے مزاج سے ہم آہنگ ہے تو جوں کا توں رہنے دیتی ہے اور اگر ہم آہنگ نہیں ہو تو اسے ہم آہنگ بنا لیتی ہے۔ اردو اپنے مزاج میں وسیع القلب زبان ہے۔

کسی زبان کی ترقی کا انحصار اس کی الفاظ سازی کی اہلیت اور انہیں برتنے کی قوّت پر ہوتا ہے ۔ اردو میں یہ صلاحیت بہ درجہ اتم موجود ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت اردو زبان میں عام طور پر استعمال ہونے والے لفظوں کی تعداد تین لاکھ سے زیادہ ہے۔ اصطلاحی الفاظ ان کے علاوہ ہیں۔ الفاظ کا اتنا بڑا ذخیرہ انگریزی کے علاوہ غالباً کسی اور زبان میں نہیں ہے۔ اور چوں کہ یہ بین الاقوامی مزاج کی حامل زبان ہے لہذا اس حیثیت سے اصلاحات سازی کی عالمی کوششوں سے یک ساں استفادہ کر سکتی ہے۔

یہ زبان اپنی لسانی مفاہمت اور افادیت کے علاوہ اپنے اندر ایک تہذیبی اور ثقافتی پہلو بھی رکھتی ہے۔ یہ اپنے علمی ، ادبی اور دینی سرمائے کے اعتبار سے بڑی باثروت زبان ہے ۔اس میںوسعت پذیری کی بے پناہ طاقت ہے۔ یہ جتنی وسیع ہے، اتنی ہی عمیق بھی ہے۔ دینی اور دنیاوی علوم و فنون کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ پھر بھی اس کی گنجائش بے اندازہ ہے ۔ اردوہماری تہذیب و ثقافت کی آئینہ دار ہے ۔ دنیا کی قدیم زبانوں کے مقابلے میں اگرچہ یہ کم عمر ہے، لیکن ادبی اور لسانی حیثیت سے اس کا پلہ سیکڑوں زبانوں سےبھاری ہے۔ اس میں ہماری تہذیب و ثقافت کی تاریخ محفوظ ہے۔ اس کی بہ دولت ہم اپنے آپ کو ایک متمدّن اور ترقی یافتہ قوم کا جانشیں خیال کرتے ہیں۔

یہ چوں کہ بین الاقوامی مزاج رکھتی ہے اور محبّت کی زبان ہے اس لیے مغرب کے لیے اجنبی ہےاور نہ مشرق کے لیے۔ یورپ کے لوگ کئی صدیوں سے اس زبان سے واقف ہیں اور انہوں نے اس زبان میں گراں قدر علمی و ادبی کارنامے بھی یادگار چھوڑے ہیں۔ یورپ کے علاوہ دنیا کے مختلف ممالک میں اردو زبان و ادب کے تراجم پر کئی زبانوں میں کام ہو رہا ہے ۔ اسی طرح اردو میں بھی متعدد زبانوں کی تخلیقات کے تراجم ہوئے اور ہو رہے ہیں۔

اگرچہ اس میں شک نہیں کہ اردو ایک جامع زبان ہے۔ تاہم اس کے تحفظ اور اس کی اہمیت کو تسلیم کرانے کے لیے ہمیں چند نکات پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے اور اس کے لیے لائحہ عمل مرتب کیا جانا چاہیے۔ اول یہ کہ غیر ملکی زبانوں کے سائنسی علوم و فنون کو اردوکے قالب میں ڈھالا جائے۔ دوم، اردو کو حکومت کی سرپرستی حاصل ہونی چاہیے تاکہ عالمی سطح پر اس کی اہمیت واضح ہو سکے اور اس کا وقار قائم ہو۔اس کے علاوہ اردو دشمنی کے رویّے اور رجحان کا سدباب ضروری ہے۔

تازہ ترین