• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمیں تو کوئی تحفظ دو، ہمیں بھی کوئی پوچھے، تم سے کوئی بھیک تو نہیں مانگ رہے، ہر دور میں ہر حکومت نے وعدہ کیا، تم کچھ کر نہیں سکتے سرکاری نوکری دے نہیں سکتے لیکن ہمیں اپنا کاروبار تو کرنے دو۔ یہ قرضے تو ہم نے ہی پورے کرنے ہیں۔ اوہ بھائی! ہوٹل میں بارہ بندے کام کررہے ہیں ان کا چولہا نہیںجل رہا۔12 کو 12 سے ضرب دو144 بندے ہوگئے نا ، اور تم ہو کہ ہمیں اندرسے(ہوٹل سے) اٹھا کر لے جارہے ہو، بھائی! تم لوگ کہہ رہے ہو کہ تم کاروبار کیوں کررہے ہو؟ تم لوگ ہمیں مجبور کررہے ہو کہ فٹ پاتھوں پرنکل جائیں، چوریاں کریں، ڈاکے ماریں اور جو آتا ہے اسے لوٹیںاور چھینیں، ہمیں ادھر گودام میں ذخیرہ کرو (قید کرو) تم ختم کرو عوام کو، جائو دے دو یہ ملک کسی غلام پرست قوم کو۔ جدھر جائو دھکے کھاتا ہے یہ غریب۔ جدھر جائو ذلیل ہو کر آتا ہے یہ غریب۔ کبھی کسی حکمران نے پوچھا ہے کہ یار! تم کیا ہو؟ کیسے ہو؟ کیا کررہے ہو؟ آج اگر میڈیا ہماری مدد کو آجاتا تو کیا جاتاتھا میڈیا کا؟ جائو خبر نامہ دیکھو، نیوز سنو، بیٹھ جائو کسی چینل کے سامنے۔ آج ’’اسحاق ڈار’’ کو پکڑ لیا، آج فلانے ڈار کو پکڑ لیا۔ آج ایک اور چور پکڑا گیا، کل دوسرا موالی پکڑا گیا۔ کوئی ہمیں بھی پکڑ کے لائو نا(ہماری مدد کو آئونا)۔ کسی دن ہمیں بھی کھینچ کر لائو نا(ہمارا حال پوچھو نا) کہ بھائی! تم کیوں اتنی بھری جوانی میںرو رہے ہو؟ آنسو کیوں بہا رہے ہو؟ سنو! جوان کا آنسو موت ہوتا ہے موت۔ آج میں ہزاروں بندوں کے سامنے رو رہا ہوں یہ میری موت ہے۔آج میں بے بس ہو کراپنے مال کے لٹنے پر رو رہا ہوں۔

چنیوٹ کی ایک ننھی پری میری آنکھوں کے سامنے ہے جسے ایک پھل فروش نے اس کی ریڑھی سے چند روپے چوری کرنے پر پکڑ کر موٹی موٹی دو رسیوں سے ہاتھ پائوں باندھ کر بیچ چوراہے بٹھا دیا ہے۔ وہ ننھی پری بے حس لوگوں کے سامنے چیخیں مار رہی ہے ، فریاد کررہی ہے، اپنی ماں کو یاد کرکے لوگوں سے التجا کررہی ہے کہ مجھے جانے دو۔ اس کے آنسو تھے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لیتے اور بے حس لوگ یہ تماشا دیکھ رہے ہیں کوئی یہ نہیں سوچتا کہ آخر چار پانچ سال کی یہ بچی پیسے چوری کرنے پر مجبور کیوں ہوئی؟ کوئی یہ نہیں سوچتااس ننھی پری کو بیچ چوراہے رسیوں سے باندھ کر جو تماشا لگایا گیا ہے کیا یہ ہمارا انصاف ہے، عدل ہے اور اسے کیا نام دیں گے آپ،کیا یہ ہمارا مستقبل ہے۔ کوئی یہ نہیں سوچتا کہ سرعام تماشا دیکھنے کی بجائے اس کو سینے سے لگائے اس کو پیار کرے ، اس کو نئے کپڑے لے کر دے، سکول میں داخل کرائے، چاکلیٹ کھلائے، وہ تمام ارمان پورے کرے جو ہم ماں باپ اپنے بچوں کی خواہشات پوری کرنے کی خاطر کرتے ہیں۔ حکمران تو حکمران بحیثیت انسان ہم سب ہی بے حس ہو چکے ہیں۔ کسی دم توڑتے شخص کو سہارا دینے کی بجائے اس کی تڑپتی لاش کے ساتھ سیلفیاں بنانے اور اسے سوشل میڈیا پر وائرل کرنے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ عجیب بے حس معاشرہ ہے اپنی ہی بیٹیوں کو بیچ چوراہے تماشا بنانے پر خوشی محسوس کرنے لگا ہے۔ اگر آج ہم بحیثیت مجموعی بے حس نہ ہوتے تو ہمارے معاشی، سماجی حالات بھی ایسے ابتر نہ ہوتے۔ ہماری بدحالی کی وجہ صرف حکمران نہیں ہم خود بھی ہیں۔ ہمارے ضمیر کی بے حسی ہے جو ہمارے اندر چپے چپے پر پھیلی ہے۔ ہم اپنی ہی زنجیروں میں جکڑے ہیں اور توقع رکھتے ہیں حکمرانوں سے۔ وہ تو آتے ہی مال بنانے ہیں۔ ایک نوجوان کی جمع پونجی لٹنے اور چار پانچ سال کی معصوم پری کو رسیوں سے باندھ کر تماشا دیکھنے والی قوم کو راحت، سکون، آسودگی کیسے میسر آسکتی ہے۔ ایسی قوم پر صرف تنگیاں اور مشکلات ہی آتی ہیں۔ آپ محل مانگتے ہیں، بھرے خزانوں کے خواب دیکھتے ہیں۔ آپ ہی قومی خزانے لوٹنے والوں کوفرشی سلام پیش کرتے ہیں۔ اعلیٰ عہدوں پر فائز کرتے ہیں لیکن یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ آپ بھی بے ضمیرہیں۔ دوسروں کی بے بسی کا تماشا دیکھنے والے ہمیشہ محکوم ہی رہتے ہیں، عزت و وقار ان کے مقدر میں نہیں ہوتے بلکہ ذلت و رسوائی کے گڑھے ان کے منتظر ہوتے ہیں۔ جب تک ہم اپنا حق مانگنے سے پہلے اپنا فرض ادا کرنے کی روش اختیار نہیںکریں گے اسی طرح چلاتے رہیں گے۔ رسیوں میں بندھی ننھی پری ایک لڑکی نہیں بلکہ پوری قوم کی بیٹی ہے۔ اگر اس کے ساتھ ہونے والے سلوک پر بھی اہل علاقہ کا دل نہیں پسیجا، ان کی غیرت نہیں جاگی تو پھر آج کی انسانیت گئی گھاس چرنے۔ کہاں تھے اُس وقت وہاں کے حاجی نمازی؟ جھوٹا وقار، جھوٹی عزت اور اونچا شملہ اندر کے جانور کو تھپکی دے کر سلایا نہیںکرتے بلکہ اسے جھنجھوڑ کر اس کی آنکھیں کھلی رکھتے ہیں تاکہ اپنی حیوانیت سے وہ اپنی انا کی تسکین کرتا رہے۔ بے حسی کی ان حدوں کو چھونے کے بعد بھی کیا ہم انسان کہلانے کے حق دار ہیں، کیا ہمیں پھر بھی شور مچانا چاہئے کہ ہمیں ہمارے حقوق دو۔ کیا ہماری بے حسی کی ذمہ دار بھی استعماری طاقتیں ہیں؟ جانے دیجئے جناب جانے دیجئے! اپنے چہرے سے انسانیت کا نقاب اتاریئے۔ آپ کا ووٹ بھی بے ضمیری کا، آپ کے ووٹ سے منتخب ہونے والے حکمران بھی بے ضمیر۔ آپ چند روپے چرانے والی معصوم بچی کو رسیوں سے باندھ کر بیچ چوراہے اپنے حقوق کی کیسے بات کرسکتے ہیں؟ معصوم بچوں، نوجوانوں کا حق چھین کر کون سے روشن مستقبل کے خواب دیکھ رہے ہیں؟ معاشرے کا ایک آدھ بندہ بے حس ہوتا تو کوئی اور بات تھی یہ تو ممکن ہے کہ ہزار انسانوں میں سے کوئی ایک آدھ بے حس نکل آئے لیکن ایک مہذب معاشرے میں یہ کس طرح ممکن ہے کہ پورے کا پورا ہجوم ہی معصوم بچی کا تماشا دیکھنے بیٹھ جائے۔ چنیوٹ کی معصوم کلی اور کراچی کے نوجوان کی چیخیں، فریادیں سن کر اگر کسی حکمران ، کسی شخص ، کسی ماں، کسی باپ، کسی بہن، کسی بھائی کو اپنے گھر میں بیٹھی ماں، بہن، بیٹی یاد نہیں تو تف ہے ایسے معاشرے اور اس کی ترقی کے خوابوں پر اور ہم دیکھ رہے ہیں خواب ریاست مدینہ کے۔ آپ تو اس ریاست کی خاک کے برابر بھی نہیں جس کا تذکرہ اپنی زبان پر لاتے ہوئے آپ اپنے معاشرہ کی حالت ِزار سے اپنی آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں۔

تازہ ترین