ماس میڈیا کا مطلب ہے کہ ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے لوگوں کے ایک چھوٹے گروپ کے ذریعے بہت بڑے گروپ سے بات کی جائے۔ 1920ء میں یہ خیال ترقی پسند دور میں سامنے آیا کہ اشرافیہ کے نظریات کو اخبارات، ریڈیو اورفلم کے ذریعے عوام الناس تک پہنچایا جائے۔ حقیقت تو یہی ہےکہ یہ تین روایتی میڈیا یعنی پرنٹ ( اخبار، کتاب اور رسائل )، براڈ کاسٹ ( ٹی وی اور ریڈیو) اور سنیما (فلم اور ڈاکیومینٹریز) آج بھی موجود ہیں اور بھرپور کام کررہے ہیں۔ تاہم انٹرنیٹ کی آمد نے ماس میڈیا کی نوعیت کو بھی کچھ حد تک تبدیل کر دیا ہے۔ اس نے ایسی آڈیئنس پیدا کی ہے، جو اپنا میڈیا خود تخلیق کرنےلگی ہے اور اس کے تخلیق کیے گئے مواد پر لوگوں نے رد عمل بھی ظاہر کرنا شروع کردیا ہے۔ ایک اسمارٹ میڈیا صارف اپنے نقطۂ نگاہ کو بآسانی اب دنیا کے سامنے لا سکتاہے، کسی پروپیگنڈ ہ کا باعث بن سکتاہے، اس کا حصہ بن سکتا ہے یا کسی بھی حوالے اسے اپنا جھکائو کسی جانب ظاہر کرسکتا ہے۔
ماس کمیونیکیشن یا ابلاغِ عامہ کی بات کی جائے تو ماس میڈیا اس کیلئے ٹرانسپورٹ یا میڈیم کا کردار ادا کرتا ہے، یعنی عوام الناس تک تیزی سے، بہت بڑے پیمانے پر اور تسلسل سے پیغام پہنچانا ماس میڈیا کی ذمہ داری ہے، تاکہ کم وقت میں زیادہ سے زیادہ لوگ اس پیغام سے متاثر ہو سکیں۔
امریکن کمیونیکیشن اسکالرز میلوین ڈی فلر اور ایوریٹ ڈینس کے مطابق ماس کمیونیکیشن کی پانچ اسٹیج ہوتی ہیں:
1۔ پیشہ ور کمیونیکیٹرز مختلف اقسام کے ’پیغامات‘ تخلیق کرتے ہیں،جو انفرادی سطح پر پیش کیے جاتے ہیں۔
2۔ یہ پیغامات چند میکینکل میڈیا کے توسط سے ’تیزی اور تسلسل سے‘ پھیلائے جاتے ہیں ۔
3۔ان پیغامات کو لوگوں کی بہت بڑی اور مختلف النوع اکثریت وصول کرتی ہے۔
4۔ لوگ اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق ان پیغامات کو لیتے اور اپنے معنی پہناتے ہیں۔
5۔ ان پیغامات سے لوگ متاثر ہوتے ہیں یا پھر اپنا نظریہ بدل لیتے ہیں۔
ماس میڈیا پر اس کے علاوہ کمرشل ایڈورٹائزنگ اور سیاسی مہمات بھی چلتی ہیں۔ رفاہِ عامہ کے پیـغامات یعنی پبلک سروس میسج بھی لوگوں تک پہنچائے جاتے ہیں، جو زیادہ تر صحت عامہ کے حوالے سے (مثلاً انسداد تمباکو نوشی یا ٹی بی وغیرہ سے بچائو کے بارے میں) ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ماس میڈیا کو حکومتیں اپنے مقاصد اور نظریے کے ابلاغ کیلئے بھی استعمال کرتی ہیں۔ دنیا بھر میں ہونے والے کھیلوں کے مقابلے جیسے کہ ورلڈ کپ، ومبلڈن یا مقامی ایونٹس وغیرہ کو براہ راست پہنچانے کا کام بھی ماس میڈیا کے ذمہ ہے۔
ماس کمیونیکیشن یا ماس میڈیا کی تعلیم کو باقاعدہ شکل 1950ء کی دہائی میں گئی، جب ٹیلی ویژن دنیامیں عام ہونے لگا اور تعلیمی اداروں نے اس کے ڈپارٹمنٹ قائم کرنا شروع کردیے۔ ماس کمیونیکیشن یا ماس میڈیا کے حوالے سے بچوں اور جوانوں پر ابتدائی طور پر ادراکی، جذباتی، رحجاناتی اور سماجی اثرات پیدا کیےجاتے ہیں۔ 1990ء کی دہائی میں محققین نے میڈیا کےاستعمال کی وجہ سے رونما ہونےوا لی رویہ جاتی تبدیلیوں پر تشویش کا اظہارکیا اور تحقیقات شروع کردیں۔ میڈیاجب سوشل میڈیا میں ڈھلا تو اس کے گہرے اثرات نہ صرف لوگوں پر بلکہ حکومتوں اور انتخابات پر بھی نظر آنے لگے، جس کی ایک مثال 2016ء میں امریکا میں ہونے والےصدارتی انتخابات ہیں، جس کے نتائج کے حوالے سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ فیس بک کے بانی کو بھی صارفین کے ڈیٹا کے حوالے سے سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔
ماس کمیونیکشن کے بعد ماس سیلف کمیونیکیشن کی اصطلاح وجو د میں آگئی ہے اور روایتی ماس میڈیا نے اسے ’’ پُش ٹیکنالوجی ‘‘ کا نام دیا ہے، جس کے تحت آپ کوئی بھی مواد تخلیق کرتے ہیں تو اسے آگے پہنچانے کیلئے ایک بٹن ’’ پُش ‘‘ یا کلک کرنا پڑتاہے اور وہ وائرل ہوتے ہوئے آگے پہنچتا چلا جاتا ہے۔ اس کے صارفین اور مواد تخلیق کرنے والے (پروڈیوسر) دونوں ایک دوسرے کے لیے گمنا م ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں صارفین کے پاس ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے کہ وہ اسے استعمال کریں یا نہیں۔ مثال کے طورپر اگر صارف فلم دیکھنے جارہا ہے یا کتا ب خریدنے جار ہاہے تو وہ جانتا ہے کہ اس فلم یا کتاب میں کیا کچھ ہوسکتاہے جبکہ سوشل میڈیا پر کچھ بھی مواد کھولنے سے پہلے وہ نہیں جانتاکہ ا س میں سے کیا نکلے گا۔
ماس میڈیا کی تعلیم بہت تیزی سے سفر کررہی ہے اور جب سے کمپیوٹر عام ہوا ہے، یہ ٹیکنالوجی یعنی کمپیوٹر میڈی ایٹڈ کمیونیکیشن (Computer-Mediated Communication) نے پیغام کی ترسیل کو بہت ساری جہتیں عطا کی ہیں، جیسے کہ ٹیلی کانفرنسنگ کے ذریعے ایک فرد کئی لوگوں اور مختلف ممالک میں بیٹھے گروپس سے بات کرسکتاہے۔ اگر آج کی دنیا میں کمیونیکیشن کو دیکھیں تو کمیونیکشن کیلئے اب آڈیو کے ساتھ ساتھ ویژول کمیونیکیشن بھی عام ہو چکی ہے۔