• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بہت سی چیزوں اور رویوں کے ساتھ ساتھ کچھ الفاظ ہمارے معاشرے سے غائب ہو چکے ہیں۔ میں پورے پاکستان کی بات نہیں کر رہا۔ میں کنویں کا مینڈک ہوں۔ میرا کنواں کراچی ہے۔ میں کراچی کی بات کر رہا ہوں۔ نظر آنے والی اور چھوکر دیکھنے اور محسوس کرنے والی بہت سی چیزیں کراچی سے غائب ہو چکی ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے کراچی سے ٹرام وے سسٹم غائب ہو گیا۔ ڈبل ڈیکر بسیں غائب ہو گئیں۔ بولٹن مارکیٹ غائب ہو گئی۔ بولٹن مارکیٹ کے عین سامنے کراچی کا قدیم پوسٹ آفس اور پوسٹ آفس کی بیرونی دیوار پر لگا ہوا Zero Point کا سنگ مرمر سے تراشا ہوا سلیب Slab غائب ہو گیا۔ اس سلیب پر کراچی سے مختلف اہم شہروں کے فاصلے میلوں میں درج تھے۔ کراچی سے کلکتہ کتنا دور ہے؟ کراچی سے بمبئی کا فاصلہ کتنا ہے؟ کراچی سے لاہور کتنی دوری پر ہے؟ کراچی سے لندن کا فاصلہ کتنا ہے؟ تمام معلومات آپ سنگ مرمر پر کندہ دیکھ سکتے تھے۔ آئی آئی چندریگر روڈ کا اصلی نام ہوتا تھا میکلوڈ روڈ۔ میکلو ڈروڈ پر کراچی سٹی ریلوے اسٹیشن کے سامنے ریلوے میوزیم ہوتا تھا۔ ایک سو سال پہلے انگریز نے کراچی سے کوٹری تک پٹڑی بچھائی تھی اور ٹرین چلائی تھی۔ ریلوے میوزیم میں یادگار تصویریں، دیگر اشیا رکھی گئی تھیں۔ ریلوے میوزیم مع نوادرات کے نہ جانے کہاں غائب ہو گیا۔ جس عالیشان عمارت میں کراچی کا میوزیم تھا، وہ عمارت شان وشوکت کے ساتھ اپنی جگہ موجود ہے، مگر میوزیم کی اشیا نہ جانے کہاں غائب ہو گئیں۔ وہ خوبصورت عمارت آج کل سپریم کورٹ کے استعمال میں ہے۔ تقسیم ہند سے پہلے کراچی میں چلنے والے دس پندرہ سینما غائب ہو گئے۔ کراچی کے تین تھیٹر غائب ہو گئے۔ ہندو جمخانہ کا بہترین کرکٹ گراونڈ کراچی پولیس نے غائب کر دیا۔ اب وہاں کراچی پولیس کے بدنما فلیٹوں کا جنگل ہے۔ کراچی سے نفیس ایرانی ہوٹل، کیفے اور ریسٹورنٹ غائب ہو گئے۔ یہ فہرست اتنی لمبی ہے جتنا کولاچی سے کراچی تک کا سفر۔ میرا تعلق تقسیم ہند سے پہلے والے پرانے مگر دلفریب شہر کراچی کی آخری پیڑھی سے ہے۔ ہمارے بعد کون یاد کرے گا پرانے شہر کراچی کی رونقوں کو۔ بھائی لوگوں نے تو کراچی شہر کے روڈ، راستوں، باغ، بغیچوں کے نام تک تبدیل کر کے کراچی سے اس کی پرانی شناخت چھین لی ہے۔

تقسیم ہند کے بعد کراچی کو دیدہ زیب بنانے والے پارسی اور کرسچین، جن کو ہم کراچی والے اینگلو انڈین کہتے تھے، غائب ہو گئے، برگد، پیپل اور نیم کے درخت غائب ہو گئے۔ گلہریاں غائب ہو گئیں۔ یہ مظاہرPhnomenon اپنی جگہ، کچھ اعلیٰ الفاظ کراچی سے کیوں روٹھ کر چلے گئے؟ وہ الفاظ اگر سن لیتے ہیں تو بھولے بسرے الفاظ لگتے ہیں۔ ان لفظوں کے ساتھ قابل ستائش رویے جڑے ہوئے ہوتے تھے۔ ایک گم شدہ لفظ ہوتا تھا اخلاق۔ بھیڑ میں ا گر کندھے ٹکرا جائیں تو لوگ پلٹ کر ایک دوسرے کو کہتے تھے، بھائی معاف کرنا، sorry۔ ایک دوسرے کو گھورتے نہیں تھے۔ ایک دوسرے کو برابھلا نہیں کہتے تھے۔ ایک دوسرے کا گریبان چاک نہیں کرتے تھے۔ تنگ فٹ پاتھ پر اگر کسی نوجوان اور عمر رسیدہ شخص کا آمنا سامنا ہو جائے تو نوجوان ایک طرف ہٹ کر بزرگ کو گزر جانے کا راستہ دیتا تھا۔ اب بزرگ کو ایک طرف رک کر نوجوان کو گزرنے کا راستہ دینا پڑتا ہے۔

ایک لفظ ہوتا تھا نفاست۔ اب وہ لفظ عجیب لگتا ہے۔ پرانا شہر کراچی زیادہ تر فلیٹوں کا شہر ہوتا تھا۔ لوگ میلے کچیلے کپڑے دھو کر بالکونیوں میں نہیں سکھاتے تھے۔ بالکونیوں میں کوڑا کرکٹ نہیں رکھتے تھے۔ گھر کی اور کچن کی صفائی کرنے کے بعد لوگ بالکونیوں سے سڑک اور فٹ پاتھ پر کچرا نہیں پھنکتے تھے۔ وہ لوگ پھولدار گملوں سے بالکونیاں سجاتے تھے۔ بالکونیوں سے لٹکتی ہوئی سبز بیلیں اچھی لگتی تھیں۔ درودیوار پر پوسٹر چپکانے اور نعرے لکھنے کا رواج نہیں تھا۔ لفظ نفاست سننے کو کان ترس گئے ہیں۔

ایک لفظ ہوتا تھا احترام۔ چار دوست ہوٹل میں بیٹھے ہوئے چائے پی رہے ہوں تو وہ آپس میں چیختے چلاتے نہیں تھے۔ ہوٹل میں موجود دوسرے لوگوں کا احترام کرتے تھے۔ بس میں سفر کرتے ہوئے اگر بزرگ مسافر بس میں سوار ہو جائے تو بیٹھے ہوئے نوجوان اپنی سیٹ سے اٹھ کر بزرگ کو بٹھاتے تھے۔ اپنے گھر میں اتنی اونچی آواز میں میوزک نہیں سنتے تھے کہ پڑوسیوں کی نیند حرام ہو جائے۔ دوسروں کی عبادت گاہوں کے قریب سے گزرتے ہوئے شور شرابا نہیں کرتے تھے۔ وہ دوسروں کی عبادت گاہوں کا اتنا ہی احترام کرتے تھے جتنا کہ اپنی عبادت گاہ کا۔

ایک لفظ ہوتا تھا Toleranceیعنی درگزر، برداشت۔ اب تو یہ لفظ ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا۔ تقسیم ہند سے پہلے یہ لفظ کراچی کے لوگوں کا اوڑھنا بچھونا تھا۔ نہ جانے کہاں غائب ہو گیا۔ تب کراچی میں مسلمان، ہندو، سکھ، عیسائی، یہودی، بہائی، بدھ مت کے پیروکار اور دیگر عقائد کو ماننے والے رہتے تھے۔ ان سب کی اپنی اپنی عبادت گاہیں تھیں، ان سب کے اپنے اپنے رسم ورواج تھے۔ سب کے اپنے اپنے تہوار تھے۔ غم اور خوشی کے مواقع کے علاوہ مختلف عقیدوں کے لوگ ایک دوسرے کے تہواروں میں شامل ہوتے تھے۔ ایک دوسرے کو تحائف اور کیک، چاکلیٹ اور طرح طرح کے میٹھے طعام دیتے تھے۔ ایک دوسرے کو دعوتیں کھلاتے تھے۔ جس حقیقت نے ان سب کو ایک مالا میں پرو رکھا تھا، وہ تھی کہ کوئی اپنے عقیدے کو اعلیٰ اور دوسرے کے عقیدے کو کمتر نہیں سمجھتا تھا۔ سب لوگ ایک دوسرے کے عقیدہ کا احترام کرتے تھے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین