• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مولانا حق نواز جھنگوی، خدمات کے آئینے میں

تحریر:ابوعادل عبدالرشید…لندن
ر سال22فروری کی تاریخ امیر عزیمت مولانا حق نواز جھنگوی شہید کی شہادت کی یاد دلاتی ہے۔ تیس سال پورےہونے کو ہیں لیکن ان کانام اور کام آج بھی اسی آن، بان اور شان کے ساتھ اہلسنت والجماعت کے تمام طبقات کے دلوں میں زندہ و جاوید ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ مولانا شہید انتہائی مخلص اور فناءفی الصحابہ واہلبیت رسول ؐ تھے اور اسلام کی تاریخ گواہ ہے کہ اسلام کے مقدس نام پر جان لٹانے والوں کی قربانیوں پر کسی بھی دور میں پردہ نہیں ڈالا جا سکا اور نہ ان کا نام تاریخ کے صفحات سے مٹایا جا سکا ہے۔ شہدآء اسلام کے نام و کام کے چرچے آج بھی ہر جگہ ہو رہے ہیں اور انشاء اللہ تعالیٰ یہ سلسلہ تا قیامت جاری و ساری رہے گا اور شہدآء کی قربانیوں کے چراغ سے بعد میں آنے والے اپنے چراغ روشن کرتے جائیں گے۔ اپنے کاز اور مشن سے مخلص لوگوں کی تاریخ جب جب بھی مرتب ہو گی تو امیر عزیمت مولانا حق نواز شہید اور ان کے ساتھیوں اور کارکنوں کی قربانیوں کا ذکر کئے بغیر مؤرخ کا قلم آگے نہیں چل سکے گا۔ آج دنیا کے کسی بھی خطے میں مقیم مسلمانوں کو مولانا حق نواز شہید سے ان کو دیکھے اور ان سے ملاقات کئے بغیر اس لئے پیار و محبت اور ان سے عقیدت و احترام ہے کہ وہ اسلام،قرآن اور رسالت، نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم کے عینی گواہوں صحابہ و اہلبیتؓ کے سچے غلام وتابعدار تھے۔ اسلام کے جانباز سپاہیوں پر لگائے جانے والے الزامات و بہتانات ہر دور میں غلط ثابت ہوئے ہیں۔ مولانا حق نواز شہید اور ان کی جماعت پر بھی لگائے گئے الزامات ان کے جانشینوں نے اپنے مشن حق پر ثابت قدم رہ کر غلط ثابت کردکھائے ہیں۔ پاکستان کی آزاد عدلیہ نے ان کا پرامن محب وطن پاکستانی ہونا تسلیم کیا۔ ان پر کوئی الزام عدالت میں ثابت نہیں کیا جاسکا۔ان کے نمائندے آج بھی اسمبلی میں موجود ہیں۔ وہ اپنے کاز اور مشن میں کتنے فنا تھے کہ سخت سے سخت مخالفت، بے سرو سامانی اور وسائل کی عدم دستیابی اور حکومت کی جانب سے قتل کے مقدمات اورہر طرح کی رکاوٹوں کے باوجود ایک نحیف و کمزور ترین عالم دین جھنگ کی ایک چھوٹی سی مسجد سے اٹھا پہلے اس کی آواز حق منبر و محراب اور چوک و چوراہے تک پہنچی اور ان کےجانشینوں نے پہلے پارلیمنٹ و سپریم کورٹ میں اور وہاں سے آگے بڑھے تو ایشیا وعرب ممالک، یورپ امریکہ اورافریقہ تک اپنےقائد کا مشن جا پہنچایا۔مولانا شہید کی یہ کرامت ہے کہ وہ جن مقامات کا اپنی تقریروں میں نام لےکر کہاکرتےتھےکہ میری زندگی میں نہ سہی میری موت کے بعد ہی سہی لیکن میرا رب میرے موقف کو چہار دانگ عالم میں پھیلائے گا۔آج ہم دیکھتے ہیں کہ جہاں جہاں مسلمان آبادہیں وہاں وہاں صحابہ کرام و اہلبیت عظام رضی اللہ عنہم کی عزت و احترام کے چرچےہیں اور ان کے مخالف و دشمن کوآج ہمت نہیں کہ وہ کسی مسلمان کے سامنے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس جماعت حضرات صحابہ کرام و اہلبیت عظام ؓ میں سے کسی ہستی کی توہین و تنقیص یا گستاخی کی جرأت کر سکے۔ ان پر اور ان کی جماعت پر یہ الزام کہ اس نے ملکی اداروں کے اشاروں یا غیر ملکی امداد کے سہارے یہ کام شروع کیا محض الزام ہے۔ ایسے لوگ اور جماعتیں تھوڑا عرصہ منظر پر رہا کرتےہیں اور جلد ہی اپنا نام ونشان تک ختم کروا کے میدان سے وہ غائب ہوجاتے یا کردیئے جاتے ہیں۔ لیکن امیر عزیمت مولانا حق نواز شہید کا نام و کام آئے دن پہلے سے بھی زیادہ چمکتا اور روشن ہوتا دنیا دیکھ رہی ہے۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ میدان میں اخلاص کی دولت اور ناقابل تردید دلائل کا اتنا مضبوط موقف لے کر اترے تھے کہ ان کا مخالف دلیل سے ان کے سامنے کھڑا نہ رہ سکا اور جنگ وفساد قتل و قتال گالی اور گولی پر اتر آیا اور آخر کار رات کے وقت اندھیرے میں گھر کے دروازے پر شب برأت22فروری 1990ان کو گولیاں مارکر شہید کردیا گیا۔مگر ان کے مخالفین کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ جس آوازحق کو وہ گولیاں مار کر خاموش کررہے ہیں۔وہ سور اسرفیل بن کر دنیا میں پھیل جائے گی۔مولانا شہید نے اپنے اوپر پہلے ایک قاتلانہ حملے کے موقع اپنی تقریر کو نزع کا بیان قرار دیتےہوئے اپنے قاتل خود نامزد کر دیئے تھے۔ مگر ہائے افسوس صد افسوس اس ملک کے نظام عدل پر کہ تیس سال گزرنے کو ہیں لیکن مولانا حق نواز شہید کے نامزد قاتل آج بھی کھلے دندناتے پھر رہےہیں۔ شہید کے بچوں وارثوں اور جماعت کو انصاف آج تک نہ مل سکا۔
تازہ ترین