• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں، ایک وہ جنہیں پیسےیا شہرت کی دُھن کسی پیشے کے قریب لے جاتی ہے اور ایک وہ جو کسی جنون یا شوق کے باعث کسی پیشے کا انتخاب کرتے ہیں۔ ایسی ہی ایک منفرد شخصیت ’شاہ شرابیل‘ ہیں، جنہیں قسمت کے ایک چھوٹے سے فیصلے نے پاکستانی تھیٹر کا ایک بڑا نام بنادیا۔ اس انسان کی شخصیت جتنی سادہ، بے لوث، بے غرض، مضبوط اور پرکشش ہے، اس کی زندگی کی کہانی اُس سےبھی کہیں زیادہ متاثر کن ہے۔ پیشے سے عشق وجنون کا معاملہ ہو یا فنکاروں کو نئی راہوں متعارف کروانا، اس کے قدم انجان سے انجان اورخطرناک سے خطرناک راستوں پر بھی نہ رکے۔

پاکستانی ڈراموں کی سینئر اداکارہ عصمت طاہرہ کے بیٹے، ڈائریکٹر اور پروڈیوسر شاہ شرابیل کے نہ صرف ڈرامےاپنے جاندار اسکرپٹ، روشنی اور رنگینیوں کے سبب ہاؤ س فل ہوتے ہیں بلکہ ان کی اپنی شخصیت بھی ایک سحر رکھتی ہے۔ جنگ سے کی گئی ان کی خصوصی گفتگو قارئین کی نذر ہے۔

جنگ :تھیٹر کی طرف آنے کی کیا وجہ بنی؟

شاہ شرابیل: میں نے1990ء میں کیریئر کا آغاز کیا اور تقریباً30سال سے اسی شعبے سے وابستہ ہوں۔ مجھے ٹین ایج میں ایک لڑکی سے محبت ہوئی، جسے تھیٹر دیکھنے کا بہت شوق تھا۔ ہم دونوں نے کئی تھیٹر پلے ساتھ دیکھے اور بحث ومباحثہ کیا۔ شروع میں مجھے تھیٹر سے کوئی خاص لگاؤ نہیں تھامگر اس سے تعلق ختم ہونے کے بعد یہی وجہ تھیٹر کی طرف آنے کا سبب بن گئی۔ میں نے اس واقعے کو مثبت انداز میں لیا جو کہ میری شخصیت کا خاصہ ہے۔ میں ہمیشہ کسی بھی ناکامی میں مثبت پہلو تلاش کرنے اور اس سے کچھ نہ کچھ سیکھنے کا عادی ہوں۔ اس بار بھی کچھ ایسا ہی ہوا اور بالآخر یہ میرے کا میاب کیریئر کی بنیاد بنی۔

جنگ :تھیٹر کو کس طرح دیکھتے ہیں؟

شاہ شرابیل:تھیٹر میری ذات کے بے حد نزدیک ہے۔ مجھ میں لاکھ خامیاں ہوں گی لیکن بناوٹ، منافقت یا پھر خودفریبی نہیں ہےاور یہی وجہ ہے کہ تھیٹر میرا انتخاب ہے کیونکہ اس میڈیم میں بھی منافقت نہیں ہے۔ تھیٹر ایک حقیقت ہے، جس میں شامل کسی بھی فرد کے پاس سیکنڈ چانس نہیں ہوتا، آپ کے ججز ہر بار آپ کے سامنے ہوتے ہیں جنھیں آپ خرید نہیں سکتے، آپ اچھا پرفارم کریں یا برا، فوری نتائج حاصل کرلیتے ہیں۔

جنگ:اپنے ڈرامے ’ٹوئنز اپارٹ‘ کے بارے میں کچھ بتائیں، کیااس کی کہانی انگلش موسیقار ولی رشیل کی کتاب ’بلڈ برادرز‘سے لی گئی ہے ؟

شاہ شرابیل:ٹوئنز اپارٹ کی کہانی مکمل طور پر بلڈ برادرزپر مشتمل نہیں ہے۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ اس کتاب اور ڈرامے کی کہا نی کے درمیان ایک اسٹرونگ انسپریشن موجود ہے۔ یعنی پہلے ترجمہ، پھر ایڈاپٹیشن اور آخر میں انسپریشن۔ اگر ہم اسے بالکل ویسے ہی پیش کرتے تو اس کہانی کو آپ مقامی سطح پر عوام کے لیے متاثر کن نہیں بناسکتے تھے، اس لیے کہانی میں مجھے کافی ساری تبدیلیاں لانی پڑیں۔ بطور ڈائریکٹر میں نے اس کہانی میں دو ماؤں کی کہانی کو شامل کیا اور ایک لَوّ ٹرائی اینگل بنایا۔

معیار، کردار اور انصاف پر کبھی سمجھوتا نہیں کیا، شاہ شرابیل
شاہ شرابیل اپنی بیوی دریا شاہ کے ہمراہ

جنگ: تھیٹر ڈراموں میں زیادہ تر کہانیاں انگلش ناول سے متاثر ہوکر بنائی جاتی ہیں، اس کی وجہ تھیٹر کے لیے اسکرپٹ رائٹرز کی کمی ہے یا کچھ اور ؟

شاہ شرابیل: جی!اس کی وجہ تھیٹر کے لیے اچھے رائٹرز کی کمی کہی جاسکتی ہے۔ 15سال میں نجی ٹیلی ویژن چینلز کے آنےاور ڈراموں کی مقبولیت کے بعد اگر کوئی اچھا رائٹر نکلتا بھی ہے تو اسے ٹیلی ویژن لے جاتا ہے۔ پھر تھیٹر میں پیسے اور گلیمر کی کمی اسکرپٹ رائٹرز کو مستقل تھیٹر لکھنے پر آمادہ نہیں کرپاتی۔

جنگ:آپ کےتھیٹر ڈرامے کتنے اداکاروں کو پروموٹ کرنے کا سبب بن چکے ہیں ؟

شاہ شرابیل: اس وقت انڈسٹری میں 70سے 80فیصد اداکار تھیٹر کے ہی ہیں۔ میں اپنے ڈراموں کی بات کروں توحمزہ علی عباسی، گوہر رشید ،مہوش حیات، سوہائے علی ابڑو، عثمان خالد بٹ، علی رحمان اور زاہدکے علاوہ بھی بہت سےاداکار ایسے ہیںجنہوں نے میرے ساتھ لاہور اوراسلام آباد میں کام کیا، پھرمیں ان کو کراچی لایا، متعارف کروایا اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کو ٹی وی والوں نے لےلیا۔ دراصل یہ ایک ٹرینڈ بن گیا ہے کہ شاہ شرابیل کے ڈراموں میں جاؤ اور وہاں سے براہ راست ٹی وی پر آجاؤ ۔ آج بھی کئی ٹی وی پروڈیوسرز اور ڈائریکٹرز مجھ سے کہتے ہیں کہ ہم تو آپ کے ڈرامے نئے فنکاروں کے انتخاب کی غرض سے دیکھنے آتے ہیں ۔

جنگ :آپ نے پاکستان کے کن کن شہروں میں کتنےتھیٹر ڈرامے کیے؟

شاہ شرابیل: میں اب تک پاکستان میں50سے زائد تھیٹر ڈرامے کرچکا ہوں۔ 1990ء سے 2003ء تک لاہور میں کام کیا، پھر 2004ء میں اسلام آباد میں کام شروع کیا اور 2010ء تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ کراچی میں پہلا تھیٹر2005ء میں کیا تھا، اس کے بعد 2010ء سے یہاں تھیٹر کررہے ہیں،جس کے دوران کچھ عرصہ وقفہ بھی لیا۔

جنگ :آپ نے تینوں شہروں کی آڈینس دیکھی، کیا فرق پایا؟

شاہ شرابیل: تینوں شہروں کی بات کروں تو مجھے سب سے زیادہ کراچی کی آڈینس پسند آئی، جو کہ مہذب اور میچور ہے۔ لاہور کی آڈینس میں جذبہ اور ولولہ زیادہ ہے جبکہ اسلام آباد کے لوگ ’گوروں‘کا تاثر دیتے ہیں، ان کی ناک تھوڑی زیادہ اُونچی ہےلیکن سچ کہوں تو اداکاری کے حوالے سے اسلام آباد میں ٹیلنٹ بہت زیادہ ہے۔

جنگ:آپ کے حوالے سے مشہور ہے کہ آپ ڈراموں کے کردار وں کے لیے زیادہ تر نئے چہروں کا انتخاب کرتے ہیں، اس کی کوئی خاص وجہ ؟

شاہ شرابیل: اس کی وجہ میرے کیریئر کے آغاز سے منسلک ہے۔ آپ شاید یقین نہ کرپائیں کہ جب ہم نے لاہور میں پہلا تھیٹر کیا تو اس دوران والدین لڑکیوں کو تھیٹر ڈراموں میں اداکاری کروانے کے مخالف تھے۔ یہی وجہ تھی کہ میرے پہلے ڈرامے میں دو ٹیچرز نے حصہ لیااور پھر ہم نے اس ڈرامہ کو دیکھنے کیلئے والدین کو دعوت دی۔ وہاں کا ماحول انھیں کا فی پسند آیا، اس کے بعد آہستہ آہستہ لڑکیوں کو اجازت ملنے لگی۔ اسی لیے میری کوشش ہوتی ہے کہ میرے ڈراموں میںا چھے گھرانوں کے لڑکے لڑکیاں کام کریں۔ اگر میں نے بھی اپنے ڈراموں میں پروفیشنل، ٹیلی ویژن اور اسٹیج کا اسٹگما لگادیا تو نئے فنکا ر کہاں جائیں گے، ہمیں آنے والوں کو بھی جگہ دینی ہے ۔

جنگ:ٹوئنز اپارٹ آپ کا پہلا اردو میوزیکل تھیٹر ہے۔ پہلا اردو شو اور اتنی مقبولیت، کیسا محسوس کررہے ہیں؟

شاہ شرابیل: جی ہاں!یہ میرا پہلا اردو میوزیکل شو ہے۔ قومی زبان میں میوزیکل تھیٹر کرنے کا بہت زیادہ مزہ آیا۔ مجھے کسی شو کے اتنے اچھے ریویوز نہیں ملے، جتنے ٹوئنز اپارٹ کے موصول ہوئے، یہ ایک بہت اچھا تجربہ رہا۔ اسے عوام بھی خوب انجوائے کررہے ہیں اور ہم بھی۔

جنگ:کوئی ایسی خواہش جس کے پورا ہونے کا انتظار ہو ؟

شاہ شرابیل: میری ذاتی خواہش یہ ہے کہ میرا ایک ذاتی تھیٹرآڈیٹوریم ہو، جس کے بیسمنٹ میںتھیٹر کیفے بناسکوں۔ اس بیسمنٹ میں مختلف کیٹیگریز جیسے کہ تھیٹر چائے، تھیٹر بائیٹس، تھیٹر لائبریری اور تھیٹر میس ہو۔

تازہ ترین