• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مودی کی اخلاقی شکست۔ انتخابی شکست میں بدلنی چاہئے

لینن نے کہا تھا:

There are decades where nothing happens and there are weeks when decades happen

عشرے گزر جاتے ہیں جب کچھ نہیں ہوتا اور بعض ہفتے ایسے آتے ہیں، جن میں عشرے برپا ہو جاتے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں یہ ہفتہ ایسے ہی گزرا کہ ہر لمحے میں صدیاں بیت رہی تھیں۔ آسماں نے ایسی تاریخی کشمکش کم ہی دیکھی ہو گی کہ ایک طرف مودی تھے جو خطّے کو اپنی کسی نہ کسی حرکت سے ایک دو صدیاں پیچھے لے جاتے تھے۔ دوسری طرف عمران تھے جو خطّے کو پھر بیسویں صدی میں واپس لے آتے تھے۔ تاریخ کے ایک طالب علم کی حیثیت سے مجھے فخر محسوس ہو رہا تھا کہ میں عمران خان کا دَور دیکھ رہا ہوں۔ ایک طرف بڑا ملک ہے جس کا لیڈر بہت چھوٹا ہے۔ دوسری طرف چھوٹا ملک ہے۔ جس کا لیڈر بہت بڑا ثابت ہو رہا ہے۔ تاریخ موقع تو سب کو دے رہی ہے۔ مودی، عمران، ٹرمپ، شہزادہ محمد بن سلیمان، ایرانی قیادت، افغان لیڈر شپ، متحدہ عرب امارات کو میدان بہت بڑا ہے۔ سب اپنی شہ سواری کے مظاہرے کر سکتے ہیں۔ جنوبی ایشیا دنیا کا وہ حساس مرکز ہے جہاں صدیوں سے قیادتیں ظہور بھی پاتی رہی ہیں اور تاریخ کی بھول بھلیوں میں گم بھی ہوتی رہی ہیں۔ سینکڑوں مقبرے ہیں۔ کہیں عقیدت مندوں کے ہجوم ہیں۔ کہیں کوئی چراغ جلاتا ہے نہ کوئی بلبل نالہ و فریاد کرتی ہے۔ تاریخ یہ فیصلہ کرتی ہے کہ کون سرخرو ہو گا اور کون محض غبار راہ۔ صحیح وقت پر صحیح فیصلے لمحوں کو صدیوں میں بدل دیتے ہیں۔ ایسے فیصلوں کے لئےبڑی جرأت اور بڑا دل درکار ہوتا ہے۔

صرف پاکستان ہی نہیں دنیا کی تاریخ میں 2019کی فروری کا آخری ہفتہ پاکستانی قوم کی ذہنی پختگی کی ایک زریں مثال بن کر تابندہ رہے گا۔ مواقع دونوں کے لئے ایک سے تھے۔ بھارتیوں کے لئے بھی۔ پاکستانیوں کے لئے بھی لیکن بھارت اپنے تکبر میں بہت پیچھے رہ گیا۔ سیکولر ازم اس کے کام آیا نہ جمہوریت، نہ امریکہ کی آشیرباد، نہ ایرانی افغان حکومتوں کی چاپلوسی، وقت نے پاکستان کا سر بلند کر دیا۔ ہم پاکستانی اجتماعی گناہوں کے مرتکب بھی ہیں۔ ملّی غفلت کے مجرم بھی۔ اپنے لوگوں کے زخم مندمل نہیں کرتے۔ ہمارے حکمراں طبقے اپنی اکثریت کے دُکھ نہیں بانٹتے۔ ہمارے ادارے ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت کرتے ہیں۔ ہم اپنے بھائی بہنوں کو زندگی کی وہ آسانیاں نہیں دے پاتے جو آج کے انسان کو دوسرے ملکوں میں میسر ہیں۔ ہم تعلیم عام نہیں کرسکے۔ قانون کا نفاذ سب کے لئے یکساں نہیں ہے۔ ہماری کرنسی عجز کا شکار رہتی ہے۔ ہم مینو فیکچرنگ میں محدود ہوتے جارہے ہیں۔ ٹریڈنگ میں آگے بڑھ رہے ہیں لیکن ان سب کے باوجود آزمائش کی اس سخت گھڑی میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں صحیح فیصلے کرنے کی توفیق دی ہے۔ تو یقیناً وہ ہم سے بہت خوش ہے۔ ہم سے اس خطّے میں دنیا میں کوئی بڑا منصب ادا کروانا چاہتا ہے۔

سر خروئی کی اس گھڑی میں ہمیں یکسوئی سے سوچنا چاہئے کہ جب ہمارے وزیراعظم کو دُنیا بھر میں ایک مدبر کا مقام مل گیا ہے۔ اتنی کشیدگی کے عالم میں آپ کے ہاتھ ایک بڑا شکار لگا۔ ایک انڈین پائلٹ آپ کی جھولی میں آگرا۔ آپ اس پر بہت سودے بازی کرسکتے تھے۔ انڈیا کے پاس تو ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔ اس کا شوروغوغا ماند پڑ گیا تھا۔ اینکر پرسن سکتے کے عالم میں تھے۔ دنیا ہماری طرف دیکھ رہی تھی کہ پاکستان ایک جابر مملکت بن کر دکھاتا ہے یا انسانیت سے محبت کا ثبوت دیتا ہے۔ اس کی رہائی کا اعلان بالکل ایسا ہی تھا جیسے ہم نے دہلی پہنچ کر لال قلعے پر سبز ہلالی پرچم لہرادیا اور دنیا اسے سیلوٹ کرنے پر مجبور ہو گئی۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ ہم نے پاکستان کی سا لمیت کے لئے اس وقت جس مثالی اتحاد کا اظہار کیا ہے اور عالمی افق پر پاکستان کو جو وقار نصیب ہوا ہے کیا اسے ہمیشہ برقرار رکھ سکتے ہیں۔ زندہ قومیں ایک ایسا دائرہ متعین کرتی ہیں جہاں سب یک رائے ہوتے ہیں۔ ہم کہتے تو تھے لیکن کر نہیں پاتے تھے۔ ہماری تاریخ میں 2019کی فروری کے آخری ہفتے میں قدرت نے از خود اس دائرے کا تعین کردیا ہے۔ جہاں کسی پاکستانی کو دوسرے سے اختلاف نہیں ہے۔یہ ہے ہماری خارجہ پالیسی، ہماری دفاعی پالیسی، 20کروڑ پاکستانی ہر روز دیکھ رہے تھے کہ وزیر اعظم، وفاقی وزراء، اپوزیشن لیڈر، پارلیمنٹ میں موجود پارٹیوں کے سربراہ، آرمی چیف، نیول چیف، ایئر چیف، نوجوان بزرگ، خواتین، پنجاب، سندھ، کے پی، بلوچستان، آزاد جموں و کشمیر، گلگت بلتستان، فاٹا اور بیرون ملک مقیم پاکستانی سب کی سوچ ایک تھی۔ اب جب اس دائرے کی شناخت ہو گئی ہے جہاں شدید اختلافات رکھنے والے ایک ہی سمت میں سوچ رہے ہیں۔ کوئی ادارہ ہے جو اس ہم خیالی کو محفوظ کرسکے کہ جب بھی اس دائرے کو کہیں سے خطرہ محسوس ہو گا تو ہم سب ایک ہوجائیں گے۔ حملہ آور کو یہ احساس دلادیں گے کہ ہمارے سیاسی اختلافات اپنی جگہ لیکن جہاں اپنے ملک کی سلامتی خطرے میں ہو گی وہاں سب ایک ہوں گے۔

اب ہمارا ہدف یہ ہونا چاہئے کہ بھارت کے ووٹرز کو یہ احساس دلا سکیں کہ وہ ایک جنگی جنونی مودی کو الیکشن میں کامیاب نہ ہونے دیں۔ اس وقت ونگ کمانڈر، ابھی نندن کے خاندان کے جو تاثرات ہیں وہی سب بھارتیوں کے احساسات ہونے چاہئیں۔ نریندر مودی کی پاکستان سے دشمنی، در اصل بھارت کے عوام سے دشمنی ہے، بھارت کا اصل مسئلہ غربت اور مفلسی ہے، پاکستان نہیں ہے۔ بھارت کی 68فی صد سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے نیچے رہتی ہے۔ جن کا گزارا 2ڈالر روزانہ سے بھی کم آمدنی پر ہے۔ 30فیصد تو صرف سوا ڈالر روزانہ پر جی رہے ہیں۔ جہاں اکیسویں صدی کی تو پرچھائیں بھی نہیں پڑی۔ سولہویں سترہویں صدی راج کرتی ہے۔ وہاں سے نوجوانوں کی اکثریت اچھے دنوں کی تلاش میں دہلی، ممبئی، کلکتے، مدراس، بنگلور کا رُخ کرتی ہے۔ جہاں انہیں کچی آبادیوں میں رہنے کو جگہ ملتی ہے۔ نریندر مودی نے غربت کے محاذ پر شکست کھائی ہے۔ کروڑوں بھارتیوں کو وہ معقول روزگار فراہم نہیں کر سکے۔ کشمیر میں آزادی کی جدو جہد کو نہیں دبا سکے۔ بھارت کے شہری پوری غذا حاصل نہیں کر پاتے۔ ہزاروں بیماریاں پھیلی ہوئی ہیں۔ کروڑوں بچے اسکولوں میں نہیں جا سکتے۔ چھوٹی عمر میں شادیاں کردی جاتی ہیں۔ بیٹیاں پیدا ہوتی ہی تو مار دی جاتی ہیں۔

کسی بھی ملک میں الیکشن اس کا داخلی معاملہ ہوتا ہے لیکن جب کوئی ملک الیکشن جیتنے کے لئے دوسرے ملک پر فوجی جارحیت کرے تو یہ داخلی معاملہ نہیں رہتا۔ پاکستان متاثرہ ملک ہے۔ اس لئے ہمیں یہ حق پہنچتا ہے کہ ہم ایسی کوششیں کریں کہ مودی الیکشن میں کامیاب نہ ہوں۔ اس میں سب سے موثر کردار سمندر پار پاکستانی ادا کرسکتے ہیں۔ اس کے مظاہرے کینیڈا، برطانیہ، امریکہ میں دیکھے بھی جاچکے ہیں۔

مئی 2019تک یہ معرکہ جاری رہے گا۔ ہمیں اس دائرۂ اتحاد کو قائم دائم رکھنا ہو گا۔ ہمارے سیاسی اختلافات، نیب کے مقدمات، پاکستانی خزانے کی لوٹ مار، اس اتحاد کی راہ میں رُکاوٹ نہیں بننے چاہئیں اور نہ ہی یہ ہنگامی صورتِ حال ہماری اقتصادی پیش رفت اور دوسرے ترقیاتی منصوبوں میں مزاحم ہونا چاہئے۔ پاکستان کی مسلّح افواج، بری، بحری اور فضائی نے ثابت کردیا ہے کہ ہم محفوظ ہاتھوں میں ہیں۔ پارلیمنٹ قومی سلامتی کمانڈ سب اپنی جگہ خبردار ہیں۔ عالمی برادری پر واضح ہونا چاہئے کہ بھارت میں مودی جیسے حکمراں کی واپسی پوری دُنیا کے لئے خطرہ ہو گی۔

تازہ ترین