• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

"Behind every great fortune,there is a crime"

مشہور زمانہ ناول ’’گاڈ فادر‘‘ میں مصنف ماریو پوزو نے یہ جملہ فرانسیسی لکھاری Honre De Balzacسے مستعار لیا اور موجودہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اس جملے کو پاناما فیصلے کا حصہ بناکر ایک نئی بحث چھیڑ دی۔ محولا بالا قول کے عین مطابق ہمارے ہاں ہر کامیاب اور امیر آدمی کو بدعنوان سمجھا جاتا ہے۔ لوگوں کو ایمان کی حد تک اس بات پر یقین ہے کہ کرپشن کئے بغیر محض محنت کے بل بوتے یا خوش قسمتی کے سہارے امیر نہیں ہوا جا سکتا۔ مجھے اس بات سے جزوی اختلاف ہے ،سیلف میڈ لوگ ہر شعبہ ہائے زندگی میں ذہانت و فطانت کی بنیاد پر آگے بڑھتے اور ترقی کرتے ہیں۔ ہاں! البتہ پاکستان میں ترقی کے یکساں مواقع اور قانون کی عملداری نہ ہونے کے سبب یہ تاثر یکسر غلط بھی نہیں۔ وہ خوش قسمت لوگ جن کا ہاتھ پڑتے ہی مٹی بھی سونا بن جاتی ہے، انہیں اپنی منی ٹریل کا حساب رکھنا چاہئے تاکہ جب کبھی کوئی ان پر انگلی اٹھائے تو بتایا جا سکے کہ اس خوش بختی کے پیچھے جرائم کی کالی تختی کا کوئی عمل دخل نہیں اور یہ دولت جائز طریقے سے کمائی گئی ہے۔ حال ہی میں قومی احتساب بیورو نے دو اہم شخصیات کو آمدنی سے زائد اثاثہ جات کے الزام میں گرفتار کیا۔ سندھ اسمبلی کے اسپیکر آغا سراج دُرانی کو نیب سندھ نے اسلام آباد سے گرفتار کیا جبکہ پنجاب کے سینئر وزیر عبدالعلیم خان کو نیب لاہور نے حراست میں لیا۔ آغا سراج درانی کا تعلق سندھ کے بااثر خاندان سے ہے، ان کے دادا آغا شمس الدین مشہور موسیقار، گلوکار اور شاعر تھے۔ ان کے چچا آغا بدر الدین قیام پاکستان سے پہلے سندھ اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر اور پاکستان بننے کے بعد سندھ اسمبلی کے اسپیکر کے طور پر خدمات سر انجام دیتے رہے۔ ان کے والد آغا صدر الدین جو مکینیکل انجینئر تھے، نے بھی عملی سیاست میں حصہ لیا۔ آغا صدر الدین کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے بھٹو کے دورِ حکومت میں گڑھی یاسین والی خاندانی حویلی میں انتہائی خوبصورت منی سینما اور منی ریل کار اسٹیشن بنا رکھا تھا۔ اس پسِ منظر سے معلوم ہوتا ہے کہ آغا سراج درانی کا شمار ان افراد میں نہیں ہوتا جو اچانک امیر ہو گئے لیکن پھر بھی انہیں منی ٹریل مہیا کرنا چاہئے اور تفتیش کرنے والوں کو مطمئن کرنا چاہئے کہ ان کی دولت میں کب اور کیسے کتنا اضافہ ہوا۔

پنجاب کے سینئر وزیر عبدالعلیم خان جو نیب پنجاب کی تحویل میں ہیں، کی کاروباری سلطنت کئی ممالک تک پھیلی ہوئی ہے۔نیب کے تفتیشی حکام کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے حال ہی میں عبدالعلیم خان کی بیرونِ ملک 25ایسی پراپرٹیز کا سُراغ لگایا ہے جن کی مالیت کم از کم 28ملین درہم ہے،جو الیکشن کمیشن آف پاکستان یا فیڈرل بورڈ آف ریونیو میں ظاہر نہیں کئے گئے۔ نیب یہ پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ کاروبار کرنے کے لئے سرمایہ کہاں سے آیا؟ بیرونِ ملک جو جائیداد خریدی گئی اس کے لئے رقم قانونی طریقے سے منتقل نہیں کی گئی تو کیا آپ منی لانڈرنگ کے مرتکب ہوئے؟ نیب کے تفتیشی افسر نے احتساب عدالت میں جو تفصیلات فراہم کی ہیں وہ بہت حیران کن ہیں۔ جب عبدالعلیم خان سے پوچھا گیا کہ ان کے پاس کاروبار کرنے کے لئے پیسہ کہاں سے آیا تو انہوں نے بتایا کہ والد صاحب نے 9کروڑ روپے تحفتاً دیئے جن سے کاروبار شروع کیا اس دعوے کی روشنی میں چھان بین کی گئی تو معلوم ہوا کہ عبدالعلیم خان کے والد بینک ملازم جبکہ والدہ ٹیچر تھیں۔ ان کے خاندان کا کل ترکہ گلبرگ کا ایک رہائشی مکان تھا جو 1981ء میں خریدا گیا اور 1989ء میں بیچ دیا گیا۔ اس گھر کی فروخت سے اتنی بڑی رقم نہیں مل سکتی اور پھر یقیناً اس جائیداد کے مزید حصہ دار بھی ہوں گے۔استفسار پر عبدالعلیم خان نے یہ بھی بتایا ہے کہ ان کے 19ملین کے بانڈز نکلے تھے۔ اس سے قبل جب مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ سعد رفیق سے ان کی ’’خوش بختی‘‘ کے بارے میں پوچھا گیا تھا تو انہوں نے بھی یہی موقف اختیار کیا کہ ان کے 40.37ملین کے بانڈز نکلے ہیں۔ سوال تو بنتا ہے کہ تمام لاٹریاں بااثر لوگوں کی ہی کیوں لگتی ہیں؟ ہر بار خواجہ سعد رفیق یا عبدالعلیم خان کے ہی بانڈ کیوں نکلتے ہیں؟ اس گورکھ دھندے سے شناسائی رکھنے والے بتاتے ہیں کہ جب کسی عام آدمی کابانڈ نکلتا ہے تو بلیک منی وائٹ کرنے کے خواہشمند کچھ اضافی رقم کا لالچ دے کر وہ بانڈ خرید لیتے ہیں اور یوں ان کی آمدنی جائز اور قانونی شکل اختیار کر لیتی ہے۔

پاکستان میں کڑا احتساب ضرور ہونا چاہئے لیکن اگر یہ ذمہ داری نیب کے سپرد کی گئی ہے تو پھر ہر ادارے کو اس کے دائرہ کار میں آنا چاہئے اور کسی کو استثنیٰ حاصل نہیں ہونا چاہئے۔ دوسری بات یہ ہے کہ احتساب کے نظام میں موجود نقائص دور کئے جائیں۔ کسی شخص کو اچانک تحویل میں لینے کے بعد اس کے اکائونٹ منجمد کر دیئے جائیں، دفتر اور گھر پر چھاپہ مار کر ریکارڈ قبضے میں لے لیا جائے اور پھر کہا جائے کہ اب اپنی بے گناہی ثابت کرو۔ یہ ایسے ہی ہے کہ کسی شخص کے ہاتھ پیر باندھ کر لڑنے کے لئے چھوڑ دیا جائے۔ لیکن اگر نیب موجودہ ناقص قوانین کے تحت کسی شخص کو گرفتار کرکے کئی ماہ اپنے پاس رکھے، جسمانی ریمانڈ اور تفتیش کے باوجود ملزم کو مجرم ثابت نہ کیا جا سکے تو ایسی صورت میں اس کی شہرت داغدار کرنے کاذمہ دار کون ہے؟ انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ جتنی سزا نیب ریفرنس میں ملزم کو ہونا تھی، اتنی سزا تفتیشی کو دی جائے،کم از کم اس مقدمے سے جڑے نیب اہلکاروں کو فارغ کرکے زندگی بھر کیلئے سرکاری ملازمت سے نااہل تو قرار دیا جانا چاہئے۔ جب لاہور ہائیکورٹ کے ڈویژن بینچ نے شہباز شریف کی ضمانت منظور کرنے کا تحریری فیصلہ جاری کیا تو میں نے اس کا حوالہ دیتے ہوئے نیب کے ایک اعلیٰ عہدیدار سے سوال کیا کہ کیا اس چارج شیٹ کے بعد نیب کے کام کرنے کا کوئی جواز بنتا ہے؟ انہوں نے میری رائے سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہ چارج شیٹ درست ثابت ہو جاتی ہے تو واقعی نیب لاہور کو بند کر دینا چاہئے کہ اس کے کام کرنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔ نیب نے اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کر دی ہے، اب دیکھیں عدالتی فیصلہ کالعدم قرار پاتا ہے یا پھر نیب کو بند کرنے کی بات درست ثابت ہوتی ہے۔

تازہ ترین