• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں گزشتہ بیس برس سے دیار غیرمیں مقیم ہوں،جن حالات میں وطن چھوڑا انہیں سوچ کر آج بھی آنکھ بھر آتی ہے۔ این ای ڈی یونیورسٹی سے سول انجینئرنگ کرنے کے پانچ برس بعد بھی جب مناسب ملازمت حاصل نہ کرسکا تو بیرون ملک ملازمت کی ضد ہی پکڑ لی۔گھر کے حالات بھی اچھے نہ تھے کہ ہلکی پھلکی ملازمت کر کے چار پیسے کمانے سے بہتر ہوتے لہذا باہر جانے کی ٹھانی،چار بہنوں کی تعلیم کے ساتھ ان کی شادیوں کے لیے والد کا سہارا بننا میری ذمے داری تھی۔مختلف لوگوں سے جب بیرون ملک ملازمت کا زکر کیا تو ہر شخص نے ہی اپنے تجربات بتائے۔میرے رشتے ایک چچا طویل عرصے سے لندن میں مقیم تھے انہوں نےوہاں میری ملازمت کے لیے کوششیں شروع کیں۔سب سے اہم مسئلہ پیسوں کا تھا بہرحال کچھ قرضہ لے کر اور والدہ کا زیور فروخت کرکے پیسے جمع کیے اور بیس سال قبل اپنی دھرتی کو خیرباد کہہ دیا۔مجھے نہیں معلوم تھا کہ میرے ساتھ آگے کیا ہوگا،کیسے سرد وگرم کا مقابلہ کروں گا۔

زندگی نے برق رفتاری سے آگے بڑھنا شروع کیا۔میں جو دال، سالن میں نمک زیادہ ہونے پر گھر سر پہ اٹھالیتا تھا ،پردیس میں اندازہ ہوا کہ یہ ناز نخرے تو گھروں میں ہی اٹھائے جاتے ہیں۔ان دنوںمیرے لیےواحد راحت کا لمحہ پاکستان پیسے بھیجنا ہی تھا۔وقت کے ساتھ ساتھ گھر کے حالات بھی بہتر ہوتے گئے ،اس دوران میں نے امریکا جانے کی کوششیںتیز کر دیں اور بالآخرکچھ عرصے بعد میں امریکا میں تھا۔ یہاں سب سے اہم مسئلہ شہریت حاصل کرنے کا تھا۔یہاں مجھے کوئی ملازمت پہ رکھنے کو تیار نہ تھا۔ایک ہوٹل میں یومیہ اجرت پر نوکری مل گئی۔میرے لیے اہم ہدف یہاں کی شہریت حاصل کرنا تھا۔میرا یہاں حلقہ احباب بن چکا تھا مجھے لوگوں نے مقامی عورت سے شادی کا مشورہ دیا،بہرحال ایک روز ایک امریکی عورت سے میں نے شادی کر لی۔آگے بڑھنے کی خواہش میں ،میں بہت جلد فیصلے کررہا تھا۔ کچھ عرصے بعد میرا شہریت کا مسئلہ حل ہوگیا تھا۔اس دوران میں والدین سے ملنے پاکستان بھی گیا۔وہاںذاتی گھر بھی بنوایا،لیکن نجی زندگی اچھی نہیں رہی ،چھے سال بعد وہ امریکی عورت طلاق لے کر الگ ہوگئی،جبکہ وہاں کے قانون کے مطابق مجھے اسے اچھی خاصی رقم دینا پڑی۔

آج پلٹ کر دیکھتا ہوں تو مجھے اپنے لیے کچھ نہ ملا۔پیسہ ہے لیکن اپنوں کی محبت کے لیے آج بھی تڑپ محسوس کرتا ہوں۔پردیس میں بسنا آسان نہیں،انسان کوپیسہ مل جاتا ہے لیکن وہ حقیقی خوشی کاہمیشہ متلاشی رہتا ہے۔ یہاںانسان دو حصوں میں بٹ جاتا ہے۔ ایک حصہ اپنے خاندان ماں ،باپ ،بھائی ،بہن ،بال بچوں کی یادوں کے گرد گھومتا ہے اور دوسراحصہ اُس کا اپنا آپ ہوتا ہے جو’ پردیس‘ میں اجنبیوں کے درمیان ہوتا ہے اور دن رات مشین کی طرح مشقت میں جُتا رہتاہے۔پردیس ایک بہت بڑی اور کڑوی حقیقت ہے جس کو اگر مناسب طریقے سے ڈیل نہ کیا جائے تو زندگی کا سکون اور چین بھی غارت ہو سکتا ہے۔ دور کے ڈھول سہانے ہوتے ہیں ،یہاںسوچیں ایسا تانا بانا بنتی ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے لیکن جب حقیقت سے واسطہ پڑتا ہے تو چودہ طبق روشن ہو جاتے ہیں۔ سوچ میں گرہیں پڑ جاتی ہیں اور وقتی خوشی ماند پڑنے لگتی ہے۔

شہریار خان…(ڈیلس ،امریکا)

تازہ ترین