• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن


ناسا کے ماہرین کے مطابق اپر چونٹی روورسے بھی ان کا رابطہ منقطع ہوگیا ہے ،اس نے آخری بار بہار کے موسم میں زمین سے رابطہ کیا تھا اورگزشتہ برس 10جون سے ا ب تک وہ خاموش ہے 

امریکی خلائی ادارہ ناسا خلا اور سیاروں میں رونما ہونے والی نت نئی تبدیلیاںاور معلومات حاصل کرنے کے لیے اب تک متعدد خلا ئی مشنز خلامیںروانہ کر چکا ہے۔8 جولائی 2003 ء کو ناسا کے ماہرین نے جیٹ پروپلژن لیباریٹری کے ساتھ مل کر مارس ایکسپلوریشن روور(Mars exploration rover ) نامی ایک منصوبہ شروع کیا تھا ۔

اس منصوبے کا آغاز کیپ کیناویرل (cape canaveral) سے جولائی 2003 ء میں ہوا تھا،جس کے تحت ایک مشن جنوری 2004 ء میں خلا میں روانہ کیا گیا تھا ۔اس منصوبے کے لیے جڑواں روبوٹس تیار کیے گئے تھے ۔ایک کا نام اسپریٹ روبوٹ (spriti) اور دوسرے کانام اپرچونٹی(Opportunity) تھا ۔اس پروجیکٹ کو شروع کرنے پر400 ملین امریکی ڈالر زکی لاگت آئی تھی ۔یہ دونوں روبوٹس شمسی توانائی سے چلتے تھے ۔2011ء میں اسپریٹ نامی روبوٹ مریخ میںمٹی میں پھنس گیا تھا،جس کی وجہ سےزمین سے اس کا رابطہ منقطع ہو گیا تھا ۔ گزشتہ دنوں ناسا کے ماہرین نے ایک کانفرنس میں اپر چونٹی روور کی صورت ِحال کے بارے میں تبادلہ خیال کیا اور یہ اطلاع دی کہ اب اس سے بھی ان کا رابطہ منقطع ہوگیا ہے ۔ماہرین کے مطابق روور نے آخری بار بہار کے موسم میں زمین سے رابطہ کیا تھا اورگزشتہ برس 10جون سے ا ب تک وہ خاموش ہے ۔جب سیا ہ آسمان نے شمسی توانائی سے اس کی چارجنگ کو روک دیاتھاتو جون کے مہینے میں اس کا پاور ڈائون ہو گیا تھا ۔اس کے بعد ناسا کے ماہرین نے اس سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن انہیں ہر دفعہ خاموشی کا ہی سامنا کرنا پڑا ۔ماہرین کے مطابق دھول کا طوفان آنے کے تقریباً8 ماہ بعد وہ خاموش ہو گیا تھا اور جس ہفتے طوفان آیا تھا اسی ہفتے سُرخ سیارے (red planet)پر اس کی پندرہویں سالگرہ منائی گئی تھی ۔المختصر،بالآخر بہت کوششوں کے بعدناسا کے ماہرین نےاس مشن کو الوداع کہہ دیا ہے ۔

اپر چونٹی روورسے رابطہ ختم ہونے کے بعدناسا کا مارس ایکسپلوریشن روور پروجیکٹ بھی اختتام پذیر ہوگیا ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اس پروجیکٹ کی وجہ سےانہیں سرخ سیارے کو سمجھنے میں مدد ملی تھی ۔مارس روور کو ’’اوپی‘‘(Oppy) کے نام سے بھی جانا جاتا تھا ۔اسے تیار کرنے میںماہرین کو تقریباً7 سال لگے تھے ۔یہ 1 ہزار میٹر (11 سوگز) تک سفر کرسکتا تھا۔ساڑھے چودہ سال کی انتھک محنت کے بعد مارس روور نے سرخ سیارے کو چھواتھا اور مریخ کی سطح پر مزید چیزیں دریافت کرنے کے لیے مزید 30 میل کا سفر طے کیا تھا ۔ماہرین کے مطابق اُس وقت روبوٹ کو بہت زیادہ دھول اور انتہائی درجہ ٔ حرارت کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔آخر میں یہ موسم ِبہار سے اُس وقت ملا تھا جب دھول کے طوفان نےمریخ کو گھیر کے سورج سے باہر نکال دیا تھا ۔یہ اپر چونٹی کے لیے بہت بڑا دھچکا ثابت ہوا ،کیوں کہ روور اپنے آلات کو مکمل طور پر شمسی توانائی سے توانائی فراہم کرنے پر انحصار کرتا تھا ۔اس پر وجیکٹ کے مینیجر جون کیلاس کا کہنا ہے کہ ہم نے اس سے رابطہ کرنے کے کی ہر ممکن کوشش کی ہے ۔وہ اپنی بیلٹ میں 5,352 مارٹن سولس (مریخ پر شمسی دن کا دورانیہ ) کی آزمایش سے گزرا تھا۔ا س پر وجیکٹ کے ڈائریکٹر مائیکل واٹکنس کے مطابق اپرچونٹی روبوٹ کے لیے مریخ سے زیادہ کوئی مناسب سیارہ نہیں تھا ۔24 جنوری 2004ء کو جب وہ مریخ پر اُترا تھا تو اُس نے مریخ پر موجودمیریڈینی پلینم (meridiani planum) نامی حصے کو چھواتھا۔ اس کا ساتھی روبوٹ اسپریٹ اس کے اُترنے سے 20 دن قبل سیارے کے دوسری جانب اُترا تھا ۔ماہرین نے کانفرنس میں بتایا کہ مارس ایکسپلوریشن کا مشن مزید آگے بڑھانے کےلیے انہوں نے نئے نمونے بھی سیٹ کیے تھے ۔ اسےتیار کرنے کا اصل مقصد سیارہ مریخ کی صحیح طرح جانچ پڑتال کرنا تھا ۔تحقیق کاروں کے مطابق سرخ سیارے پر پہنچنے کے بعد وہ اپنا مشن کافی حد تک مکمل کرچکا تھا ۔اس روبوٹ نے یہ دریافت کیا تھا کہ سیارہ مریخ پرموتی کی طرح کی ایک چٹان موجود ہے ۔علاوہ ازیںوہاں پر ایک عر صے سے پانی بھی موجود ہے ۔مجموعی طور پر دونوں روبوٹس کی دریافتوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آج کاسیارہ مریخ پہلے کے سیارہ مریخ کے مقابلے میں کافی مختلف ہے۔پہلے یہ بہت خشک ،سر د اور ویران سیارہ تھا، لیکن قدیم زمانے میں بھی مریخ کی ِسطح کے نیچے پانی موجود تھا۔لہٰذا اب ناسا کا سر خ سیارے کے رازو ں پر سے پردہ اُٹھانے کا مشن اختتام پزیر ہوگیا ہے ۔ناسا اور یورپین اسپیس ایجنسی کے ماہرین مشترکہ طور پر 2020 ء تک مریخ کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لیے ایک نیا روبوٹک مشن شروع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔

اس روبوٹ نے سر خ سیارے پر جاکر انتہائی سخت حالات میں معلومات جمع کی تھیں ۔وہاں کا درجہ ٔ حرارت صفر (زیرو) سے کم ہوتے ہوئے 90 ڈگری تک چلا گیا تھا ۔ماہرین کے مطابق مقناطیسی شیلڈ celsuis کی عدم موجودگی کے سبب وہاں پر سمت کا اندازہ لگانا ناممکن ہے اوروہاں کی فضا خالص کاربن ڈائی آکسائیڈ پر مشتمل ہے ، جس جگہ پر یہ روور اترا تھااسے gale craterکہا جا تا ہے ۔اس مقام کے بارے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہاں کبھی پانی موجود تھا ۔اس تحقیق کامقصد پانی کی موجودگی کی علامات اوردوسرے نامیاتی مواد تلاش کرنا تھا ،تا کہ وہاں زندگی کے آثار کو دریافت کیا جاسکے ۔اس کے سگنلز 14 منٹ میں زمین تک پہنچتے تھے۔ یہ پہلے نمونے جمع کرکے ان کا تجزیہ کرتااور پھر زمین پران تجزیوںکے نتائج بھیجتا تھا۔

تازہ ترین
تازہ ترین