• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

’’ملکہ پکھراج‘‘ اور ’’طاہرہ سید‘‘ کی آواز کا جادو آج بھی سر چڑھ کر بولتا ہے

انسانی آواز ایک خام ہیرے کی مانند ہوتی ہے،یعنی یہ ہیرا پہلے کوئلے کی شکل میں ہوتا ہے۔آپ چاہیں تو اسے تراشتے تراشتے قیمتی ہیرا بھی بنا سکتے ہیں،نہ چاہیں تو جہاں دنیا میں آوازوں کی ایک بھیڑ ہے،اس بھیڑ اوراس بے ہنگم فضا میں گم بھی ہوسکتے ہیں۔لیکن کچھ آوازیں کتنی بھی بھیڑ ہو،شور ہو وہ اپنی جگہ نہ صرف بنا لیتی ہیں ،بلکہ کوئی ان کی جگہ لے بھی نہیں سکتا۔ایسی ہی ایک آواز’’ ملکہ پکھراج‘‘ کی ہے،یہ آواز جب گونجی تو کوئی اس گونج کا مقابلہ نہ کرسکا۔ان کے والدین نے بھی نہ سوچا ہوگاکہ وہ آواز کی دنیا میں جادو جگا سکیں گی۔ملکہ پکھراج جموں کے گاؤں ہمیر پور میں پیدا ہوئیں، ان کا اصل نام حمیدہ تھا۔صرف تین سال کی عمر میں استاد اللہ بخش کی شاگرد بن گئیں اور فن گائیکی کے رموز سیکھ لیے۔ملکہ پکھراج پانچ سال کی تھیں، جب وہ دہلی چلی گئیں اور استاد مومن خان، استاد مولا بخش تلونڈی اور استاد عاشق علی جیسے نامور موسیقاروں سے موسیقی اور ڈانس کی تربیت حاصل کی۔والدین سمجھتے تھے کہ وہ اردو اور فارسی پڑھ کرنام روشن کریں گی،لیکن ان کے استاد جو حکمت بھی جانتے تھے،انہوں نےاردو،فارسی اور موسیقی تینوں شعبوں میںان سے محنت کروائی۔پہلی بار ساڑھے آٹھ سال کی عمر میںفن کا مظاہرہ کیاتو مہارجہ جموں نے دربار میں گانے کی آفر کردی،والدین نے اجازت دے دی۔اس زمانے میں ایک فرسٹ کلاس گزیٹڈ آفیسر کی تنخواہ پانچ سو روپے ہوا کرتی تھی،ملکہ پکھراج نے ساڑھے آٹھ سال کی عمر میں چھے سو پچاس روپے ماہانہ پرمہاراجہ کے گھر ملازمت کر لی۔کچھ برس انہوں نے راجہ کے دربار میں گایا،پھر لاہور چلی آئیں۔ملکہ پکھراج اس بات کو بخوبی سمجھتی تھیں کہ میں ایک کمپوزر ہوں اور مجھے اپنا میوزک فروخت بھی کرنا ہے۔ کس شاعر کی کس غزل کو کس طرح کمپوز کرنا ہے، وہ بہت اچھی طرح جانتی تھیں۔ درحقیقت ملکہ پکھراج اپنے کام کے حوالے سے پرفیکشنسٹ تھیں۔ٹھمری، غزل، بھجن اور راگ پہاڑی گانے میں ملکہ پکھراج کو پورا ملکہ حاصل تھا۔ ملکہ پکھراج بنیادی طور پر پہاڑی اور ڈوگری زبانوں کی لوک موسیقی کی ماہر تھیں اور چالیس کی دہائی میں ان کا شمار برصغیر کے صف اول کے گانے والوں میں ہوتا تھا۔ وہ ٹھمری کے انگ میں غزل گاتی تھیں۔

ملکہ پکھراج نے فن گائیکی میں منفرد مقام بنایا،اُن کا شمار پاکستان کی اُن معروف ترین گلوکاراؤں میں ہوتا ہے جن کے گلے سے سُر کی کرنیں پھوٹتی تھیں ، ان کے گیت برصغیرپاک و ہند میں یکساں پسند کیے گئے۔ ملکہ پکھراج کے شوہر سید شبیر حسین شاہ اعلیٰ تعلیم یافتہ سرکاری افسر او رجانے پہچانے قلم کار تھے۔ سید شبیر شاہ فن موسیقی کے بہت بڑے رسیا تھے۔ وہ اکثر موسیقی کی محفلیں سجایا کرتے تھے جن میں پاکستان کے بڑے بڑے نامور گلوکار حصہ لیا کرتے تھے ۔ ملکہ پکھراج کی کامیابی میں ان کے شوہر شاہ جی کے تعاون اور حوصلہ افزائی کا بہت ہاتھ تھا۔ ان کے دو بیٹیاں اور چاربیٹے پیداہوئے۔ بڑی صاحبزادی طاہرہ سید نے بھی فن گلوکاری میں بڑا نام کمایا۔ریڈیو پاکستان کے موسیقی کے پروڈیوسر کالے خان نے زیادہ تر ان کے لیے دھنیں بنائیں۔ ان سے طاہرہ سیدنے بھی موسیقی کے اسرار ورموز سے آشنائی حاصل کی ۔طاہرہ سید محنت اور ریاض پربھرپور توجہ دیتیں او رجب یہ دونوں ماں بیٹی مل کر گاتیں تو موسیقی پررنگ جم جاتے۔ طاہرہ سید ریڈیو پاکستان یاپی ٹی وی پر گاتیں تو سماںباندھ دیتیں ۔وہ پڑھنے لکھنے اور تعلیم حاصل کرنے کی شوقین تھیں، انہوں نے قانون کی تعلیم پر توجہ دی اور وکیل بن گئیں ۔جس کے بعدمعروف قانون دان ایس ایم ظفر کے ساتھ کام کرنا شروع کر دیا ساتھ ریڈیو ٹی وی سے ناطہ بھی جوڑے رکھا۔طاہرہ سید اور ملکہ پکھراج نے گانے کی پراثر تاثیر کو ہر جگہ پھیلایا۔طاہرہ سید نے تعلیم اور گانے میں مہذب پن کو لاجواب بنایا اور نام کمایا۔ ریڈیو پاکستان کے آوازکے خزانے میں طاہرہ سید کے گائے ہوئے گانوں کے ریکارڈ محفوظ ہیں جو گاہے گاہے نشر ہو تے رہتے ہیں۔

حفیظ جالندھری کی نظم ’’ابھی تو میں جوان ہوں‘‘ملکہ پکھراج کے ساتھ اس طرح منسلک ہوئی کہ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہو گئے۔ یوں تو ملکہ پکھراج نے ہزاروں غزلیں، نغمے، گیت اور گانے گائے لیکن وہ جہاں بھی جاتیں، ’ابھی تو میں جوان ہوں‘ کی فرمائش ضرور ہو تی تھی۔ یہاں تک کہ ضعیفی میں بھی وہ یہ نغمہ گاتی رہیں اور جب گاتی تھیں تو واقعی سننے والا جھوم جھوم جاتا تھا۔ درا صل اس نظم کے الفاظ بھی بہت خوبصورت ہیں، بے حد مرصع اور سجی ہوئی نظم ہے۔ الفاظ کی تکرار اور اس کے ذریعہ پیدا ہو نے والی لے ایک عجیب سرور پیدا کرتی ہے اور جب اس نظم کو ملکہ پکھراج کی خوبصورت اور دلکش آواز مل جاتی ہے تو ایک نیا پیکر اختیار کر لیتی ہے۔ جس سے سامع مسحور ہو کر رہ جاتا ہے۔ملکہ پکھراج نے بڑی جدو جہد بھری زندگی گزاری ان کے گیتوں میں ’لو پھر بسنت آئی‘، ’پیا باج پیالا پیا جائے نا‘علامہ اقبال کی غزل ’ ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں‘، غالب اور فیض کی متعدد غزلیں شامل ہیں اور اس کے علاوہ علامہ اقبال کی مسجد قرطبہ کو ملکہ پکھراج نے جس لحن سے پیش کیا ہے اس نے نظم میں نئے زاویے پیدا کر دیے۔ان کی ایک نظم ’’ہائے میری انگوٹھیاں ‘‘اس قدر مشہور ہوئی کہ اس مصرعے کوعام بول چال میں مثال کے طور پر بھی استعمال کیا جانے لگا۔اسے اپنے پر اثر انداز میں طاہرہ سید نے بھی گایا۔

1980ءمیں حکومت پاکستان نے ملکہ پکھراج کو تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا۔ ان کے گائے ہوئے گانوں کی تعداد اگرچہ کم ہے لیکن انہوں نے جو بھی گیت گایا موسیقی کی دنیا میں اَمر ہو گیا۔ ملکہ4فروری 2004 کو اس جہان فانی سے کوچ کر گئیں،لیکن ان کے گائے سدا بہار گیتوں کا سحر آج بھی شائقین کے دلوں پر برقرار ہے۔ملکہ پکھراج نے صر ف اردو ہی نہیں پنجابی، ڈوگری، سندھی اور سرائیکی میں بھی نغمے گائے اور خوب گائے۔ انہوں نے اپنی خود نوشت ”بے زبانی زباں نہ ہو جائے“ کے عنوان سے لکھی جو اردو کے علاوہ متعدد زبانوں میں شائع ہو چکی ہے۔ 

تازہ ترین
تازہ ترین